مظفر بخاری
محفلین
(میری کتاب "گستاخی معاف" سے ایک مضمون)
’’برخودار! عبدالحمید صاحب اسی گھر میں رہتے ہیں؟‘‘
’’میدہ چرسی؟‘‘ نوجوان نے پوچھا۔
’’ہاں ،میرا خیال ہے وہی۔‘‘
’’ وہ میرے نانا ہیں ، لیکن آپ اس وقت ان سے ملاقات نہیں کر سکتے‘‘۔
’’کیوں؟‘‘
’’وہ سو رہے ہیں۔‘‘
’’تو پھر کس وقت آؤں؟‘‘
’’ان کے سونے جاگنے کا کوئی وقت نہیں۔ دن میں ایک ڈیڑھ گھنٹے کے لئے جاگتے ہیں لیکن کوئی ٹائم فکس نہیں ہے۔‘‘
’’دیکھو بیٹا، میں بی بی سی کا نمائندہ ہوں۔ اگر تم اپنے نانا سے میری ملاقات کروا دو تو ان کی شہرت دور دور تک پھیل جائے گی۔‘‘
’’لیکن وہ تو پہلے ہی بہت مشہور ہیں۔ آپ لاہور میں جس کسی سے پوچھیں گے میدہ چرسی کا گھر کہاں ہے ، وہ آپ کو یہاں پہنچا دے گا۔‘‘
یہ سن کر بی بی سی کے نمائندے نے کہا’’ مجھ سے ملاقات کے بعد ان کے شہرت ساری دنیا میں پھیل جائے گی۔ اس لئے کہ ہمارا ریڈیو اور ٹیلی ویژن تمام دنیا میں سنا اور دیکھا جاتا ہے۔‘‘
’’مطلب یہ ہے کہ آپ ان کا انٹرویو لینے آئے ہیں۔‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’اﷲ تمہارا بھلا کرے، تم بالکل ٹھیک سمجھے ہو۔‘‘ نمائندہ بولا۔
’’ایک بات میں آپ کو پہلے بتا دوں۔ نانا سے بات کرنے کے پیسے لگتے ہیں۔ جو بھی ان سے ملنے آتا ہے، کچھ دے کر ہی جاتا ہے۔ آخر نانا نے چرس کا خرچہ بھی تو پورا کرنا ہوتا ہے،‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’اس بات کی فکر نہ کرو۔ اتنے پیسے دوں گا کہ وہ خوش ہو جائیں گے۔‘‘
’’اچھا آپ ٹھہریں ۔ انہیں جگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ نہ جاگے تو نانی سے کہوں گا۔ ان کی ایک ہی آواز پر نہ صرف نانا بلکہ پورا گھرانا جاگ اٹھتا ہے۔‘‘
’’تم نانی سے کہو کہ جو صاحب ملنے آئے ہیں وہ پیسے بھی دیں گے،‘‘ نمائندے نے رائے دی۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔یہ کہہ کر نوجوان چلا گیا، تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد لوٹ کر آیا۔
’’مبارک ہو سر، ہم نانا جان کو جگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ بیٹھک میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آیئے میرے ساتھ۔‘‘
’’نوجوان اُسے ایک تنگ سے کمرے میں لے گیا جہاں عبدالحمید صاحب ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔‘‘
’’السلام علیکم چوہدری صاحب‘‘ نمائندے نے کہا۔
جواب نہ پا کر اس نے نوجوان کی طرف دیکھا۔ اس نے نانا کا کندھا زور سے ہلاتے ہوئے کہا ’’نانا جان ، بی بی سی کے نمائندے آئے ہیں۔‘‘
’’کون بی بی جی؟‘‘ دُور سے نانا جان کی آواز آئی۔
’’ بی بی جی نہیں، بی بی سی‘‘ لڑکے نے زور دے کر کہا۔
’’اچھا! اچھا! ٹھیک ہے‘‘ چوہدری صاحب نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔
’’بیٹھو جی۔ آپ کھڑے کیوں ہیں؟‘‘ چودھری صاحب نے کہا۔
’’جی میں کھڑا نہیں ہوں۔ بیٹھا ہوا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ بیٹھے رہیں۔ کیا پیئں گے آپ؟ چائے، کوکا کولا یا چرس؟‘‘ چودھری صاحب نے کہا۔
’’جی میں کچھ نہیں پیوں گا۔ آپ کا انٹرویو لینے آیا ہوں تاکہ اسے بی بی سی ریڈیو پر نشر کیا جا سکے۔‘‘
یہ سن کر عبدالحمید صاحب نے ہاں میں سر ہلایا۔
’’چوہدری صاحب یہ فرمائیں آپ نے چرس کا پہلا سُوٹا کب ، کہاں ، کیسے ، کیوں اور کس طرح لگایا؟‘‘
’’یار تم ایک سوال میں چار چار پانچ پانچ سوال پوچھ رہے ہو، جب کہ ہم جیسوں سے بات کرنے کیلئے ایک سوال کو چار چار دفعہ پوچھنا پڑتا ہے۔ پھر کہیں جا کر جواب ملتا ہے۔‘‘
’’معافی چاہتا ہوں چودھری جی۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کیا معاشرتی اور نفسیاتی عوامل تھے جنہوں نے آپ کو چرس کی جانب راغب کیا؟‘‘
’’اردو میں بات کرو یار ؟‘‘ چودھری صاحب نے قدرے غصے میں کہا۔
’’معافی چاہتا ہوں۔ یہ فرمائیں آپ نے چرس کب پینی شروع کی؟‘‘
’’ہاں یہ ہوئی نا بات۔ لو سنو اب صحیح وقت تو مجھے یاد نہیں۔ یوں سمجھ لو کہ جب انگریز کی حکومت میں خاکساروں پر گولی چلی تھی، اس روز میں نے چرس کا پہلا سوٹا لگایا تھا۔‘‘
’’تو گویا آپ تقریباً 58سال سے چرس پی رہے ہیں۔‘‘
’’حساب تم خود کر لو۔ ‘‘ عبدالحمید صاحب نے کہا۔
’’پہلا سوٹا لگانے کے بعد آپ نے کیا محسوس کیا؟‘‘ نمائندے نے پوچھا۔
’’مجھے یوں لگا کہ میں اُڑ رہا ہوں اور چوتھے آسمان کے آس پاس پہنچ گیا ہوں۔ وہاں سے زمین کا منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔‘‘
’’لیکن چوتھے آسمان سے تو زمین نظر ہی نہیں آتی۔ اس لئے کہ بیچ میں دو آسمان حائل ہوتے ہیں‘‘ نمائندے نے کہا۔
’’اگر تم نے کبھی چرس پی ہوتی تو ایسی جاہلوں جیسی بات نہ کرتے‘‘ عبدالحمید نے کہا۔
’’چودھری صاحب، اتنا عرصہ چرس پینے کے بعد بھی آپ کی جسمانی صحت ماشاء اﷲ بہت اچھی ہے۔ دماغی صحت بھی کوئی اتنی بری نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں خالص چرس ملتی تھی۔ خالص چرس صحت کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتی ہے۔ آج کل تو کوئی چیز خالص نہیں ملتی۔ دودھ، گھی، مکھن، آٹا ، حتیٰ کہ پانی تک خالص نہیں ملتا۔ یہ جو آپ میری خراب صحت دیکھ رہے ہیں، اس کی وجہ یہی ملاوٹی چرس ہے۔ اگر خالص چرس ملتی رہتی تو میں آپ سے زیادہ جوان اور صحت مند ہوتا‘‘ عبدالحمید نے کہا۔
’’جناب آپ کبھی بیمار پڑے ہیں؟‘‘ نمائندے نے پوچھا۔
’’جن دنوں پاکستان بنا، فسادات میں نور محمد شہید ہو گیا جو لاہور کے تمام چرسیوں کو چرس سپلائی کیا کرتا تھا۔ مجھے دس بار روز تک چرس نہ ملی تو بلڈ پریشر ہو گیا جو کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ آخر ایک روز میرا چھوٹا بھائی عبدالمجید کہیں سے تھوڑی سی چرس ڈھونڈ لایا۔ چرس کا سگریٹ پیتے ہی بلڈ پریشر ٹھیک ہو گیا۔ چرس بلڈ پریشر کے علاوہ بھی کئی بیماریوں کا علاج ہے۔ ‘‘
’’ اچھا چوہدری صاحب یہ بتائیں کہ اگر آپ کو چرس نہ ملے تو آپ کتنے دنوں کے بعد فوت ہو جائیں گے؟‘‘
’’ میں نے کبھی اِس کا تجربہ تو نہیں کیا لیکن میرا خیال ہے اب چرس کے بغیر میں دو تین دن سے زیادہ نہیں نکال سکتا۔‘‘
’’ اگر آپ کے پاس چرس خریدنے کیلئے پیسے نہ ہوں تو آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’ مسجد میں چلا جاتا ہوں‘‘۔
’’ نماز پڑھنے؟‘‘
’’ جی نہیں۔ نمازیوں سے پیسے مانگنے ‘‘۔
’’ تو وہ پیسے دے دیتے ہیں؟ ‘‘
’’ فوراً دے دیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مجھے جلد از جلد مسجد سے چلتا کردیں! ‘‘
’’ کیا آپ نے کبھی نماز پڑھی ہے؟ ‘‘
’’ ہاں ۔ جب ماکھا ٹوکے والا فوت ہوا تھا میں نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی‘‘۔
’’کیا آپ چرسیوں کو کوئی پیغام دینا پسند کریں گے؟‘‘ نمائندے نے کہا۔
’’ چرسی تو اپنے باپ کی بات نہیں سنتے، میرا پیغام کیا خاک سنیں گے۔‘‘
’’اچھا چوہدری صاحب، بڑی مہربانی‘‘ میں نے آپ کا قیمتی وقت لیا۔ (جیب سے چند نوٹ نکالتے ہوئے ) یہ آپ کی خدمت میں نذرانہ ہے۔ خدا حافظ۔‘‘
’’خدا حافظ۔‘‘