فرخ منظور
لائبریرین
ایک بوڑھی کی تنہائی
(نجیب محفوظ)
وہ اپنے بستر میں بے سدھ پڑی تھی۔ ایک ہاتھ اور آنکھوں کے سوا اس کا سارا جسم مفلوج تھا۔ نقاہت اِس قدر تھی کہ ہاتھ کو بھی وہ محض سینے تک حرکت دے سکتی تھی۔ بیماری نے اس کی ساری طاقت گویا سلب کر لی تھی۔ اس کا گوشت سوکھ گیا تھا۔ نیلاہٹ کی طرف مائل زرد کھال ہڈیوں پر منڈھی دکھائی دیتی۔ وہ بستر پر آنکھیں موندے لیٹی کسی نامعلوم نقطے کو گھورتی رہتی۔ اس کی بینائی کمرے کی دیواروں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
’’عدلیہ!‘‘ عیون نے بچوں جیسی کمزور اور باریک آواز میںاسے پکارا، مگر اس نے نہیں سنا۔ کم از کم وہ ظاہر یہی کرے گی کہ اسے سنائی نہیں دیا۔ بہانہ یہ ہو گا کہ عیون کی آواز بہت آہستہ تھی یا باورچی خانہ بہت دور ہے یا وہاں چولھے کا شور تھا۔ عیون اپنی آواز کو نہ تو اس سے زیادہ بلند کر پاتی، نہ ہی پکارے بنا رہ سکتی تھی۔ چناںچہ اس نے پھرآواز دی ’’عدلیہ!
عدلیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے خانم عیون کو خوف آتا تھا کہ وہ مکمل طور پر اس کے رحم و کرم پر تھی۔ اسے راضی رکھنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ وہ اسے معقول تنخواہ، عمدہ کپڑے اور کھانا دیتی تھی۔ اس کا گھر عدلیہ ہی سنبھالتی تھی۔ اب تو وہ گھر کی حقیقی مالکہ بن بیٹھی تھی۔ مگر عیون اس بارے میں کر ہی کیا سکتی تھی؟ اگر کسی روز عدلیہ ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتی، تو عیون ناقابل برداشت تنہائی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں پہنچ جاتی۔ اسی لیے وہ پوری کوشش کرتی کہ انتہائی ضرورت کے علاوہ عدلیہ کو تکلیف نہ دے۔ لیکن اس کے بس میں کیا تھا؟ زندگی کی ضرورتیں، تو سانس کی ڈوری کے ساتھ بندھی ہیں۔
اس نے اپنی دم توڑتی طاقت جمع کر کے ایک بار پھر پکارا ’’عدلیہ!‘‘
غصہ اس کے ہڈیوں بھرے سینے میں اُبلنے لگا، مگر اس نے اپنا ہیجان قابو میں رکھا۔ آخر عدلیہ کو کام بھی تو بہت کرنا پڑتا ہے۔ صفائی کرنا، کھانا پکانا، سودا سلف لانا! عیون کے لیے سبھی کچھ عدلیہ تھی۔ وہ اسے کھانے پینے میں مدد دیتی،اس کا منہ دھلاتی، بٹھاتی، دوبارہ بستر پر لٹاتی اور اسے کروٹ بدلواتی۔ اس نے اپنی شکایت آمیز مگر حسرت ناک آواز ذرا سی بلند کی ’’عدلیہ!‘‘
اب وہ دروازے پر نمودار ہوئی۔ اس کے بے حس چہرے پر ناگواری کی مستقل چھاپ تھی۔ اس نے ذرا تیکھے لہجے میں پوچھا ’’مجھے بلایا خانم؟‘‘
’’آوازیں دے دے کر میرا گلا بیٹھ گیا عدلیہ!‘‘
وہ بستر کی طرف بڑھی، تو عیون نے کہا ’’مجھے تمباکو دے دو۔‘‘
عدلیہ نے بستر کے سرہانے رکھی میز پر سے تمباکو کی ڈبیا اٹھائی اور اسے دیتے ہوئے بولی ’’آپ جانتی ہیں کہ تمباکو کھانا آپ کے لیے اچھا نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئی۔
عدلیہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا عیون کے لیے سزائے موت کے مترادف ہوتا۔ عیون کے بھانجے بھانجیوں کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ کسی کی توجہ یا خبر گیری سے محروم عیون خوف اور مایوسی کے عالم میں زندگی کی گاڑی کھینچ رہی تھی اور موت کی آرزو مند تھی۔ اس کا اکلوتا بیٹا ایک خونزیز مظاہرے میں مارا گیا تھا۔ اس صدمے نے اسے جیتے جی مار ڈالا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس کی اکلوتی اولاد سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی مگر اسے سیاست سے کوئی دلچسپی تھی نہ اس کی سمجھ۔ بیٹے کی ہلاکت کے ایک سال بعد اس کا شوہر بھی چل بسا۔ یہ دکھ بھری یادیں اس کی بیماری کی اذیت اور تنہائی کے ہولناک لمحوں میں گھل مل گئی تھیں۔
اس کی مرحومہ بہن کی بیٹی بشینہ پچھلی عید پر اس سے ملنے آئی تھی۔ وہ ایک پرائمری اسکول کی پرنسپل تھی۔ صرف وہی تھی جسے تہواروں کے موقع پر خالہ کی یاد آ جاتی۔ وہ اپنے ساتھ ایک گل دستہ اور مٹھائی کا ڈبا لے کر آئی اور یہیں بستر کے قریب کرسی پر بیٹھی۔ عیون کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ کہنے لگی: ’’شکریہ بشینہ! تم کیسی ہو؟ سب لوگ ٹھیک ہیں؟ تمھیں دیکھنے کو بہت دل چاہتا ہے، مگر مجھے پوچھتا ہی کون ہے!‘‘
بشینہ معذرت خواہانہ انداز میں مسکرائی اور بولی ’’زندگی آج کل بہت مصروف ہو گئی ہے خالہ!‘‘
’’لیکن تم لوگوں کے سوا میرا کون ہے؟ آخر مرُدوں کو بھی کوئی نہ کوئی یاد رکھتا ہے!‘‘
’’خالہ! مجھے اکثر تمھارا خیال آتا ہے، مگر کیا کروں، فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘
’’سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں بشینہ!‘‘
بھانجی نے بالآخر خاموشی میں پناہ لی۔ عیون نے کہا ’’میں آخر تم لوگوں کی خالہ ہوں۔ تمھاری ماں کی واحد بہن، جو زندہ رہ گئی ہوں۔ اگر عدلیہ مجھے چھوڑ جائے، تومیںیہیں پڑی پڑی بھوکی مرجائوں!‘‘ اس نے آہ بھری اور بولتی رہی ’’ہم تینوں بہنیں، تمھاری ماں، بڑی خالہ اور میں کتنی مسرور رہا کرتی تھیں۔ خدا ان دونوں پر اپنی رحمت کرے۔ میں ان دونوں سے چھوٹی تھی۔ میری خوشیوں کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔‘‘
’’خدا کرے، تم جلد صحت یاب ہو جائو خالہ!‘‘
’’تمھاری دعا قبول نہیں ہو گی بشینہ! میں اکیلی رہ گئی ہوں اور مجھے سب نے چھوڑ دیا۔ میری پنشن بھی پڑوسی لا کے دیتا ہے۔‘‘ اس نے اپنے نیلے پڑتے نحیف ہاتھ سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ ’’میں بہت خوف زدہ ہوں بشینہ! مجھے اس دن خوف آتا ہے، جب عدلیہ مجھے چھوڑ کے چلی جائے گی۔‘‘
’’ایسا نہیں ہو گا خالہ، اسے اس جیسا گھر اور کہاں ملے گا؟‘‘
’’اسے میرا بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اس کی طرف سے فکر لگی رہتی ہے۔‘‘
’’تمھارا پورا گھر اور پونجی اس کے قبضے میں ہیں۔ بھلا وہ تمھیں چھوڑ کے کیوں جائے گی؟‘‘
’’پھر بھی مجھے ڈر لگتا ہے۔ ہر وقت شک گھیرے رہتا ہے۔ میں اس کی موجودگی سے بھی اتنی ہی خوفزدہ ہوں، جتنی اس کے چلے جانے سے۔‘‘
بشینہ چپ ہو گئی، اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ یا وہ گھسے پٹے جملے دہراتے رہنے سے اکتا گئی تھی۔ عیون نے کہا ’’مجھے معاف کر دو بشینہ! میرے پاس باتیں ختم ہو گئی ہیں۔ پھر یہ بھی تو اچھی بات نہیں کہ میں تمھیں پریشان کیے جائوں۔ آخر تم ہی تو ہو، جسے میرا خیال رہتا ہے۔‘‘
اس نے پھر اپنا شکایت آمیز انداز ترک کر دیا اور اپنائیت سے پوچھنے لگی ’’اب تم سنائو، تمھاری، اپنے شوہر سے کیسی نبھ رہی ہے؟‘‘
بشینہ نے گہری سانس لے کر مختصر جواب دیا۔ ’’بس ٹھیک ہی ہے۔‘‘
’’مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ تم تو اتنی بے مثال لڑکی ہو۔‘‘ عیون کے خشک اور غم ناک ہونٹوں پر تھکی ہوئی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ بولی ’’تم اتنی خوبصورت ہو بشینہ! لوگ کہتے ہیں، تم ایسی ہو جیسی میں اپنی جوانی میں تھی۔ تم پورے خاندان میں سب سے زیادہ میری ہم شکل ہو۔‘‘
بشینہ نے اثبات میں سر ہلایا اور مسکرا دی۔
’’میں جب گلی میں نکلتی، یا دریچے میں کھڑی ہوتی تو ساری آنکھیں مجھ پر مرکوز ہو جاتی تھیں۔‘‘
بشینہ ہنسی اور عیون کی طرف درد مندی سے دیکھنے لگی۔
’’تم کہتی ہو کہ شوہر سے تمھارے تعلقات بس ٹھیک ہی ہیں۔ کیا اسے احساس نہیں کہ خدا نے اسے کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے؟‘‘
’’دنیا کا یہی دستور ہے خالہ!‘‘
’’لعنت ہو ایسی دنیا پر!‘‘
’’دنیا کا کیا بھروسا ہے خالہ!‘‘
٭٭
عدلیہ کھانے کے برتن اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے عیون کو اٹھا تکیے کے سہارے بٹھا دیا اور اسے کھانا کھلانے لگی۔ اس کا دل جیتنے کی کوشش میں عیون نے کہا ’’کھانا بہت اچھا پکا ہے عدلیہ!‘‘
عدلیہ مسکرائی، نہ اس کا شکریہ ادا کیا جیسے اس نے عیون کی بات سنی ہی نہ ہو ۔ کمزور اور بے بس آدمی کی تعریف بھی بے اثر ہوتی ہے۔
’’کیا ہوا ہے عدلیہ؟‘‘
’’میں اپنی بیٹی کے بارے میںسوچ رہی ہوں۔‘‘
’’خدا اسے خوش رکھے، کیا ہوا اسے؟‘‘
’’وہ اپنے مرد کے ہاتھوں بڑی مصیبت میں ہے۔‘‘
’’کیوں؟ آخر وہ سات بچوںکی ماں سے ایسا سلوک کیسے کر سکتا ہے؟‘‘
’’آپ اسے نہیں جانتیں خانم!‘‘
’’تم اپنی بیٹی کو سمجھائو۔ اسے کہو کہ صبر سے کام لے۔‘‘
’اگر اسے طلاق ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟‘‘
ہاں واقعی، پھر کیا ہو گا؟ اگر عدلیہ اپنی بیٹی اور اس کی اولاد کو بھی میرے گھر میں لے آئی تو؟ عیون اس پر اعتراض بھی کیسے کرتی، وہ تو پوری طرح عدلیہ کے رحم و کرم پر تھی۔ اس کا مکان اتنا کشادہ نہیں تھا۔ اس کا پورا خاندان آ جانے سے تو گھر بالکل بازار بن جائے گا۔ اتنے شوروغل اور ہنگامے میں اس کا کیا حشر ہو گا؟ اور پھر ان سب کے کھانے اور کپڑے لتے کا خرچ وہ کیسے برداشت کرے گی؟
یہ عیون کے لیے تشویش کی نئی بات تھی۔ شیخ طاہا نے شادی پر اسے دعا دیتے ہوئے کہا تھا ’’خدا تمھیں عزت دے اور نصیب اچھے کرے۔‘‘ عیون کی ماں کو اس پر کتنا ناز تھا۔ اس کی شادی شدہ زندگی کا آغاز بھی خوشگوار ہوا۔ شوہر معزز خاندان سے تعلق رکھنے والا جج تھا۔ ایک روز اس نے عیون کو ’’سموگراف سینما‘‘ کے باکس میں دیکھ لیا اور اس پر مرمٹا۔
وہ ایک محبوب بیوی اور مسرور ماں تھی۔ بیوی کے حسن پر نازاں شوہر اس کا ہاتھ تھام کے اوپیرا لے جایا کرتا۔ ایک بار جب کسی پاشا نے عیون سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی تو فساد ہوتے ہوتے بچا۔ اس نے سوچا ’’لیکن عیون خانم! تمھاری زندگی کا انجام یہ بسترمرگ ہے۔ جہاں تم اس بے حس اور حقیر عورت کے رحم و کرم پر پڑی ہو جو تمھیں ایک مسکراہٹ تک سے محروم رکھتی ہے۔‘‘
دروازے کی گھنٹی بجی۔ عیون کی آنکھیں امید سے چمک اٹھیں۔ شاید کوئی ملنے آیا ہے۔
’’کون ہے عدلیہ؟‘‘
’’پلمبر آیا ہے خانم۔‘‘
پھر وہی پلمبر! بدمعاش کسی نہ کسی پائپ کی مرمت کے بہانے روز آ جاتا۔ اس کی مجال نہ تھی کہ وہ عدلیہ سے اس کے بارے میں کوئی سوال کرتی۔ اعتراض کی تو گنجائش ہی نہیں تھی۔ جب اس حرافہ کی مرضی ہوتی یا پلمبر کا اپنا دل چاہتا، وہ آدھمکتا۔
عدلیہ نے عیون کے کمرے کا دروازہ بند کر دیا تاکہ وہ پلمبر کو نہ دیکھ سکے۔ عیون کو بہت دنوں سے اس پر شک تھا، مگر وہ کیا کر سکتی تھی! اس کے گھر میں یہ سب کچھ ہوتا، کمرے کے دروازے کے پیچھے۔ دروازہ اس کی مرضی کے خلاف بند کر دیا جاتا۔ وہ بے بس اور مجبور تھی۔ اگر اس شخص کو زیادہ لالچ ہوتا یا وہ اسے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھنے لگتا یا کوئی شیطانی خیال ذہن میں آ جاتا، تو عیون کی حفاظت کون کر سکتا تھا؟
وہ کان لگا کے غور سے سننے لگی۔ وہ بے حد مضطرب تھی، اس کا خون کھول رہا تھا۔ شاید اس کے مرحوم بیٹے کو بھی بے رحم صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے ایسی ہی بے بسی محسوس ہوئی ہو گی جس نے اسے بھری جوانی میں ہلاک کر ڈالا۔ مگر وہ تو نیم مردہ اور بستر کی قیدی تھی۔
عدلیہ نے دروازہ کھول کر اسے مطلع کیا۔ ’’خانم پلمبر چلا گیا۔‘‘
اس کے ضرورت سے زیادہ وقت لگانے کا ذکر کیے بغیر عیون نے پوچھا ’’کیا کیا اس نے؟‘‘
’’باورچی خانے کا پائپ ٹھیک کرنا تھا۔‘‘
عیون نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’لیکن باورچی خانے کا پائپ تو…!‘‘
عدلیہ تیزی سے بات کاٹتے ہوئے بولی ’’بہت بوسیدہ ہو گیا ہے، بار بار مرمت کرانا پڑتا ہے۔‘‘
ہاں اس کی بار بار مرمت کرانی پڑتی ہے۔ چاہے اس کی جگہ نیا پائپ ہی کیوں نہ لگا دیا جائے، پلمبر کی آمد و رفت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ ٹھیک ہے آیا کرے، جب اس کی مرضی ہو یا جب عدلیہ چاہے، اس نے سوچا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس صورت حال کو برداشت کرنا ہو گا کیونکہ عدلیہ نے اس کے ہاتھ، پیروں اور آنکھ ناک کی جگہ سنبھال رکھی ہے۔ پھر اس کا کام بھی تو سخت تھکا دینے والا ہے۔
ایک روز دروازے پر اجنبی دستک سنائی دی۔ عدلیہ نے اندر آ کر بتایا ’’خانم ایک اندھا آدمی آیا ہے، کہتا ہے کہ وہ آپ کا پرانا شناسا ہے…‘‘
اتنے میں باہر سے اجنبی نے پکار کر کہا ’’شیخ طاہاالشریف، خانم عیون!‘‘
یہ آواز! یہ نام! عیون نے اپنی کمزور یادداشت سے مدد چاہی،اس کا دل بے قرار ہو اٹھا، یادیں ہوا کے معطر، تازہ جھونکوں کی طرح اس سے سرگوشی کرنے لگیں۔’’اندر آئیے۔‘‘ وہ مسرور لہجے میں بولی۔ ’’شیخ طاہا! عدلیہ! انھیں کمرے میں لے آئو!‘‘
بوڑھا عدلیہ کے سہارے چھڑی سے راستہ ٹٹولتا بستر کے پاس آیا۔ اس کا عمامہ ڈھیلا ہو کر کھل گیا تھا۔ بلند پیشانی نمایاں ہو گئی تھی۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ پشت بڑھاپے کے سبب جھک گئی تھی۔ ایک بدرنگ اور بوسیدہ عبا نے اس کا کمزور جسم ڈھانپ رکھا تھا۔ جب اسے بٹھا دیا گیا، تو عیون مخاطب ہوئی ’’یہ رہا میرا ہاتھ شیخ طاہا!
لیکن اسے زور سے مت دبانا، یہ بہت کمزور ہے۔‘‘
اس نے نہایت شفقت اور نرمی سے مصافحہ کیا اور بولا ’’خدا تمھیں جلد صحت بخشے عیون۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے جس نے پھر تم سے ملاقات کرائی۔ بھلا پچھلی بار ہماری ملاقات کب ہوئی تھی؟‘‘
اس نے اپنا سرتاسف سے ہلایا اور بولا ’’بہت عرصہ ہو گیا۔‘‘
’’وہ کتنے اچھے دن تھے شیخ طاہا!‘‘
’’خدا تمھیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘
’’مگر کیسے! میں تو یہاں بستر مرگ پر پڑی ہوں۔ اکیلی اور بے بس!‘‘
بوڑھا انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ’’خدا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
’’تمھیں میرا پتا کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’میں پرانی حویلی کے چوکی دار سے ملا تھا، چچا آدم سے۔‘‘
عیون بجھتی آنکھوں سے اس کا جھریوں بھرا اور عمر رسیدہ چہرہ تکتی رہی۔ وہ عسرت اور بدحالی کا نشان بنا بیٹھا تھا۔ ان دنوں وہ کتنا مضبوط اور طاقت ور تھا جب وہ پرانی حویلی میں قاری کے طور پر ملازمت کرتا۔ ہر روز فجر کے بعد ان کے گھر آ کر قہوہ پیتا، تلاوت کے بعد مذہبی مسائل پر عیون کی والدہ کی راہنمائی کرتا۔ اسی نے عیون کی شادی کے روز اسے دعا دیتے ہوئے کہا تھا ’’خدا تمھیں عزت دے اور نصیب اچھے کرے۔‘‘ ماضی کے دھندلے گوشوں سے ایک مہربان تعلق یادوں اور آنسوئوں کی لہروں پر گویا امڈا چلا آیا۔
اس نے پھٹے پرانے جوتے اتارے اور کرسی پر دوزانو بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنے لگا۔
جب وہ قہوہ پی چکا اور کمرے میں وہ دونوں ہی رہ گئے تو عیون نے کہا ’’میں تنہا رہ گئی ہوں شیخ طاہا!‘‘
اس نے گویا احتجاج کیا ’’لیکن خدا تمھارے ساتھ ہے خانم عیون!‘‘
’’میں ہر وقت فکر مند اور خوفزدہ رہتی ہوں۔‘‘
’’خدا پر بھروسا رکھو خانم عیون!‘‘
’’کاش، تم مجھے روز ملنے آ سکتے۔‘‘
’’میں بہت خوشی سے روز آئوں گا۔‘‘
’’تمھارے دن کیسے کٹ رہے ہیں شیخ طاہا؟‘‘
’’خدا کو یہی منظور تھا کہ تلاوت کے ریکارڈوں کی وجہ سے ہم بے روزگار ہو جائیں، لیکن وہ اپنے غلام کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ خیر خانم، تم مایوسی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالو۔‘‘
’’مجھے یہ فکر لاحق ہے شیخ طاہا کہ عدلیہ کے سوا میرے پاس کوئی بھی نہیں۔ اگر وہ مجھے چھوڑ دے…‘‘
’’لیکن خدا تمھارے ساتھ ہے خانم عیون!‘‘
’’مگر میں تنہا ہوں۔‘‘
بوڑھا خفگی سے ہاتھ ہلا کر بولا ’’کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘
’’کیا میں نے غلط کہا شیخ طاہا!‘‘
’’نہیں لیکن تمھارا خدا پر ایمان نہیں رہا۔‘‘
’’میرا ایمان ہے۔ میرا بیٹا اور شوہر باری باری مجھ سے بچھڑ گئے، پھر بھی میرا ایمان زندہ ہے۔‘‘
’’نہیں، تمھارا ایمان سلامت نہیں رہا خانم عیون!‘‘
قدرے ناراضی سے اس نے چپ سادھ لی۔
شیخ طاہا نے کہا ’’ناراض نہ ہونا! جس کا ایمان سلامت ہو، اس کے دل میں تشویش، ڈر اور مایوسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔‘‘
’’میرا ایمان ہے، لیکن میں بستر مرگ پر عدلیہ کے رحم و کرم پر ہوں۔‘‘
’’ایمان والے صرف اللہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، کسی اور کے نہیں۔‘‘
’’یہ کہنا آسان ہے اور اس پر عمل کرنا بہت مشکل!‘‘
شیخ طاہا نے تاسف سے سرہلایا اور کہا ’’ہاں کہنا آسان ہے اور کرنا بہت مشکل!‘‘
’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔‘‘
’’میں ہر روز تمھارے پاس آنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ضرور شیخ طاہا! خدا کے لیے ضرور آئو۔‘‘
’’مگر تمھیں ایمان مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ایک نابینا تمھاری کیا مدد کر سکتا ہے۔‘‘
قدرے توقف کے بعدعیون جھجکتے ہوئے بولی ’’لیکن شاید اسے ناگوار گزرے… عدلیہ کو!‘‘
’’میںاس کے باوجود آئوں گا۔‘‘
’’لیکن اگر… فرض کرو…‘‘
’’یقین رکھو۔ میں روزانہ تمھارے پاس آئوں گا۔ اگر اسے برا لگتا ہے، تو بے شک وہ دیوار سے اپنا سر پھوڑ لے۔‘‘
عیون گھبرا کر دبی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’آہستہ بولو شیخ طاہا! ہمیں اس کو اشتعال نہیں دلانا چاہیے۔‘‘
’’خانم عیون! بھول جائو کہ تم اس کے رحم و کرم پر ہو، تم صرف خدا کے رحم و کرم پر ہو۔‘‘
’’ہاں ہاں، ہم سب خدا کے رحم و کرم پر ہیں، لیکن لمحہ بھر کے لیے غور تو کرو کہ اگر اسے غصہ آ گیا، تو میرا کیا بنے گا۔‘‘
’’کچھ نہیں ہو گا، خدا کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’یہ سچ ہے شیخ طاہا، لیکن میری تنہائی کا خیال کرو۔ اگر وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی تو…؟‘‘
’’وہ تمھیں چھوڑ کر نہیں جائے گی خانم عیون! کیونکہ وہ تمھاری اس سے زیادہ محتاج ہے جتنی تم اس کی۔‘‘
’’میں تو کمزور بوڑھی ہوں۔ وہ جوان ہے، اسے کہیں بھی کام مل سکتا ہے۔‘‘
’’ہاں، اسے کہیں بھی کام مل سکتا ہے، مگر ملازمہ کی حیثیت سے یہاں، تو وہ مالکن بنی بیٹھی ہے۔‘‘
’’شاید تم ٹھیک کہتے ہو، مگر سچ پوچھو، تو میں بالکل بے یارومددگار ہوں۔‘‘
شیخ نے اپنا عصا زمین پر پٹکا اور کہا ’’تمھاری آدھی بیماری کا اس پر غیر ضروری انحصار ہے۔‘‘
’’لیکن میری بیماری ایک حقیقت ہے، ڈاکٹر بھی یہی کہتے ہیں۔‘‘
’’میں ڈاکٹروں کی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ ویسے فرض کرو اگر وہ تمھیں چھوڑ کر چلی گئی، تو میں اپنی بڑی بیٹی کو تمھارے پاس رہنے کے لیے لے آئوں گا، اسے طلاق ہو چکی۔‘‘
’’خانم کی دھندلی آنکھوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی۔ اس نے بے تاب ہو کر پوچھا ’’واقعی؟ شیخ طاہا!‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں! تمھاری خاطر میں اس کے بغیر رہ لوں گا۔‘‘
اس نے شرمندہ ہو کر پوچھا ’’لیکن تم تنہا کیسے رہو گے؟‘‘
وہ پہلی بار ہنسا اور بولا ’’ہاں، ایک بوڑھا نابینا اکیلا کیسے رہے گا۔ آخر اس کی طلاق سے پہلے بھی میں اکیلا رہتا تھا۔‘‘
’’میں تم پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔‘‘
’’تم صرف خود پر بوجھ بنی ہوئی ہو، خدا تمھاری مدد کرے۔‘‘
ان کے درمیان خاموشی کا ایک طویل وقفہ گزر گیا جس میں بے کراں سکون تھا۔ آخر شیخ نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور قرآن کی تلاوت کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ جانے کے ارادے سے اٹھا، نرمی سے سر ہلا کر خدا حافظ کہا اور چلا گیا۔ عیون کو طویل عرصے بعد طمانیت کا احساس ملا۔ اس نے عدلیہ کو بلا کر کہا ’’عدلیہ! دیکھو شیخ طاہا جب بھی آئیں، تو ان کا عزت و احترام سے استقبال کرنا۔‘‘
عدلیہ کی تیوری پر بل پڑ گئے، ناگواری سے تنک کر بولی ’’وہ کون ہے؟‘‘
’’وہ ہماری پرانی حویلی کے قاری ہیں۔ ان کی رفاقت مجھے اپنے ماں باپ سے ورثے میں ملی ہے۔‘‘
’’میں کسی بڈھے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی۔‘‘
عیون غصے میں آ گئی، بولی ’’وہ ہمارے بزرگ ہیں۔‘‘
عدلیہ دھمکی آمیز لہجے میں بولی ’’لیکن میرے ذمے تو پہلے ہی اتنا کام ہے۔‘‘
عیون آواز میں لجاجت بھر کر کہنے لگی ’’خدارا ایسا نہ کہو، یہ میری خواہش ہے اور میں تم سے اُن کے احترام کی امید رکھتی ہوں۔‘‘
عدلیہ کا چہرہ تن گیا۔ کچھ کہنے کے لیے اس نے منہ کھولا، لیکن عیون کی تنبیہہ نے اسے باز رکھا:
’’جو تم سے کہہ دیا، وہ کرو اور بحث مت کرو۔‘‘
عدلیہ نے چونک کر عیون کی طرف دیکھا۔ دونوں کچھ دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔ لیکن عیون نے عدلیہ کی تیز نگاہوں سے ہار نہ مانی اور پرعزم انداز میں اسے گھورتی رہی۔ اس نے اپنی بیماری اور خوف کی کوئی پروا نہیں کی۔ اسے اپنے وجود میں بہت اندر کہیں جیت کی حرارت محسوس ہونے لگی۔
بالآخر عدلیہ نے اپنی آنکھیں جھکا لیں اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتی کمرے سے باہر نکل گئی، مگر عیون نے معاملہ یہیں ختم نہیں کیا، وہ پوری طرح مطمئن ہونا چاہتی تھی۔ اس نے عدلیہ کو دوبارہ آواز دی۔ عدلیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ناگواری اور بے صبری سے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟ چولھے پر ہانڈی چڑھی ہوئی ہے۔‘‘
عیون نے مضبوط لہجے میںسوال کیا ’’عدلیہ! میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم شیخ طاہا کا کیسے استقبال کرو گی؟‘‘
’’آپ خفا کیوں ہو رہی ہیں؟ آخر پتا تو چلے کہ یہ شیخ طاہا ہے کون۔‘‘
’’کیا تم شیخ کو نہیں جانتیں؟‘‘
’’اس سے پہلے میں نے کبھی یہ نام نہیں سنا۔‘‘
عیون نے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم سے جواب دیا ’’وہی بوڑھے قاری، جو ابھی کچھ دیر پہلے یہاں بیٹھے تھے اور جنھیں تم نے قہوہ پیش کیا تھا۔‘‘
عدلیہ نے بے یقینی سے خانم کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور بولی ’’آج تو گھر میں کوئی بھی نہیں آیا، نہ کوئی قاری، نہ کوئی دکاندار… آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟‘‘
غصے سے عیون کی آواز رندھ گئی۔ ’’کیسی باتیں کر رہی ہو! تم اتنی گستاخ ہو چکی…‘‘
’’مجھے آپ کی باتوں سے خوف آ رہا ہے۔ یہ شیخ طاہا کون ہے؟‘‘
’’تم پاگل ہو گئی یا مجھے پاگل کر دینا چاہتی ہو؟‘‘
عدلیہ اب واقعی پریشان ہو رہی تھی، بولی ’’مجھے اپنی بیٹی کی جان کی قسم! میں نے کبھی شیخ طاہا کو دیکھا نہ اس کا نام سنا۔‘‘
عیون کی آواز اتنی بلند ہو گئی جتنی کئی برس سے نہیں ہوئی تھی۔ اس نے چلا کر کہا ’’اب تم قسم تک کھا رہی ہو! تم میرے خلاف سازش کر رہی ہو۔ مجھے باور کرانا چاہتی ہو کہ مجھے ایسی چیزیں نظر آ رہی ہیں جو سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتیں! کیا میں پاگل ہوں؟ تم یہی چاہتی ہو نا کہ میں اپنے آخری دوست سے بھی محروم ہو جائوں۔‘‘
عدلیہ کی آنکھیں خوف سے باہر نکل آئیں۔ تنک مزاجی ڈھیر ہو گئی، وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی ’’خانم! آپ اپنے حواس میں نہیں۔‘‘
’’بدذات! خاموش رہو۔ میں تم سے نہیں ڈرتی، میں تمھاری محتاج نہیں۔ وہ ہر روز میرے پاس آیا کریں گے۔ یہ میرا حکم ہے اور تمھیں بحث کیے بغیر یہ ماننا ہو گا۔ خبردار، جو اِن کا راستہ روکنے کی کوشش کی! میں تمھیں گھر سے نکال باہر کروں گی۔‘‘
عدلیہ کا رنگ زرد ہو گیا۔ اس نے عاجزی سے کہا ’’خانم! خود کو تھکائیے مت، اپنے ذہن کو پرسکون رکھیے۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ بہت خوشی سے آپ کا ہر حکم مانوں گی۔‘‘
مگر عیون کا اشتعال سب حدود پار کر چکا تھا۔ وہ چیخنے لگی۔ ’’لعنتی، ذلیل، چور! میں اتنے برس سے تجھے برداشت کرتی آ رہی ہوں۔ میں اب تیرا یہ منحوس چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی۔ مجھے قطعاً تیری ضرورت نہیں۔ میرے بغیر تیری اوقات ہی کیا ہے؟ یہاں سے دفعان ہو، جہنم میں جا! خدا کی نعمتوں نے تیرا دماغ خراب کردیا ہے۔ تجھے تو میرا شکر ادا کرنا چاہیے تھا، مگر تو دن رات میری تذلیل کرتی رہی، مجھے ڈراتی رہی، اذیت دیتی رہی۔ نکل جا! آج کے بعد اپنی یہ منحوس شکل مجھے مت دکھانا۔‘‘
عدلیہ چند قدم پیچھے ہٹی، خوف سے اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔ دماغ مائوف ہو چکا تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے چیخ ماری اور ہوا کے جھونکے کی طرح دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔
(نجیب محفوظ)
وہ اپنے بستر میں بے سدھ پڑی تھی۔ ایک ہاتھ اور آنکھوں کے سوا اس کا سارا جسم مفلوج تھا۔ نقاہت اِس قدر تھی کہ ہاتھ کو بھی وہ محض سینے تک حرکت دے سکتی تھی۔ بیماری نے اس کی ساری طاقت گویا سلب کر لی تھی۔ اس کا گوشت سوکھ گیا تھا۔ نیلاہٹ کی طرف مائل زرد کھال ہڈیوں پر منڈھی دکھائی دیتی۔ وہ بستر پر آنکھیں موندے لیٹی کسی نامعلوم نقطے کو گھورتی رہتی۔ اس کی بینائی کمرے کی دیواروں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
’’عدلیہ!‘‘ عیون نے بچوں جیسی کمزور اور باریک آواز میںاسے پکارا، مگر اس نے نہیں سنا۔ کم از کم وہ ظاہر یہی کرے گی کہ اسے سنائی نہیں دیا۔ بہانہ یہ ہو گا کہ عیون کی آواز بہت آہستہ تھی یا باورچی خانہ بہت دور ہے یا وہاں چولھے کا شور تھا۔ عیون اپنی آواز کو نہ تو اس سے زیادہ بلند کر پاتی، نہ ہی پکارے بنا رہ سکتی تھی۔ چناںچہ اس نے پھرآواز دی ’’عدلیہ!
عدلیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے خانم عیون کو خوف آتا تھا کہ وہ مکمل طور پر اس کے رحم و کرم پر تھی۔ اسے راضی رکھنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ وہ اسے معقول تنخواہ، عمدہ کپڑے اور کھانا دیتی تھی۔ اس کا گھر عدلیہ ہی سنبھالتی تھی۔ اب تو وہ گھر کی حقیقی مالکہ بن بیٹھی تھی۔ مگر عیون اس بارے میں کر ہی کیا سکتی تھی؟ اگر کسی روز عدلیہ ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتی، تو عیون ناقابل برداشت تنہائی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں پہنچ جاتی۔ اسی لیے وہ پوری کوشش کرتی کہ انتہائی ضرورت کے علاوہ عدلیہ کو تکلیف نہ دے۔ لیکن اس کے بس میں کیا تھا؟ زندگی کی ضرورتیں، تو سانس کی ڈوری کے ساتھ بندھی ہیں۔
اس نے اپنی دم توڑتی طاقت جمع کر کے ایک بار پھر پکارا ’’عدلیہ!‘‘
غصہ اس کے ہڈیوں بھرے سینے میں اُبلنے لگا، مگر اس نے اپنا ہیجان قابو میں رکھا۔ آخر عدلیہ کو کام بھی تو بہت کرنا پڑتا ہے۔ صفائی کرنا، کھانا پکانا، سودا سلف لانا! عیون کے لیے سبھی کچھ عدلیہ تھی۔ وہ اسے کھانے پینے میں مدد دیتی،اس کا منہ دھلاتی، بٹھاتی، دوبارہ بستر پر لٹاتی اور اسے کروٹ بدلواتی۔ اس نے اپنی شکایت آمیز مگر حسرت ناک آواز ذرا سی بلند کی ’’عدلیہ!‘‘
اب وہ دروازے پر نمودار ہوئی۔ اس کے بے حس چہرے پر ناگواری کی مستقل چھاپ تھی۔ اس نے ذرا تیکھے لہجے میں پوچھا ’’مجھے بلایا خانم؟‘‘
’’آوازیں دے دے کر میرا گلا بیٹھ گیا عدلیہ!‘‘
وہ بستر کی طرف بڑھی، تو عیون نے کہا ’’مجھے تمباکو دے دو۔‘‘
عدلیہ نے بستر کے سرہانے رکھی میز پر سے تمباکو کی ڈبیا اٹھائی اور اسے دیتے ہوئے بولی ’’آپ جانتی ہیں کہ تمباکو کھانا آپ کے لیے اچھا نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئی۔
عدلیہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا عیون کے لیے سزائے موت کے مترادف ہوتا۔ عیون کے بھانجے بھانجیوں کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ کسی کی توجہ یا خبر گیری سے محروم عیون خوف اور مایوسی کے عالم میں زندگی کی گاڑی کھینچ رہی تھی اور موت کی آرزو مند تھی۔ اس کا اکلوتا بیٹا ایک خونزیز مظاہرے میں مارا گیا تھا۔ اس صدمے نے اسے جیتے جی مار ڈالا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس کی اکلوتی اولاد سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی مگر اسے سیاست سے کوئی دلچسپی تھی نہ اس کی سمجھ۔ بیٹے کی ہلاکت کے ایک سال بعد اس کا شوہر بھی چل بسا۔ یہ دکھ بھری یادیں اس کی بیماری کی اذیت اور تنہائی کے ہولناک لمحوں میں گھل مل گئی تھیں۔
اس کی مرحومہ بہن کی بیٹی بشینہ پچھلی عید پر اس سے ملنے آئی تھی۔ وہ ایک پرائمری اسکول کی پرنسپل تھی۔ صرف وہی تھی جسے تہواروں کے موقع پر خالہ کی یاد آ جاتی۔ وہ اپنے ساتھ ایک گل دستہ اور مٹھائی کا ڈبا لے کر آئی اور یہیں بستر کے قریب کرسی پر بیٹھی۔ عیون کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ کہنے لگی: ’’شکریہ بشینہ! تم کیسی ہو؟ سب لوگ ٹھیک ہیں؟ تمھیں دیکھنے کو بہت دل چاہتا ہے، مگر مجھے پوچھتا ہی کون ہے!‘‘
بشینہ معذرت خواہانہ انداز میں مسکرائی اور بولی ’’زندگی آج کل بہت مصروف ہو گئی ہے خالہ!‘‘
’’لیکن تم لوگوں کے سوا میرا کون ہے؟ آخر مرُدوں کو بھی کوئی نہ کوئی یاد رکھتا ہے!‘‘
’’خالہ! مجھے اکثر تمھارا خیال آتا ہے، مگر کیا کروں، فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘
’’سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں بشینہ!‘‘
بھانجی نے بالآخر خاموشی میں پناہ لی۔ عیون نے کہا ’’میں آخر تم لوگوں کی خالہ ہوں۔ تمھاری ماں کی واحد بہن، جو زندہ رہ گئی ہوں۔ اگر عدلیہ مجھے چھوڑ جائے، تومیںیہیں پڑی پڑی بھوکی مرجائوں!‘‘ اس نے آہ بھری اور بولتی رہی ’’ہم تینوں بہنیں، تمھاری ماں، بڑی خالہ اور میں کتنی مسرور رہا کرتی تھیں۔ خدا ان دونوں پر اپنی رحمت کرے۔ میں ان دونوں سے چھوٹی تھی۔ میری خوشیوں کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔‘‘
’’خدا کرے، تم جلد صحت یاب ہو جائو خالہ!‘‘
’’تمھاری دعا قبول نہیں ہو گی بشینہ! میں اکیلی رہ گئی ہوں اور مجھے سب نے چھوڑ دیا۔ میری پنشن بھی پڑوسی لا کے دیتا ہے۔‘‘ اس نے اپنے نیلے پڑتے نحیف ہاتھ سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ ’’میں بہت خوف زدہ ہوں بشینہ! مجھے اس دن خوف آتا ہے، جب عدلیہ مجھے چھوڑ کے چلی جائے گی۔‘‘
’’ایسا نہیں ہو گا خالہ، اسے اس جیسا گھر اور کہاں ملے گا؟‘‘
’’اسے میرا بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اس کی طرف سے فکر لگی رہتی ہے۔‘‘
’’تمھارا پورا گھر اور پونجی اس کے قبضے میں ہیں۔ بھلا وہ تمھیں چھوڑ کے کیوں جائے گی؟‘‘
’’پھر بھی مجھے ڈر لگتا ہے۔ ہر وقت شک گھیرے رہتا ہے۔ میں اس کی موجودگی سے بھی اتنی ہی خوفزدہ ہوں، جتنی اس کے چلے جانے سے۔‘‘
بشینہ چپ ہو گئی، اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ یا وہ گھسے پٹے جملے دہراتے رہنے سے اکتا گئی تھی۔ عیون نے کہا ’’مجھے معاف کر دو بشینہ! میرے پاس باتیں ختم ہو گئی ہیں۔ پھر یہ بھی تو اچھی بات نہیں کہ میں تمھیں پریشان کیے جائوں۔ آخر تم ہی تو ہو، جسے میرا خیال رہتا ہے۔‘‘
اس نے پھر اپنا شکایت آمیز انداز ترک کر دیا اور اپنائیت سے پوچھنے لگی ’’اب تم سنائو، تمھاری، اپنے شوہر سے کیسی نبھ رہی ہے؟‘‘
بشینہ نے گہری سانس لے کر مختصر جواب دیا۔ ’’بس ٹھیک ہی ہے۔‘‘
’’مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ تم تو اتنی بے مثال لڑکی ہو۔‘‘ عیون کے خشک اور غم ناک ہونٹوں پر تھکی ہوئی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ بولی ’’تم اتنی خوبصورت ہو بشینہ! لوگ کہتے ہیں، تم ایسی ہو جیسی میں اپنی جوانی میں تھی۔ تم پورے خاندان میں سب سے زیادہ میری ہم شکل ہو۔‘‘
بشینہ نے اثبات میں سر ہلایا اور مسکرا دی۔
’’میں جب گلی میں نکلتی، یا دریچے میں کھڑی ہوتی تو ساری آنکھیں مجھ پر مرکوز ہو جاتی تھیں۔‘‘
بشینہ ہنسی اور عیون کی طرف درد مندی سے دیکھنے لگی۔
’’تم کہتی ہو کہ شوہر سے تمھارے تعلقات بس ٹھیک ہی ہیں۔ کیا اسے احساس نہیں کہ خدا نے اسے کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے؟‘‘
’’دنیا کا یہی دستور ہے خالہ!‘‘
’’لعنت ہو ایسی دنیا پر!‘‘
’’دنیا کا کیا بھروسا ہے خالہ!‘‘
٭٭
عدلیہ کھانے کے برتن اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے عیون کو اٹھا تکیے کے سہارے بٹھا دیا اور اسے کھانا کھلانے لگی۔ اس کا دل جیتنے کی کوشش میں عیون نے کہا ’’کھانا بہت اچھا پکا ہے عدلیہ!‘‘
عدلیہ مسکرائی، نہ اس کا شکریہ ادا کیا جیسے اس نے عیون کی بات سنی ہی نہ ہو ۔ کمزور اور بے بس آدمی کی تعریف بھی بے اثر ہوتی ہے۔
’’کیا ہوا ہے عدلیہ؟‘‘
’’میں اپنی بیٹی کے بارے میںسوچ رہی ہوں۔‘‘
’’خدا اسے خوش رکھے، کیا ہوا اسے؟‘‘
’’وہ اپنے مرد کے ہاتھوں بڑی مصیبت میں ہے۔‘‘
’’کیوں؟ آخر وہ سات بچوںکی ماں سے ایسا سلوک کیسے کر سکتا ہے؟‘‘
’’آپ اسے نہیں جانتیں خانم!‘‘
’’تم اپنی بیٹی کو سمجھائو۔ اسے کہو کہ صبر سے کام لے۔‘‘
’اگر اسے طلاق ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟‘‘
ہاں واقعی، پھر کیا ہو گا؟ اگر عدلیہ اپنی بیٹی اور اس کی اولاد کو بھی میرے گھر میں لے آئی تو؟ عیون اس پر اعتراض بھی کیسے کرتی، وہ تو پوری طرح عدلیہ کے رحم و کرم پر تھی۔ اس کا مکان اتنا کشادہ نہیں تھا۔ اس کا پورا خاندان آ جانے سے تو گھر بالکل بازار بن جائے گا۔ اتنے شوروغل اور ہنگامے میں اس کا کیا حشر ہو گا؟ اور پھر ان سب کے کھانے اور کپڑے لتے کا خرچ وہ کیسے برداشت کرے گی؟
یہ عیون کے لیے تشویش کی نئی بات تھی۔ شیخ طاہا نے شادی پر اسے دعا دیتے ہوئے کہا تھا ’’خدا تمھیں عزت دے اور نصیب اچھے کرے۔‘‘ عیون کی ماں کو اس پر کتنا ناز تھا۔ اس کی شادی شدہ زندگی کا آغاز بھی خوشگوار ہوا۔ شوہر معزز خاندان سے تعلق رکھنے والا جج تھا۔ ایک روز اس نے عیون کو ’’سموگراف سینما‘‘ کے باکس میں دیکھ لیا اور اس پر مرمٹا۔
وہ ایک محبوب بیوی اور مسرور ماں تھی۔ بیوی کے حسن پر نازاں شوہر اس کا ہاتھ تھام کے اوپیرا لے جایا کرتا۔ ایک بار جب کسی پاشا نے عیون سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی تو فساد ہوتے ہوتے بچا۔ اس نے سوچا ’’لیکن عیون خانم! تمھاری زندگی کا انجام یہ بسترمرگ ہے۔ جہاں تم اس بے حس اور حقیر عورت کے رحم و کرم پر پڑی ہو جو تمھیں ایک مسکراہٹ تک سے محروم رکھتی ہے۔‘‘
دروازے کی گھنٹی بجی۔ عیون کی آنکھیں امید سے چمک اٹھیں۔ شاید کوئی ملنے آیا ہے۔
’’کون ہے عدلیہ؟‘‘
’’پلمبر آیا ہے خانم۔‘‘
پھر وہی پلمبر! بدمعاش کسی نہ کسی پائپ کی مرمت کے بہانے روز آ جاتا۔ اس کی مجال نہ تھی کہ وہ عدلیہ سے اس کے بارے میں کوئی سوال کرتی۔ اعتراض کی تو گنجائش ہی نہیں تھی۔ جب اس حرافہ کی مرضی ہوتی یا پلمبر کا اپنا دل چاہتا، وہ آدھمکتا۔
عدلیہ نے عیون کے کمرے کا دروازہ بند کر دیا تاکہ وہ پلمبر کو نہ دیکھ سکے۔ عیون کو بہت دنوں سے اس پر شک تھا، مگر وہ کیا کر سکتی تھی! اس کے گھر میں یہ سب کچھ ہوتا، کمرے کے دروازے کے پیچھے۔ دروازہ اس کی مرضی کے خلاف بند کر دیا جاتا۔ وہ بے بس اور مجبور تھی۔ اگر اس شخص کو زیادہ لالچ ہوتا یا وہ اسے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھنے لگتا یا کوئی شیطانی خیال ذہن میں آ جاتا، تو عیون کی حفاظت کون کر سکتا تھا؟
وہ کان لگا کے غور سے سننے لگی۔ وہ بے حد مضطرب تھی، اس کا خون کھول رہا تھا۔ شاید اس کے مرحوم بیٹے کو بھی بے رحم صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے ایسی ہی بے بسی محسوس ہوئی ہو گی جس نے اسے بھری جوانی میں ہلاک کر ڈالا۔ مگر وہ تو نیم مردہ اور بستر کی قیدی تھی۔
عدلیہ نے دروازہ کھول کر اسے مطلع کیا۔ ’’خانم پلمبر چلا گیا۔‘‘
اس کے ضرورت سے زیادہ وقت لگانے کا ذکر کیے بغیر عیون نے پوچھا ’’کیا کیا اس نے؟‘‘
’’باورچی خانے کا پائپ ٹھیک کرنا تھا۔‘‘
عیون نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’لیکن باورچی خانے کا پائپ تو…!‘‘
عدلیہ تیزی سے بات کاٹتے ہوئے بولی ’’بہت بوسیدہ ہو گیا ہے، بار بار مرمت کرانا پڑتا ہے۔‘‘
ہاں اس کی بار بار مرمت کرانی پڑتی ہے۔ چاہے اس کی جگہ نیا پائپ ہی کیوں نہ لگا دیا جائے، پلمبر کی آمد و رفت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ ٹھیک ہے آیا کرے، جب اس کی مرضی ہو یا جب عدلیہ چاہے، اس نے سوچا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس صورت حال کو برداشت کرنا ہو گا کیونکہ عدلیہ نے اس کے ہاتھ، پیروں اور آنکھ ناک کی جگہ سنبھال رکھی ہے۔ پھر اس کا کام بھی تو سخت تھکا دینے والا ہے۔
ایک روز دروازے پر اجنبی دستک سنائی دی۔ عدلیہ نے اندر آ کر بتایا ’’خانم ایک اندھا آدمی آیا ہے، کہتا ہے کہ وہ آپ کا پرانا شناسا ہے…‘‘
اتنے میں باہر سے اجنبی نے پکار کر کہا ’’شیخ طاہاالشریف، خانم عیون!‘‘
یہ آواز! یہ نام! عیون نے اپنی کمزور یادداشت سے مدد چاہی،اس کا دل بے قرار ہو اٹھا، یادیں ہوا کے معطر، تازہ جھونکوں کی طرح اس سے سرگوشی کرنے لگیں۔’’اندر آئیے۔‘‘ وہ مسرور لہجے میں بولی۔ ’’شیخ طاہا! عدلیہ! انھیں کمرے میں لے آئو!‘‘
بوڑھا عدلیہ کے سہارے چھڑی سے راستہ ٹٹولتا بستر کے پاس آیا۔ اس کا عمامہ ڈھیلا ہو کر کھل گیا تھا۔ بلند پیشانی نمایاں ہو گئی تھی۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ پشت بڑھاپے کے سبب جھک گئی تھی۔ ایک بدرنگ اور بوسیدہ عبا نے اس کا کمزور جسم ڈھانپ رکھا تھا۔ جب اسے بٹھا دیا گیا، تو عیون مخاطب ہوئی ’’یہ رہا میرا ہاتھ شیخ طاہا!
لیکن اسے زور سے مت دبانا، یہ بہت کمزور ہے۔‘‘
اس نے نہایت شفقت اور نرمی سے مصافحہ کیا اور بولا ’’خدا تمھیں جلد صحت بخشے عیون۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے جس نے پھر تم سے ملاقات کرائی۔ بھلا پچھلی بار ہماری ملاقات کب ہوئی تھی؟‘‘
اس نے اپنا سرتاسف سے ہلایا اور بولا ’’بہت عرصہ ہو گیا۔‘‘
’’وہ کتنے اچھے دن تھے شیخ طاہا!‘‘
’’خدا تمھیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘
’’مگر کیسے! میں تو یہاں بستر مرگ پر پڑی ہوں۔ اکیلی اور بے بس!‘‘
بوڑھا انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ’’خدا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
’’تمھیں میرا پتا کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’میں پرانی حویلی کے چوکی دار سے ملا تھا، چچا آدم سے۔‘‘
عیون بجھتی آنکھوں سے اس کا جھریوں بھرا اور عمر رسیدہ چہرہ تکتی رہی۔ وہ عسرت اور بدحالی کا نشان بنا بیٹھا تھا۔ ان دنوں وہ کتنا مضبوط اور طاقت ور تھا جب وہ پرانی حویلی میں قاری کے طور پر ملازمت کرتا۔ ہر روز فجر کے بعد ان کے گھر آ کر قہوہ پیتا، تلاوت کے بعد مذہبی مسائل پر عیون کی والدہ کی راہنمائی کرتا۔ اسی نے عیون کی شادی کے روز اسے دعا دیتے ہوئے کہا تھا ’’خدا تمھیں عزت دے اور نصیب اچھے کرے۔‘‘ ماضی کے دھندلے گوشوں سے ایک مہربان تعلق یادوں اور آنسوئوں کی لہروں پر گویا امڈا چلا آیا۔
اس نے پھٹے پرانے جوتے اتارے اور کرسی پر دوزانو بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنے لگا۔
جب وہ قہوہ پی چکا اور کمرے میں وہ دونوں ہی رہ گئے تو عیون نے کہا ’’میں تنہا رہ گئی ہوں شیخ طاہا!‘‘
اس نے گویا احتجاج کیا ’’لیکن خدا تمھارے ساتھ ہے خانم عیون!‘‘
’’میں ہر وقت فکر مند اور خوفزدہ رہتی ہوں۔‘‘
’’خدا پر بھروسا رکھو خانم عیون!‘‘
’’کاش، تم مجھے روز ملنے آ سکتے۔‘‘
’’میں بہت خوشی سے روز آئوں گا۔‘‘
’’تمھارے دن کیسے کٹ رہے ہیں شیخ طاہا؟‘‘
’’خدا کو یہی منظور تھا کہ تلاوت کے ریکارڈوں کی وجہ سے ہم بے روزگار ہو جائیں، لیکن وہ اپنے غلام کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ خیر خانم، تم مایوسی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالو۔‘‘
’’مجھے یہ فکر لاحق ہے شیخ طاہا کہ عدلیہ کے سوا میرے پاس کوئی بھی نہیں۔ اگر وہ مجھے چھوڑ دے…‘‘
’’لیکن خدا تمھارے ساتھ ہے خانم عیون!‘‘
’’مگر میں تنہا ہوں۔‘‘
بوڑھا خفگی سے ہاتھ ہلا کر بولا ’’کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘
’’کیا میں نے غلط کہا شیخ طاہا!‘‘
’’نہیں لیکن تمھارا خدا پر ایمان نہیں رہا۔‘‘
’’میرا ایمان ہے۔ میرا بیٹا اور شوہر باری باری مجھ سے بچھڑ گئے، پھر بھی میرا ایمان زندہ ہے۔‘‘
’’نہیں، تمھارا ایمان سلامت نہیں رہا خانم عیون!‘‘
قدرے ناراضی سے اس نے چپ سادھ لی۔
شیخ طاہا نے کہا ’’ناراض نہ ہونا! جس کا ایمان سلامت ہو، اس کے دل میں تشویش، ڈر اور مایوسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔‘‘
’’میرا ایمان ہے، لیکن میں بستر مرگ پر عدلیہ کے رحم و کرم پر ہوں۔‘‘
’’ایمان والے صرف اللہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، کسی اور کے نہیں۔‘‘
’’یہ کہنا آسان ہے اور اس پر عمل کرنا بہت مشکل!‘‘
شیخ طاہا نے تاسف سے سرہلایا اور کہا ’’ہاں کہنا آسان ہے اور کرنا بہت مشکل!‘‘
’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔‘‘
’’میں ہر روز تمھارے پاس آنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ضرور شیخ طاہا! خدا کے لیے ضرور آئو۔‘‘
’’مگر تمھیں ایمان مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ایک نابینا تمھاری کیا مدد کر سکتا ہے۔‘‘
قدرے توقف کے بعدعیون جھجکتے ہوئے بولی ’’لیکن شاید اسے ناگوار گزرے… عدلیہ کو!‘‘
’’میںاس کے باوجود آئوں گا۔‘‘
’’لیکن اگر… فرض کرو…‘‘
’’یقین رکھو۔ میں روزانہ تمھارے پاس آئوں گا۔ اگر اسے برا لگتا ہے، تو بے شک وہ دیوار سے اپنا سر پھوڑ لے۔‘‘
عیون گھبرا کر دبی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’آہستہ بولو شیخ طاہا! ہمیں اس کو اشتعال نہیں دلانا چاہیے۔‘‘
’’خانم عیون! بھول جائو کہ تم اس کے رحم و کرم پر ہو، تم صرف خدا کے رحم و کرم پر ہو۔‘‘
’’ہاں ہاں، ہم سب خدا کے رحم و کرم پر ہیں، لیکن لمحہ بھر کے لیے غور تو کرو کہ اگر اسے غصہ آ گیا، تو میرا کیا بنے گا۔‘‘
’’کچھ نہیں ہو گا، خدا کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’یہ سچ ہے شیخ طاہا، لیکن میری تنہائی کا خیال کرو۔ اگر وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی تو…؟‘‘
’’وہ تمھیں چھوڑ کر نہیں جائے گی خانم عیون! کیونکہ وہ تمھاری اس سے زیادہ محتاج ہے جتنی تم اس کی۔‘‘
’’میں تو کمزور بوڑھی ہوں۔ وہ جوان ہے، اسے کہیں بھی کام مل سکتا ہے۔‘‘
’’ہاں، اسے کہیں بھی کام مل سکتا ہے، مگر ملازمہ کی حیثیت سے یہاں، تو وہ مالکن بنی بیٹھی ہے۔‘‘
’’شاید تم ٹھیک کہتے ہو، مگر سچ پوچھو، تو میں بالکل بے یارومددگار ہوں۔‘‘
شیخ نے اپنا عصا زمین پر پٹکا اور کہا ’’تمھاری آدھی بیماری کا اس پر غیر ضروری انحصار ہے۔‘‘
’’لیکن میری بیماری ایک حقیقت ہے، ڈاکٹر بھی یہی کہتے ہیں۔‘‘
’’میں ڈاکٹروں کی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ ویسے فرض کرو اگر وہ تمھیں چھوڑ کر چلی گئی، تو میں اپنی بڑی بیٹی کو تمھارے پاس رہنے کے لیے لے آئوں گا، اسے طلاق ہو چکی۔‘‘
’’خانم کی دھندلی آنکھوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی۔ اس نے بے تاب ہو کر پوچھا ’’واقعی؟ شیخ طاہا!‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں! تمھاری خاطر میں اس کے بغیر رہ لوں گا۔‘‘
اس نے شرمندہ ہو کر پوچھا ’’لیکن تم تنہا کیسے رہو گے؟‘‘
وہ پہلی بار ہنسا اور بولا ’’ہاں، ایک بوڑھا نابینا اکیلا کیسے رہے گا۔ آخر اس کی طلاق سے پہلے بھی میں اکیلا رہتا تھا۔‘‘
’’میں تم پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔‘‘
’’تم صرف خود پر بوجھ بنی ہوئی ہو، خدا تمھاری مدد کرے۔‘‘
ان کے درمیان خاموشی کا ایک طویل وقفہ گزر گیا جس میں بے کراں سکون تھا۔ آخر شیخ نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور قرآن کی تلاوت کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ جانے کے ارادے سے اٹھا، نرمی سے سر ہلا کر خدا حافظ کہا اور چلا گیا۔ عیون کو طویل عرصے بعد طمانیت کا احساس ملا۔ اس نے عدلیہ کو بلا کر کہا ’’عدلیہ! دیکھو شیخ طاہا جب بھی آئیں، تو ان کا عزت و احترام سے استقبال کرنا۔‘‘
عدلیہ کی تیوری پر بل پڑ گئے، ناگواری سے تنک کر بولی ’’وہ کون ہے؟‘‘
’’وہ ہماری پرانی حویلی کے قاری ہیں۔ ان کی رفاقت مجھے اپنے ماں باپ سے ورثے میں ملی ہے۔‘‘
’’میں کسی بڈھے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی۔‘‘
عیون غصے میں آ گئی، بولی ’’وہ ہمارے بزرگ ہیں۔‘‘
عدلیہ دھمکی آمیز لہجے میں بولی ’’لیکن میرے ذمے تو پہلے ہی اتنا کام ہے۔‘‘
عیون آواز میں لجاجت بھر کر کہنے لگی ’’خدارا ایسا نہ کہو، یہ میری خواہش ہے اور میں تم سے اُن کے احترام کی امید رکھتی ہوں۔‘‘
عدلیہ کا چہرہ تن گیا۔ کچھ کہنے کے لیے اس نے منہ کھولا، لیکن عیون کی تنبیہہ نے اسے باز رکھا:
’’جو تم سے کہہ دیا، وہ کرو اور بحث مت کرو۔‘‘
عدلیہ نے چونک کر عیون کی طرف دیکھا۔ دونوں کچھ دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔ لیکن عیون نے عدلیہ کی تیز نگاہوں سے ہار نہ مانی اور پرعزم انداز میں اسے گھورتی رہی۔ اس نے اپنی بیماری اور خوف کی کوئی پروا نہیں کی۔ اسے اپنے وجود میں بہت اندر کہیں جیت کی حرارت محسوس ہونے لگی۔
بالآخر عدلیہ نے اپنی آنکھیں جھکا لیں اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتی کمرے سے باہر نکل گئی، مگر عیون نے معاملہ یہیں ختم نہیں کیا، وہ پوری طرح مطمئن ہونا چاہتی تھی۔ اس نے عدلیہ کو دوبارہ آواز دی۔ عدلیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ناگواری اور بے صبری سے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟ چولھے پر ہانڈی چڑھی ہوئی ہے۔‘‘
عیون نے مضبوط لہجے میںسوال کیا ’’عدلیہ! میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم شیخ طاہا کا کیسے استقبال کرو گی؟‘‘
’’آپ خفا کیوں ہو رہی ہیں؟ آخر پتا تو چلے کہ یہ شیخ طاہا ہے کون۔‘‘
’’کیا تم شیخ کو نہیں جانتیں؟‘‘
’’اس سے پہلے میں نے کبھی یہ نام نہیں سنا۔‘‘
عیون نے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم سے جواب دیا ’’وہی بوڑھے قاری، جو ابھی کچھ دیر پہلے یہاں بیٹھے تھے اور جنھیں تم نے قہوہ پیش کیا تھا۔‘‘
عدلیہ نے بے یقینی سے خانم کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور بولی ’’آج تو گھر میں کوئی بھی نہیں آیا، نہ کوئی قاری، نہ کوئی دکاندار… آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟‘‘
غصے سے عیون کی آواز رندھ گئی۔ ’’کیسی باتیں کر رہی ہو! تم اتنی گستاخ ہو چکی…‘‘
’’مجھے آپ کی باتوں سے خوف آ رہا ہے۔ یہ شیخ طاہا کون ہے؟‘‘
’’تم پاگل ہو گئی یا مجھے پاگل کر دینا چاہتی ہو؟‘‘
عدلیہ اب واقعی پریشان ہو رہی تھی، بولی ’’مجھے اپنی بیٹی کی جان کی قسم! میں نے کبھی شیخ طاہا کو دیکھا نہ اس کا نام سنا۔‘‘
عیون کی آواز اتنی بلند ہو گئی جتنی کئی برس سے نہیں ہوئی تھی۔ اس نے چلا کر کہا ’’اب تم قسم تک کھا رہی ہو! تم میرے خلاف سازش کر رہی ہو۔ مجھے باور کرانا چاہتی ہو کہ مجھے ایسی چیزیں نظر آ رہی ہیں جو سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتیں! کیا میں پاگل ہوں؟ تم یہی چاہتی ہو نا کہ میں اپنے آخری دوست سے بھی محروم ہو جائوں۔‘‘
عدلیہ کی آنکھیں خوف سے باہر نکل آئیں۔ تنک مزاجی ڈھیر ہو گئی، وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی ’’خانم! آپ اپنے حواس میں نہیں۔‘‘
’’بدذات! خاموش رہو۔ میں تم سے نہیں ڈرتی، میں تمھاری محتاج نہیں۔ وہ ہر روز میرے پاس آیا کریں گے۔ یہ میرا حکم ہے اور تمھیں بحث کیے بغیر یہ ماننا ہو گا۔ خبردار، جو اِن کا راستہ روکنے کی کوشش کی! میں تمھیں گھر سے نکال باہر کروں گی۔‘‘
عدلیہ کا رنگ زرد ہو گیا۔ اس نے عاجزی سے کہا ’’خانم! خود کو تھکائیے مت، اپنے ذہن کو پرسکون رکھیے۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ بہت خوشی سے آپ کا ہر حکم مانوں گی۔‘‘
مگر عیون کا اشتعال سب حدود پار کر چکا تھا۔ وہ چیخنے لگی۔ ’’لعنتی، ذلیل، چور! میں اتنے برس سے تجھے برداشت کرتی آ رہی ہوں۔ میں اب تیرا یہ منحوس چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی۔ مجھے قطعاً تیری ضرورت نہیں۔ میرے بغیر تیری اوقات ہی کیا ہے؟ یہاں سے دفعان ہو، جہنم میں جا! خدا کی نعمتوں نے تیرا دماغ خراب کردیا ہے۔ تجھے تو میرا شکر ادا کرنا چاہیے تھا، مگر تو دن رات میری تذلیل کرتی رہی، مجھے ڈراتی رہی، اذیت دیتی رہی۔ نکل جا! آج کے بعد اپنی یہ منحوس شکل مجھے مت دکھانا۔‘‘
عدلیہ چند قدم پیچھے ہٹی، خوف سے اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔ دماغ مائوف ہو چکا تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے چیخ ماری اور ہوا کے جھونکے کی طرح دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔