اس اک لمحے کی کب سے منتظر تهی
مجهے مل جاؤ گے مجھ کو خبر تهی
تسلسل سوچ کا اب ٹوٹتا ہے
نجانے لگ گئی کیسی فکر تهی
وفا کرنا کہاں آساں ہوا ہے
ہمیشہ سے کٹهن یہ رہ گزر تهی
گلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پرواہ تب کدھر تهی
جوانی کی رفاقت بهی عجب تهی
چلے خوشبو محبت کی جدهر تهی
عمر بهر کا سفر پل میں ہوا طے
عجب نوعیت کی تهی وہ جو ڈگر تهی
تیرے آ جانے سے غم نہ ہوا کم
مسیحائی تری جانے کدهر تهی
جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
طلوع ہونے لگی وہ ہی سحر تهی
گیلانی صاحبہ
رموز شاعری پر کوئی آسان کتاب لے کر مطالعہ کرینگی تو آسانی ہوگی
وزن کے معاملے میں آپ بہت اچھی ہیں ، تقطیع کے اصول سے آشنائی پر دوسروں کی غزلوں پر تقطیع کے مشق سے
الفاظ کا صحیح استعمال اور وزن پر عبور حاصل ہو جائے گا، تب لفظوں کی بستگی مشکل نہیں ہوگی
جہاں تک شاعری کی بات ہے تو یہ مطالع اور الفاظ کے بنک اور صرف ونحو (اردو گرامر) میں ملکہ ہونے کا محتاج ہے
ورنہ ١ چھوٹی آواز اور ٢ بڑی آواز، پر تو کوئی بھی حرف یا لفظ لے کر مصرع یا شعر کہہ سکتا ہے ، مگر کیا ایسے مصرعوں
کو شعر، یا شاعری کہا جاسکتا ہے جس سے کوئی مفہوم نہ نکلے، یا دونوں مصرعوں میں باہمی ربط یا تعلق نظر نہ آئے
آپ کی یا غزل آپ کی نو آموزی کے لحاظ سے بہت اچھی ہے
خیال اور ربط ہے
آپ کی غزل پر سرسری تبصرہ کرتا ہوں اسے دیکھیں اور ان پر غور کرینگی تو بات آپ کے سمجھ میں آ جائے گی
اس اِک لمحے کی کب سے منتظر تهی
مجهے مل جاؤ گے مجھ کو خبر تهی
مطلع بلکل صحیح ہے
منتظر زبر سے ہی صحیح ہے ، زیر سے نہیں
اس کی تقطیع ویسی ہی ہوگی جیسے اس کی آواز ادائیگی پر نکلتی ہے
اِ سِک لَم حے ، کِ کب سے مُن ، تَ ظَر ہُو
پہلے مصرع میں" اک" کی الف پہلے لکھے حرف "اس " کی وجہ سے
مصرع کی فطری ادائیگی پر ادا نہیں ہو رہی ہے اس لئے تقطیع میں بحرکے رکن کے وزن کے مطابق ہے
یعنی لکھا تو "اس اک" ہے مگر پڑھا جارہا ہے = اِ سِک
مطلع یوں بھی کہا جاسکتا ہےکہ :
خوشی کی اِس گھڑی کی منتظر تھی
مجهے مل جاؤ گے مجھ کو خبر تهی
آپ کا مطلع بھی صحیح ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تسلسل سوچ کا اب ٹوٹتا ہے
نجانے لگ گئی کیسی فکر تهی
بالا شعر وزن میں، " فکر" کی تلفظ کی وجہ سے صحیح نہیں ، اگر صحیح بھی ہوتا تب بھی
شعر صحیح نہیں ہوتا ، کیونکہ دونوں مصرعوں میں زمانوں کا فرق ہے
ٹوٹتا ہے= زمانہ حال
کیسی فکر تھی = زمانہ ماضی
کچھ یوں صحیح ہوتا کہ
تسلسل سوچ کے کیوں ٹوٹتےہیں؟
یہی اک فکر تھی، مجھ کو اگر تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کرنا کہاں آساں ہوا ہے
ہمیشہ سے کٹهن یہ رہ گزر تهی
اس میں بھی وہی بالا شعر کی طرح زمانے کا فرق ہے، یوں کردیں گے تو صحیح ہوگا کہ:
وفا کرنا بھلا آساں کہاں تھا!
بہت ہی یہ کٹهن اک رہ گزر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پرواہ تب کدھر تهی
بہت اچھا شعر ہے
صرف یہ کہ اس میں پروا کے بجائے آپ نے" پرواہ" لکھ دیا ہے جو غلط ہے
یعنی ہ کے بغیر" پروا" صحیح ہے
گِلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پروا تب کدھر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوانی کی رفاقت بهی عجب تهی
چلے! خوشبو محبت کی جدهر تهی
شعر اچھا ہے
مگر ایک چیز کا خیال
رکھیں کہ تقابل ردیفین سے بچنے کی کوشش کی جائے
یعنی پہلا مصرع ردیف کی آخری لفظ سا نہ ہو جیسے یہاں تھی، تھی ہے
جوانی کی رفاقت ساتھ لے کر
چلے! خوشبو محبت کی جدهر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر بهر کا سفر پل میں ہوا طے
عجب نوعیت کی تهی وہ جو ڈگر تهی
پہلے مصرع میں عمر اور دوسرے میں نوعیت کی بستگی کی وجہ سے شعربحر سے خارج ہے
عمر اور فکر بر وزنِ "درد یا فرد کے ہیں (پہلے بڑی آواز پھر چھوٹی)
دونوں لفظ "فکر اور عمر" میں اردو کے ہر لفظ کی طرح پہلا حرف متحرک ہے۔
" ک ر" اور " م ر " ساکن ہیں اردو میں کسی بھی لفظ میں کسی متحرک حرف کے بعد صرف دو ہی ساکن حرف کی اجازت ہے
تیسرا شمار نہیں ہوگا یعنی تقطیع میں نہیں آئے گا( تسکین اوسط) ، جیسے گوشت، دوست، پوست وغیرہ ، یعنی یہ بھی درد ، فرد کے وزن پر ہی ہوگا
خیر بالا شعر کو وزن میں لانے کے لئے الفاظ کی ترتیب بدل کر دیکھتے ہیں
سفر اک عمر کا پل میں ہُوا طے
عجب ہی نوعیت کی وہ ڈگر تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے آ جانے سے غم نہ ہوا کم
مسیحائی تری جانے کدهر تهی
پہلے مصرع " نہ " کی وجہ سے وزن میں نہیں
ترے آنے سے بھی کب غم ہوا کم!
مسیحائی تری جانے کدهر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
طلوع ہونے لگی وہ ہی سحر تهی
دوسرا مصرع وزن میں نہیں ہے یوں کردیں:
جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
مرے ہر شب کی آئی وہ سحر تهی
یا تقابل ردیفین کی وجہ سے یوں کہ :
جسے تکنے کی آشا تهی نہ دل میں
مرے ہر شب کی آئی وہ سحر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیلانی صاحبہ بہت خوش رہیں اور لکھتی رہیں