ایک اور کوشش - برائے اصلاح، بہت شکریہ!

اس اک لمحے کی کب سے منتظر تهی
مجهے مل جاو گے مجھ کو خبر تهی

تسلسل سوچ کا اب ٹوٹتا ہے
نجانے لگ گئی کیسی فکر تهی

وفا کرنا کہاں آساں ہوا ہے
ہمیشہ سے کٹهن یہ رہ گزر تهی

گلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پرواہ تب کدھر تهی

جوانی کی رفاقت بهی عجب تهی
چلے خوشبو محبت کی جدهر تهی

عمر بهر کا سفر پل میں ہوا طے
عجب نوعیت کی تهی وہ جو ڈگر تهی

تیرے آ جانے سے غم نہ ہوا کم
مسیحائی تری جانے کدهر تهی

جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
طلوع ہونے لگی وہ ہی سحر تهی
 
اس اک لمحے کی کب سے منتظر تهی
مجهے مل جاو گے مجھ کو خبر تهی
÷÷کیا آپ منتظر کی "ظ" کو مفتوح پڑھتی ہیں؟
تسلسل سوچ کا اب ٹوٹتا ہے
نجانے لگ گئی کیسی فکر تهی
÷÷ کیا فکر کا "ک" ساکن نہیں ہوتا؟
وفا کرنا کہاں آساں ہوا ہے
ہمیشہ سے کٹهن یہ رہ گزر تهی
÷÷ یہ شعر تو ٹھیک ہے پر۔۔۔ وفا کرنے اور رہگزر کا ربط؟
گلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پرواہ تب کدھر تهی
تاکید شعری کی زیادتی ہے شاید؟
جوانی کی رفاقت بهی عجب تهی
چلے خوشبو محبت کی جدهر تهی
اگر رفاقت کو "مصافت" کردیں تو؟؟ چلنے کے حساب سے پوچھ رہا ہوں
عمر بهر کا سفر پل میں ہوا طے
عجب نوعیت کی تهی وہ جو ڈگر تهی
کیا آپ عمر کو مفتوح پڑھتی ہیں؟؟ دوسرے مصرع میں پہلا تھی زائد نہیں لگتا آپ کو؟؟
تیرے آ جانے سے غم نہ ہوا کم
مسیحائی تری جانے کدهر تهی
یہاں "نہ" کو "نا" باندھنا شاید غیر فصیح رہے
جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
طلوع ہونے لگی وہ ہی سحر تهی
دوسرے مصرع میں شاید تاکید شعری بہت ہے،۔۔
ایک بار پھر طبع آزمائی کی جسارت!
باقی اساتذہ جانیں۔۔
 
ایک مثال بھی ذہن میں آئی پیش کر دیکھتا ہوں
مصرع میں تعقید:
مجھ کو سونپا ہے زمانے کے تئیں قسمت نے
تعقید دور ہو تو:
مجھ کو قسمت نے زمانے کے تئیں سونپا ہے

لیکن یہ معانی میں دبی ہوئی تعقید ہے۔
تعقید لفظی نہیں۔ بلکہ تعقید معنوی کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔ :)
 
جی ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ پر اشعار برائے اصلاح میں کیا تعقید نہیں؟؟
گلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پرواہ تب کدھر تهی


اس شعر میں مجھے تعقید کا کوئی عنصر نہیں ملتا۔
البتہ پرواہ سے ”ہ“ کا گرنا معیوب ہے۔


جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
طلوع ہونے لگی وہ ہی سحر تهی

اس شعر میں کہہ سکتے ہیں کے تعقید ہے۔
اور عین بھی گر گیا۔
خیر استاد حضرات جانیں۔ :)
ہم کہاں کے دانا ہیں ؟
ڈر لگتا ہے کہیں استادی جھاڑنے والا طعنہ واپس نہ مل جائے :)
 
اردو میں تعلیم کا آغاز کیا تها. آگے جا کر بآت بگڑ گئی. سوچا تها اردو اپنی زبان ہے ہمیشہ آسان لگے گی اب اندازہ ہوتا ہے کتنا کچھ انجانے میں کهو دیا ہے..!

وہ کہا جاتا ہے وفا کی راہ پر چلنا مشکل ہوتا ہے بس اسی حوالے سے یہ شعر لکها ہے.

موبائل سے جوابات ارسال کر رہی ہوں کوئی لکهنے میں غلطی ہو تو معافی چاہتی ہوں.
 

الف عین

لائبریرین
مفتوح سے مراد زبر والا۔ یعنی تم نے جس طرح منتظر کی ظ کو زبر سے باندھا ہے، جب کہ یہاں زیر والے منتظر کا ہی محل ہے۔ اسی طرح فکر میں کاف ساکن ہوتا ہے، یہاں فِ کَ ر نظم ہوا ہے۔
تعقید کا تو میں نھے نام ہی سنا ہے، اس سلسلے میں کیا کہوں!!!
 
مفتوح سے مراد زبر والا۔ یعنی تم نے جس طرح منتظر کی ظ کو زبر سے باندھا ہے، جب کہ یہاں زیر والے منتظر کا ہی محل ہے۔ اسی طرح فکر میں کاف ساکن ہوتا ہے، یہاں فِ کَ ر نظم ہوا ہے۔
تعقید کا تو میں نھے نام ہی سنا ہے، اس سلسلے میں کیا کہوں!!!

شکریہ سر جی!
میرے تلفظ میں غلطیاں ہیں بہت۔۔
مثلا "نوعیت" کو میں "noyat" پڑھتی ہوں۔ یہاں اصلاح ہوئی ہے تو پتا چلا ہے کہ شاید نوعیت "شد" کے ساتھ پڑھا جاتا ہے؟
پچھلے اشعار میں کہیں "نظاروں" لکھا تھا، کسی نے بتایا نظاروں میں بھی "ظ" پر شد ہوتا ہے، لہذا وہ شعر غلط تھا۔

ایک اور بات کی وظاحت کر دیجئے گا ذرا، زیر زبر ملانا بھی کیا قافیہ ملانے کے لئے ضروری ہوتا ہے؟ پہلا شعر لکھنے سے پہلے کسی سے اس بات کے بارے میں پوچھا تھا انہوں نے کہا تھا کہ شاید ضروری نہیں ہے۔

مثالوں سے جہاں تک سمجھ میں آیا ہے تو تعقید کا مطلب شاید یہ ہے کہ جب ایک بات بہت سیدھے طریقے سے کر دی جائے، یعنی ایک جملے کی طرح سے، اور پھر اس میں کوئی بھی surprise کا عنصر یا irregularity نہ ہو، جو کہ ایک شعر کو، اب کیا کہوں، "مزے دار" بنانے میں مدد کرتے ہیں :)
 

طارق شاہ

محفلین
اس اک لمحے کی کب سے منتظر تهی
مجهے مل جاؤ گے مجھ کو خبر تهی

تسلسل سوچ کا اب ٹوٹتا ہے
نجانے لگ گئی کیسی فکر تهی

وفا کرنا کہاں آساں ہوا ہے
ہمیشہ سے کٹهن یہ رہ گزر تهی

گلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پرواہ تب کدھر تهی

جوانی کی رفاقت بهی عجب تهی
چلے خوشبو محبت کی جدهر تهی

عمر بهر کا سفر پل میں ہوا طے
عجب نوعیت کی تهی وہ جو ڈگر تهی

تیرے آ جانے سے غم نہ ہوا کم
مسیحائی تری جانے کدهر تهی

جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
طلوع ہونے لگی وہ ہی سحر تهی

گیلانی صاحبہ
رموز شاعری پر کوئی آسان کتاب لے کر مطالعہ کرینگی تو آسانی ہوگی
وزن کے معاملے میں آپ بہت اچھی ہیں ، تقطیع کے اصول سے آشنائی پر دوسروں کی غزلوں پر تقطیع کے مشق سے
الفاظ کا صحیح استعمال اور وزن پر عبور حاصل ہو جائے گا، تب لفظوں کی بستگی مشکل نہیں ہوگی
جہاں تک شاعری کی بات ہے تو یہ مطالع اور الفاظ کے بنک اور صرف ونحو (اردو گرامر) میں ملکہ ہونے کا محتاج ہے
ورنہ ١ چھوٹی آواز اور ٢ بڑی آواز، پر تو کوئی بھی حرف یا لفظ لے کر مصرع یا شعر کہہ سکتا ہے ، مگر کیا ایسے مصرعوں
کو شعر، یا شاعری کہا جاسکتا ہے جس سے کوئی مفہوم نہ نکلے، یا دونوں مصرعوں میں باہمی ربط یا تعلق نظر نہ آئے
آپ کی یا غزل آپ کی نو آموزی کے لحاظ سے بہت اچھی ہے
خیال اور ربط ہے
آپ کی غزل پر سرسری تبصرہ کرتا ہوں اسے دیکھیں اور ان پر غور کرینگی تو بات آپ کے سمجھ میں آ جائے گی

اس اِک لمحے کی کب سے منتظر تهی
مجهے مل جاؤ گے مجھ کو خبر تهی

مطلع بلکل صحیح ہے
منتظر زبر سے ہی صحیح ہے ، زیر سے نہیں
اس کی تقطیع ویسی ہی ہوگی جیسے اس کی آواز ادائیگی پر نکلتی ہے
اِ سِک لَم حے ، کِ کب سے مُن ، تَ ظَر ہُو

پہلے مصرع میں" اک" کی الف پہلے لکھے حرف "اس " کی وجہ سے
مصرع کی فطری ادائیگی پر ادا نہیں ہو رہی ہے اس لئے تقطیع میں بحرکے رکن کے وزن کے مطابق ہے
یعنی لکھا تو "اس اک" ہے مگر پڑھا جارہا ہے = اِ سِک

مطلع یوں بھی کہا جاسکتا ہےکہ :

خوشی کی اِس گھڑی کی منتظر تھی
مجهے مل جاؤ گے مجھ کو خبر تهی
آپ کا مطلع بھی صحیح ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تسلسل سوچ کا اب ٹوٹتا ہے
نجانے لگ گئی کیسی فکر تهی

بالا شعر وزن میں، " فکر" کی تلفظ کی وجہ سے صحیح نہیں ، اگر صحیح بھی ہوتا تب بھی
شعر صحیح نہیں ہوتا ، کیونکہ دونوں مصرعوں میں زمانوں کا فرق ہے
ٹوٹتا ہے= زمانہ حال
کیسی فکر تھی = زمانہ ماضی
کچھ یوں صحیح ہوتا کہ

تسلسل سوچ کے کیوں ٹوٹتےہیں؟
یہی اک فکر تھی، مجھ کو اگر تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کرنا کہاں آساں ہوا ہے
ہمیشہ سے کٹهن یہ رہ گزر تهی

اس میں بھی وہی بالا شعر کی طرح زمانے کا فرق ہے، یوں کردیں گے تو صحیح ہوگا کہ:

وفا کرنا بھلا آساں کہاں تھا!
بہت ہی یہ کٹهن اک رہ گزر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پرواہ تب کدھر تهی

بہت اچھا شعر ہے
صرف یہ کہ اس میں پروا کے بجائے آپ نے" پرواہ" لکھ دیا ہے جو غلط ہے
یعنی ہ کے بغیر" پروا" صحیح ہے
گِلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پروا تب کدھر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوانی کی رفاقت بهی عجب تهی
چلے! خوشبو محبت کی جدهر تهی
شعر اچھا ہے
مگر ایک چیز کا خیال رکھیں کہ تقابل ردیفین سے بچنے کی کوشش کی جائے
یعنی پہلا مصرع ردیف کی آخری لفظ سا نہ ہو جیسے یہاں تھی، تھی ہے
جوانی کی رفاقت ساتھ لے کر
چلے! خوشبو محبت کی جدهر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر بهر کا سفر پل میں ہوا طے
عجب نوعیت کی تهی وہ جو ڈگر تهی
پہلے مصرع میں عمر اور دوسرے میں نوعیت کی بستگی کی وجہ سے شعربحر سے خارج ہے
عمر اور فکر بر وزنِ "درد یا فرد کے ہیں (پہلے بڑی آواز پھر چھوٹی)
دونوں لفظ "فکر اور عمر" میں اردو کے ہر لفظ کی طرح پہلا حرف متحرک ہے۔
" ک ر" اور " م ر " ساکن ہیں اردو میں کسی بھی لفظ میں کسی متحرک حرف کے بعد صرف دو ہی ساکن حرف کی اجازت ہے
تیسرا شمار نہیں ہوگا یعنی تقطیع میں نہیں آئے گا( تسکین اوسط) ، جیسے گوشت، دوست، پوست وغیرہ ، یعنی یہ بھی درد ، فرد کے وزن پر ہی ہوگا
خیر بالا شعر کو وزن میں لانے کے لئے الفاظ کی ترتیب بدل کر دیکھتے ہیں
سفر اک عمر کا پل میں ہُوا طے
عجب ہی نوعیت کی وہ ڈگر تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے آ جانے سے غم نہ ہوا کم
مسیحائی تری جانے کدهر تهی
پہلے مصرع " نہ " کی وجہ سے وزن میں نہیں

ترے آنے سے بھی کب غم ہوا کم!
مسیحائی تری جانے کدهر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
طلوع ہونے لگی وہ ہی سحر تهی

دوسرا مصرع وزن میں نہیں ہے یوں کردیں:

جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
مرے ہر شب کی آئی وہ سحر تهی

یا تقابل ردیفین کی وجہ سے یوں کہ :

جسے تکنے کی آشا تهی نہ دل میں
مرے ہر شب کی آئی وہ سحر تهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیلانی صاحبہ بہت خوش رہیں اور لکھتی رہیں
 
گیلانی صاحبہ
رموز شاعری پر کوئی آسان کتاب لے کر مطالعہ کرینگی تو آسانی ہوگی
وزن کے معاملے میں آپ بہت اچھی ہیں ، تقطیع کے اصول سے آشنائی پر دوسروں کی غزلوں پر تقطیع کے مشق سے
الفاظ کا صحیح استعمال اور وزن پر عبور حاصل ہو جائے گا، تب لفظوں کی بستگی مشکل نہیں ہوگی
جہاں تک شاعری کی بات ہے تو یہ مطالع اور الفاظ کے بنک اور صرف ونحو (اردو گرامر) میں ملکہ ہونے کا محتاج ہے
ورنہ ١ چھوٹی آواز اور ٢ بڑی آواز، پر تو کوئی بھی حرف یا لفظ لے کر مصرع یا شعر کہہ سکتا ہے ، مگر کیا ایسے مصرعوں
کو شعر، یا شاعری کہا جاسکتا ہے جس سے کوئی مفہوم نہ نکلے، یا دونوں مصرعوں میں باہمی ربط یا تعلق نظر نہ آئے
آپ کی یا غزل آپ کی نو آموزی کے لحاظ سے بہت اچھی ہے
خیال اور ربط ہے
آپ کی غزل پر سرسری تبصرہ کرتا ہوں اسے دیکھیں اور ان پر غور کرینگی تو بات آپ کے سمجھ میں آ جائے گی

اس اِک لمحے کی کب سے منتظر تهی
مجهے مل جاؤ گے مجھ کو خبر تهی

مطلع بلکل صحیح ہے
منتظر زبر سے ہی صحیح ہے ، زیر سے نہیں
اس کی تقطیع ویسی ہی ہوگی جیسے اس کی آواز ادائیگی پر نکلتی ہے
اِ سِک لَم حے ، کِ کب سے مُن ، تَ ظَر ہُو

پہلے مصرع میں" اک" کی الف پہلے لکھے حرف "اس " کی وجہ سے
مصرع کی فطری ادائیگی پر ادا نہیں ہو رہی ہے اس لئے تقطیع میں بحرکے رکن کے وزن کے مطابق ہے
یعنی لکھا تو "اس اک" ہے مگر پڑھا جارہا ہے = اِ سِک

مطلع یوں بھی کہا جاسکتا ہےکہ :

خوشی کی اِس گھڑی کی منتظر تھی
مجهے مل جاؤ گے مجھ کو خبر تهی
آپ کا مطلع بھی صحیح ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

تسلسل سوچ کا اب ٹوٹتا ہے
نجانے لگ گئی کیسی فکر تهی

بالا شعر وزن میں، " فکر" کی تلفظ کی وجہ سے صحیح نہیں ، اگر صحیح بھی ہوتا تب بھی
شعر صحیح نہیں ہوتا ، کیونکہ دونوں مصرعوں میں زمانوں کا فرق ہے
ٹوٹتا ہے= زمانہ حال
کیسی فکر تھی = زمانہ ماضی
کچھ یوں صحیح ہوتا کہ

تسلسل سوچ کے کیوں ٹوٹتےہیں؟
یہی اک فکر تھی، مجھ کو اگر تھی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
وفا کرنا کہاں آساں ہوا ہے
ہمیشہ سے کٹهن یہ رہ گزر تهی

اس میں بھی وہی بالا شعر کی طرح زمانے کا فرق ہے، یوں کردیں گے تو صحیح ہوگا کہ:

وفا کرنا بھلا آساں کہاں تھا!
بہت ہی یہ کٹهن اک رہ گزر تهی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
گلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پرواہ تب کدھر تهی

بہت اچھا شعر ہے
صرف یہ کہ اس میں پروا کے بجائے آپ نے" پرواہ" لکھ دیا ہے جو غلط ہے
یعنی ہ کے بغیر" پروا" صحیح ہے
گِلے غیروں سے ہی رہتے تهے مجھ کو
مجهے اپنوں کی پروا تب کدھر تهی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
جوانی کی رفاقت بهی عجب تهی
چلے! خوشبو محبت کی جدهر تهی
شعر اچھا ہے
مگر ایک چیز کا خیال رکھیں کہ تقابل ردیفین سے بچنے کی کوشش کی جائے
یعنی پہلا مصرع ردیف کی آخری لفظ سا نہ ہو جیسے یہاں تھی، تھی ہے
جوانی کی رفاقت ساتھ لے کر
چلے! خوشبو محبت کی جدهر تهی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
عمر بهر کا سفر پل میں ہوا طے
عجب نوعیت کی تهی وہ جو ڈگر تهی
پہلے مصرع میں عمر اور دوسرے میں نوعیت کی بستگی کی وجہ سے شعربحر سے خارج ہے
عمر اور فکر بر وزنِ "درد یا فرد کے ہیں (پہلے بڑی آواز پھر چھوٹی)
دونوں لفظ "فکر اور عمر" میں اردو کے ہر لفظ کی طرح پہلا حرف متحرک ہے۔
" ک ر" اور " م ر " ساکن ہیں اردو میں کسی بھی لفظ میں کسی متحرک حرف کے بعد صرف دو ہی ساکن حرف کی اجازت ہے
تیسرا شمار نہیں ہوگا یعنی تقطیع میں نہیں آئے گا( تسکین اوسط) ، جیسے گوشت، دوست، پوست وغیرہ ، یعنی یہ بھی درد ، فرد کے وزن پر ہی ہوگا
خیر بالا شعر کو وزن میں لانے کے لئے الفاظ کی ترتیب بدل کر دیکھتے ہیں
سفر اک عمر کا پل میں ہُوا طے
عجب ہی نوعیت کی وہ ڈگر تھی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
تیرے آ جانے سے غم نہ ہوا کم
مسیحائی تری جانے کدهر تهی
پہلے مصرع " نہ " کی وجہ سے وزن میں نہیں

ترے آنے سے بھی کب غم ہوا کم!
مسیحائی تری جانے کدهر تهی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
طلوع ہونے لگی وہ ہی سحر تهی

دوسرا مصرع وزن میں نہیں ہے یوں کردیں:

جسے تکنے کی آشا مر چکی تهی
مرے ہر شب کی آئی وہ سحر تهی

یا تقابل ردیفین کی وجہ سے یوں کہ :

جسے تکنے کی آشا تهی نہ دل میں
مرے ہر شب کی آئی وہ سحر تهی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
گیلانی صاحبہ بہت خوش رہیں اور لکھتی رہیں

بہت بہت بہت شکریہ آپ کا اس اصلاح کے لئے :)
I'm really very grateful to you
اور اگر آپ کوئی کتاب تجویز کر دیں تو بہت اچھا ہوگا :ُ)
 

طارق شاہ

محفلین
١ ۔ دریائے لطافت (مصنف سید انشااللہ خاں انشا) ترجمہ پنڈت برج موہن دتاریہ کیفی
انجمن ترقی اردو پاکستان

٢ ۔ مقدمہ شعر و شاعری (الطاف حسین حالی)

٣ ۔ قوائد زبان اردو (مولوی عبدالحق"با با ئے اردو)
انجمن ترقی اردو پاکستان

٤۔ ترجمہ حدائق البلاغت (ڈاکٹر خدیجہ ۔۔۔۔؟)
لاہور کے کسی پبلشر نے شائع کیا ہے،

پہلی دو کتابوں کا مطالع سرسری کریں ، یہ یوں پڑھنے کی ہیں کہ اس میں بنیادی باتیں ہیں، یہ گفتگو، محاورات اور شاعری پر ضروری ہیں
باقی کی دو کتابیں توجہ طلب ہیں اور نہایت ضروری ہیں
last two books are for intense reading

ان کے علاوہ یا ان کے بعد آپ کسی بھی بک سٹور سے رموز شاعری پر ، شاعری سیکھئے والی کتابیں لیں سکتی ہیں
جن کی بالا کتابوں کے بعد ضرورت نہیں پڑے گی
جب اچھی شاعری کرنے لگ جائیں تب جمال الدین جمال ، طباطبائی، جمیل جالبی وغیرہ کی کتابیں دیکھ لیجئے گا

بہت شکریہ جواب کا،
کم از کم دو گھنٹے اچھی شاعری یا مستند نثر لغت کی مدد سے روزمرہ میں شامل کرلیں

بہت سی دعائیں آپ کے لئے
تشکّر
 
Top