مجید امجد ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام۔۔ مجید امجد

راہب

محفلین
ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام
ہم لب سے لگا کر جام ہوئے بدنام بڑے بدنام

رت بدلی کہ صدیاں لوٹ آئیں اف یاد کسی کی یاد
پھر سیل زماں میں تیر گیا ایک نام ، کسی کا نام

دل ہے کہ اک اجنبی حیراں ، تم ہو کہ پرایا دیس
نظروں کی کہانی بن نہ سکے ہونٹوں پہ رکے پیغام

اے تیرگیوں کی گھومتی رو کوئی تو رسیلی صبح
اے روشنیوں‌کی ڈولتی لو ، اک شام ، نشیلی شام

رہ رہ کے جیالے راہیوں کو دیتا ہے کون یہ آواز
کونین کی ہستی منڈیروں پر تم ہو کہ غم ِایام

بے برگ شجر گردوں کی طرف پھیلائے ہمکتے ہات
پھولوں سے بھری ڈھلوان پہ سوکھے پات کریں بسرام

ہم فکر میں ہیں اس عالم کا دستور ہے کیا دستور
یہ کس کو خبر اس فکر کا ہےدستورِ دو عالم نام
 

سید ذیشان

محفلین

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث
میں کافی تذبذب میں مبتلا تھا کیونکہ سید ذیشان بھائی کی عروض سائٹ بھی اسے خارج از بحر قرار دے رہی تھی۔۔۔۔تاہم جواب کا شکریہ!
یہ خارج از بحر تو بہرحال نہیں۔

آپ اس کو فعلن فعلن پر تقطیع کرتے جائیں، بیچ میں ارکان فعل فعولن پر بھی تقطیع ہونگے اور مفعول فَعَل پر بھی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب، ایک ایک گلی کہرام
ہم لب سے لگا کر جام، ہوئے بدنام، بڑے بدنام

رت بدلی کہ صدیاں لوٹ آئیں، اف یاد، کسی کی یاد
پھر سیلِ زماں میں تیر گیا اک نام، کسی کا نام

دل ہے کہ اک اجنبی حیراں، تم ہو کہ پرایا دیس
نظروں کی کہانی بن نہ سکی ہونٹوں پہ رکے پیغام

روندیں تو یہ کلیاں نیشِ بلا، چومیں تو یہ شعلے پھول
یہ غم یہ کسی کی دین بھی ہے، انعام، عجب انعام

اے تیرگیوں کی گھومتی رو، کوئی تو رسیلی صبح
اے روشنیوں کی ڈولتی لو، اک شام، نشیلی شام

رہ رہ کے جیالے راہیوں کو دیتا ہے یہ کون آواز
کونین کی ہنستی منڈیروں پر، تم ہو کہ غمِ ایام

بے برگ شجر گردوں کی طرف پھیلائیں ہمکتے ہات
پھولوں سے بھری ڈھلوان پہ سوکھے پات کریں بسرام

ہم فکر میں ہیں اس عالم کا دستور ہے کیا دستور
یہ کس کو خبر اس فکر کا ہے دستورِ دو عالم نام

مجید امجد

 
آخری تدوین:
Top