اصل مدعہ یہ ہے کہ وہ کونسی باتیں ہیں جو ماں عائشہ (رض) کے بارے میں لکھی گئی ہیں ؟ اس تمام تحریر کو کہاں سے لیا گیا ؟ کونسے "ثبوت" پیش کیئے گئے ؟ کن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ِ؟ ۔۔۔۔۔۔
صرف لعنتیں بھیجنیں سے بد دعائیں دینے سے یا او آئی سی (Oh ! I See) جیسے بے کار فورمز پر اس کا اجتجاج کرنے سے کچھ نہیں ہو گا ، سننی ہماری کسی نے نہیں الٹا مذاق بن کر رہ جائیں گے ۔۔۔ جیسا کے توہین رسالت پر مبنی کارٹونوں والے معاملے میں ہو چکا ۔۔۔ اس طرح کے معاملات میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیئے اس کے لیئے ہمارے پاس دو مثالیں ہی کافی ہیں :-
پہلی مثال::: سلطنت عثمانیہ کے آخری تاجدار کے دور میں لندن کے ایک تھیٹر میں ایک ڈرامہ پیش ہونا تھا ، جس میں تو ہین رسالت کا ارتکاب کیا جانا تھا۔۔ آخری تاجدار نے برطانوی سفیر کو طلب کیا اور یہ ڈرامہ روکنے کی گزارش کی ۔۔ جوابا سفیر نے جواز پیش کیا کہ برطانوی قانون کے تحت اظہار رائے کی آزادی ہے لحاظہ یہ ممکن نہیں ۔۔۔ یہ جواب سن کر تاجدار نے غصے سے اپنی تلوار نکال کر سفیر کے سامنے رکھ دی (تو پھر جنگ کے لیئے تیار ہو جاو) ۔۔ سفیر نے یہ پیغام حکومت برطانیہ کو پہنچایا اور یہ ڈرامہ بند کر دیا گیا ۔۔۔
دوسری مثال بھی برطانیہ کی ہی ہے کہ ایک انگریز مصنف نے ایک ایسی ہی کتاب تحریر کی کہ جس میں رسول عربی (صلوۃ و سلام ہو تمام انبیاء پر) پر اعتراضات کیئے گئے ۔۔ جس کا جواب دینے کے لیئے سرسید احمد خان مرحوم بذات خود برطانیہ گئے اور وہاں کی لائبریریوں سے استفادہ کرتے ہوئے مغربی مصنفین کی ہی تاریخی کتب سے مدلل جوابات دئیے ۔۔۔ اور انھیں کتابی صورت میں شائع کیا ۔۔۔
اب ہم ان میں کس کام کی جرات و اہلیت رکھتے ہیں
؟ سو وہ کرتے ہیں
! میرے وہ احباب جو یہاں لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں اور اپنے مسلک مسلک اور علماء کی نمائندگی کرتے ہیں ، وہ اگر اپنے پیشواوں سے گزارش کریں کے ایسی تمام کتب کا ایسا مدللانہ جواب دیا جائے کہ راج گوپال کی لکھی گئی کتاب "رنگیلا رسول" کی طرح ان کتابوں کو بین کر دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اور تمام امت مسلمہ سرخرو ہو گی ۔۔۔
وسلام