ایک بادشاہ کی کہانی

یہ ایک بادشاہ کی پُرانی کہانی ہے۔ اُس کا ایک بچپن کا دوست تھا جس کے ساتھ وہ کھیل کود کر جوان ہوا تھا۔ بادشاہ اپنے اُس دوست کو ہمہ وقت ساتھ رکھتا تھا۔ اُس کی عادت تھی کہ اُس کی زندگی میں خواہ کوئی بھی اچھی بُری بات ہو وہ ہمیشہ یہ ہی کہتا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔ ایک دن بادشاہ اور اُس کا دوست شکار کیلئے جنگل میں گئے۔ دوست نے بادشاہ کیلئے بندوق میں گولی بھری اور بندوق تیار کر کے بادشاہ کو دی لیکن گولی بھرنے میں اُس سے کچھ غلطی ہو گئی اور جب بادشاہ نے شکار کے لئے گولی چلائی تو اُس کا انگوٹھا کٹ گیا۔یہ صورتحال دیکھ کر دوست نے اپنی عادت کے مطابق کہا ’جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے،اس میں یقینا کوئی بہتری ہو گی۔ یہ سن کر بادشاہ کو شدید غصہ آیا اور بولا :یہ بہتر نہیں ہے، میرا انگوٹھا ضائع ہو گیا ہے
اور تم کہہ رہے ہو اچھا ہوا اورساتھ ہی حکم جاری کیا کہ اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے۔ ایک سال بعد بادشاہ دوبارہ ایک جگہ شکار کھیلنے گیا۔ وہاں بدقسمتی سے اُسے آدم خور جنگلیوں نے پکڑ لیا اور اپنے علاقے میں لے گئے۔ اُنہوں نے بادشاہ کے ہاتھ باندھ دیئے۔ اب آگ جلا کر وہ بادشاہ کو جلانے ہی والے تھے کہ اُن کی نظر بادشاہ کے انگوٹھے پر پڑی تو پتہ چلا کہ بادشاہ ایک انگوٹھے سے معذور ہے۔ وہمی اور توہم پرست قوم ہونے کی وجہ سے وہ کسی نامکمل انسان کو نہیں کھاتے تھے لہٰذا انہوں نے بادشاہ کورہا کر دیا۔ جب بادشاہ گرتا پڑتا اپنے محل میں پہنچا تو اُسے خیال آیا کہ کس طرح اُس کا انگوٹھا کٹ گیا تھا اور اُس نے اپنے دوست کو جیل میں بھجوا دیا تھا۔ فوراََ اُس نے اپنے خدام کو حکم دیا کہ اُس کے دوست کو باعزت دربار میں پیش کیا جائے۔ جب اُس کا دوست آیا تو بادشاہ نے اُسے سارا حال سُنایا اور کہا کہ میں نے تمھارے ساتھ بہت بُرا کیا۔، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا، مجھے معاف کردو۔ تم صحیح تھے وہ اچھا اور بہتر ہی ہوا تھا کہ میرا انگوٹھا کٹ گیا تھا۔ آج اس انگوٹھے کے نہ ہونے کی وجہ سے میری جان بچ گئی۔ یہ سُن کر بادشاہ کا دوست مسکرایا اور بولا :یہ بھی بہتر ہی ہوا کہ آپ نے مجھے جیل بھجوا دیا۔ اپنے دوست کی یہ بات سُن کر بادشاہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ اچھا اور بہتر کس طرح تھا۔تم ایک سال تک جیل میں رہے اور کہہ رہے ہو کہ اچھا ہوا۔ دوست مسکرا کر بولا :’’ہاں ! اچھا ہوا اور بہت بہتر ہوا کہ اگر میں جیل میں نہ ہوتا تو یقینا میں تمھارے ساتھ ہوتا اور وہ جنگلی اب تک مجھے ہڑپ کر چکے ہوتے کیونکہ میرا انگوٹھا صحیح سالم ہے‘‘۔ زندگی میں اکثرجو کچھ بھی ہوتا ہے وہ یقینا اچھے کیلئے ہی ہوتا ہے
لیکن انسان فطرتاََ جلدباز واقع ہوا ہے اور اُسی وقت نتیجہ چاہتا ہے جبکہ قدرت کا نتیجہ تھوڑے وقفے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔فرق صرف اتناہے کہ اُمید کا سہارا کبھی نہیں چھوڑنا چاہیئے اور سوچ ہمیشہ مثبت رکھنی چاہیے۔
( بینش جمیل کی کتاب ’’ زندگی کے انمول سبق‘‘ سے ماخوذ)
 
Top