محمد شکیل خورشید
محفلین
زندگی کی یہی کہانی ہے
آگ دل میں نظر میں پانی ہے
تم سے الفت کی بات کرتا ہوں
بات یہ کس قدر پرانی ہے
تیری آنکھوں میں میری چاہت کی
کوئی کھوئی ہوئی نشانی ہے
پھر خمیدہ کمر مقدر ہے
چار دن کی تری جوانی ہے
مان لیتے ہیں ہم کو عشق نہیں
بے سبب بات کیا بڑھانی ہے
ہم پہ کیا گزری اس کی فرقت میں
یہ کتھا اس کو بھی سنانی ہے
بیت ہی جائے گی کبھی نہ کبھی
رات اک ہجر کی نبھانی ہے
جو تھے محبوب بن گئے ہیں رقیب
کیسی الجھی ہوئی کہانی ہے
پیار اک ریت بن گیا ہے شکیل
ریت ہم کو بھی یہ نبھانی ہے
ایک پرانی غزل تقریبا نوے کی دہائی کی
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر احباب و اساتذہ کی نظر
آگ دل میں نظر میں پانی ہے
تم سے الفت کی بات کرتا ہوں
بات یہ کس قدر پرانی ہے
تیری آنکھوں میں میری چاہت کی
کوئی کھوئی ہوئی نشانی ہے
پھر خمیدہ کمر مقدر ہے
چار دن کی تری جوانی ہے
مان لیتے ہیں ہم کو عشق نہیں
بے سبب بات کیا بڑھانی ہے
ہم پہ کیا گزری اس کی فرقت میں
یہ کتھا اس کو بھی سنانی ہے
بیت ہی جائے گی کبھی نہ کبھی
رات اک ہجر کی نبھانی ہے
جو تھے محبوب بن گئے ہیں رقیب
کیسی الجھی ہوئی کہانی ہے
پیار اک ریت بن گیا ہے شکیل
ریت ہم کو بھی یہ نبھانی ہے
ایک پرانی غزل تقریبا نوے کی دہائی کی
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر احباب و اساتذہ کی نظر