حمیرا عدنان
محفلین
ابن آدم کا المیہ یہ ھے کہ وہ تین ماہ چلنے والے جوتوں پہ تو کمپرومائز نہیں کرتا اور اپنی پسند پر اصرار کرتا ھے ،، مگر ساری زندگی ساتھ دینے والی اور آنے والی نسلوں کی آبیاری کرنے والی بیوی پر کمپرومائز کر لیتا ھے ،،،
بیوی اسے اپنی نہیں بلکہ امی کی پسند کی چاھیئے جو اس کی امی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ھو ،،، اپنی پسند کرنے کے لئے پہاڑ جتنی زندگی پڑی ھے ناں ،، اچھے بچے ھمیشہ پہلی بیوی اپنی امی کے لئے کرتے ھیں ،، بلکہ امی سے بڑھ کر امی کے قدموں تلے دبی ھوئی جنت کے لئے کرتے ھیں ،، شادی کرتے ھی اس کی جنت ھر دو صورتوں میں کھری ھو جاتی ھے ، اگر اس کی بیوی امی جی کی توقعات پر پورا اترتے ھوئے بغیر تنخواہ کے ھاؤس میڈ کی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے میں کامیاب ھو جائے ،، تو بھی بیٹے کی جنت کھری ( چاھے بیوی کی دنیا جھنم بن جائے ) ،، یعنی دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں ،، اگر بیوی امی جان کی توقعات پر پورا نہ اترے بلکہ مزاحمت کرنا اور اپنے حقوق طلب کرنا شروع کر دے تو امی جی کے حکم پر اس کو طلاق دے کر بھی جنت کمائی جا سکتی ھے ،، یوں ایک بیوی کے ساتھ جنت کے دو دروازے کھل جاتے ھیں ،،،،،،،،،،
اس سلسلے میں دو مثالیں دھوبی پاٹ کا کام کرتی ھیں جن کے سامنے ھر بیٹا بےبس ھو جاتا ھے ، ایک تو یہ مثال کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو تو اس نے طلاق دے دی ،،، اور دوسری مثال حضرت ابراھیم علیہ السلام کی کہ انہوں نے کہا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ،، پہلی مثال کا بیک گراؤنڈ یہ ھے کہ صاحبزادہ جماعت کی نماز مس کر دیتا تھا اور بیوی کے اردگرد رھتا تھا ،لہذا حضرت عمرؓ اسے سبق سکھانا چاھتے تھے ،مگر جب بیٹے نے طلاق تو دے دی مگر اب تکبیرِ اولی نہیں بلکہ پوری جماعت ھی بھول کر مطلقہ بیوی کے گھر کی گلی میں بیٹھ کر رونا اور شعر پڑھنا شروع کر دیئے تو حضرت عمرؓ نے فوراً احساس کر لیا کہ دوا ری ایکشن کر گئ ھے اور پھر خود حکم دے کر رجوع کروایا ،، یہاں امی کی خدمت وجہ طلاق نہیں تھی بلکہ نماز کی جماعت میں عدم حاضری وجہ تھی ،، دوسری مثال بے جوڑ سی ھے کیونکہ ھمارے والدین میں سے کوئی بھی خلیل اللہ اور رسول اللہ نہیں ھے کہ اسے وحی کے ذریعے مستقبل کے بارے میں بتا دیا گیا ھو ، خلیل اللہ کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ نبی ﷺ جس کو انہوں نے اور حضرتِ اسماعیل علیہ السلام نے تعمیرِ کعبہ کے دوران مانگا ھے وہ اس عورت سے پیدا نہیں ھو گا ، لہذا اس کے لئے دوسری عورت کا انتظام کیا گیا ،
جنت جنت کھیلنے والے اس المیئے کا بدترین پہلو یہ ھے کہ یہ اکثر و بیشتر نام نہاد دینی بیک گراؤنڈ رکھنے والے گھرانوں میں کھیلا جاتا ھے ،، یوں بیٹا امی جی کے ھاتھ میں ایک چارے ( Bait) کے طور پر استعمال ھوتا ھے وہ بہترین سینٹ لگا کر اور بال بنا کر لڑکی پٹاتا ھے اور جب وہ لڑکی شکار ھو جاتی ھے تو وہ اسے بتاتا کہ سویٹ ھارٹ میں امی کو لے کر آ رھا ھوں ( تا کہ وہ دیکھ لیں کہ شکار ان کے اسٹینڈرڈ کا ھے یا نہیں ) وہ پہلے دن ھی لڑکی کو جتا دیتا ھے کہ اس گھر میں اس کے قیام کا انحصار امی ابا کے موڈ پر ھے لہذا وہ حتی الامکان کوشش کرے کہ ان کو اس کی طرف سے کسی قسم کی شکایت نہ ھو ،،
حالانکہ اگر امی جی کی خدمت ھی مطلوب و مقصودِ مومن تھا تو خود امی کی اپنی بیٹی اس کی زیادہ حقدار تھی کہ وہ امی جی کے پاس رھے اور ان کی خدمت خاطر کرتی رھے ، اس کام کے لئے کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی ؟ اپنی بیٹی ماں کے مزاج اور پسند ناپسند سے خوب آگاہ ھوتی ھے ، وہ اماں کے شور شرابے اور بڑی سے بڑی گالی کو بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتی ھے ،، وہ اماں کے الزام پر بھی کھلکھلا کر اسے جپھی مار کر رہ جاتی ھے “ ایسی آئیڈیل بچی غیروں کی ماں کی خدمت کے لئے دینے سے بہتر ھے کہ اپنی ماں کی خدمت کرے ،،
خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے وہ گھر میں تین بھائیوں کی بڑی بہن تھی ،، بھائی تقریباً اسی نے پالے تھے ، جس کی وجہ سے خود اس کا بچپن نا آسودہ اور ادھورا سا تھا ، اسے کسی بھی تقریب میں نہیں لے جایا جاتا تھا ،، بھائیوں کو پتہ نہیں کیسے مٹی کھانے کی لت پڑ گئ تھی ، اور والدین نے کمپیوٹر جینریٹڈ کمانڈ تیار کر رکھی تھی ،، ان کا خیال رکھنا مٹی نہ کھائیں ،، خیال رکھنا مٹی کی طرف نہ جائیں ،،،،،،،، اس بیچاری کے خواب بھی بھائیوں کو مٹی کھانے سے روکنے کی جدوجہد میں ھی شروع ھوتے اور ٹوٹتے ،، جوان ھوئی تو خدا خدا کر کے ایک رشتہ قبول کر لیا گیا ، جو کہ ابا جی کے مسجد کے ساتھی کا بیٹا تھا ،،،،،،،،،،،،،،
شادی کی تقریبات مکمل ھوئیں اور وہ شکر کا کلمہ پڑھتے ھوئے پیا گھر سدھار گئ ، شکر اس بات کا کہ بھائیوں کا خیال رکھنے سے جان چھوٹی اب چار دن اپنی نیند سوئے گی اور اپنی جاگ جاگے گی ،،،، وہ گھنٹے بھر سے سکڑی سمٹی بیٹھی تھی کہ گھونگٹ کشائی کا مرحلہ بھی گزرے اور وہ رسومات کی چکی سے نکل لے ،، شوھر تشریف لائے تو سلام نہ کلام ،، مصلی بچھایا اور نفل شروع کر دیئے ،، نفل بھی پوری تراویح لگتے تھے ،، پھر اتنی لمبی دعا جیسے کسی مصیبت سے بچنے کی سعی فرما رھے ھوں ، جل توں جلال توں - آئی بلا ٹال توں ،،، آخر پلنگ کی طرف متوجہ ھوئے کہ وھاں بھی کوئی مخلوق بٹھا رکھی ھے ،، باقی 15 منٹ اس کے بال پکڑ کر کچھ پڑھتے گزار دیئے ،، ،،،،،،،،، پھر دو زانو ھو کر بیٹھ گئے اور ھپناٹسٹ کی طرح کمانڈ دینے لگے ،،،،
دیکھ تجھے میرے ماں باپ کا خیال رکھنا ھو گا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ جادوئی جملہ سنتے ھی دلہن کا تراہ نکل گیا اور کمرہ اپنی چھت سمیت گھوم گیا ،اس نے ساری رسمی کارروائی اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور خود ھی گھونگٹ اٹھا کر بیساختہ پوچھا “کیوں ؟ تیرے ماں پیو وی مٹی کھاندے نیں
بیوی اسے اپنی نہیں بلکہ امی کی پسند کی چاھیئے جو اس کی امی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ھو ،،، اپنی پسند کرنے کے لئے پہاڑ جتنی زندگی پڑی ھے ناں ،، اچھے بچے ھمیشہ پہلی بیوی اپنی امی کے لئے کرتے ھیں ،، بلکہ امی سے بڑھ کر امی کے قدموں تلے دبی ھوئی جنت کے لئے کرتے ھیں ،، شادی کرتے ھی اس کی جنت ھر دو صورتوں میں کھری ھو جاتی ھے ، اگر اس کی بیوی امی جی کی توقعات پر پورا اترتے ھوئے بغیر تنخواہ کے ھاؤس میڈ کی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے میں کامیاب ھو جائے ،، تو بھی بیٹے کی جنت کھری ( چاھے بیوی کی دنیا جھنم بن جائے ) ،، یعنی دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں ،، اگر بیوی امی جان کی توقعات پر پورا نہ اترے بلکہ مزاحمت کرنا اور اپنے حقوق طلب کرنا شروع کر دے تو امی جی کے حکم پر اس کو طلاق دے کر بھی جنت کمائی جا سکتی ھے ،، یوں ایک بیوی کے ساتھ جنت کے دو دروازے کھل جاتے ھیں ،،،،،،،،،،
اس سلسلے میں دو مثالیں دھوبی پاٹ کا کام کرتی ھیں جن کے سامنے ھر بیٹا بےبس ھو جاتا ھے ، ایک تو یہ مثال کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو تو اس نے طلاق دے دی ،،، اور دوسری مثال حضرت ابراھیم علیہ السلام کی کہ انہوں نے کہا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ،، پہلی مثال کا بیک گراؤنڈ یہ ھے کہ صاحبزادہ جماعت کی نماز مس کر دیتا تھا اور بیوی کے اردگرد رھتا تھا ،لہذا حضرت عمرؓ اسے سبق سکھانا چاھتے تھے ،مگر جب بیٹے نے طلاق تو دے دی مگر اب تکبیرِ اولی نہیں بلکہ پوری جماعت ھی بھول کر مطلقہ بیوی کے گھر کی گلی میں بیٹھ کر رونا اور شعر پڑھنا شروع کر دیئے تو حضرت عمرؓ نے فوراً احساس کر لیا کہ دوا ری ایکشن کر گئ ھے اور پھر خود حکم دے کر رجوع کروایا ،، یہاں امی کی خدمت وجہ طلاق نہیں تھی بلکہ نماز کی جماعت میں عدم حاضری وجہ تھی ،، دوسری مثال بے جوڑ سی ھے کیونکہ ھمارے والدین میں سے کوئی بھی خلیل اللہ اور رسول اللہ نہیں ھے کہ اسے وحی کے ذریعے مستقبل کے بارے میں بتا دیا گیا ھو ، خلیل اللہ کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ نبی ﷺ جس کو انہوں نے اور حضرتِ اسماعیل علیہ السلام نے تعمیرِ کعبہ کے دوران مانگا ھے وہ اس عورت سے پیدا نہیں ھو گا ، لہذا اس کے لئے دوسری عورت کا انتظام کیا گیا ،
جنت جنت کھیلنے والے اس المیئے کا بدترین پہلو یہ ھے کہ یہ اکثر و بیشتر نام نہاد دینی بیک گراؤنڈ رکھنے والے گھرانوں میں کھیلا جاتا ھے ،، یوں بیٹا امی جی کے ھاتھ میں ایک چارے ( Bait) کے طور پر استعمال ھوتا ھے وہ بہترین سینٹ لگا کر اور بال بنا کر لڑکی پٹاتا ھے اور جب وہ لڑکی شکار ھو جاتی ھے تو وہ اسے بتاتا کہ سویٹ ھارٹ میں امی کو لے کر آ رھا ھوں ( تا کہ وہ دیکھ لیں کہ شکار ان کے اسٹینڈرڈ کا ھے یا نہیں ) وہ پہلے دن ھی لڑکی کو جتا دیتا ھے کہ اس گھر میں اس کے قیام کا انحصار امی ابا کے موڈ پر ھے لہذا وہ حتی الامکان کوشش کرے کہ ان کو اس کی طرف سے کسی قسم کی شکایت نہ ھو ،،
حالانکہ اگر امی جی کی خدمت ھی مطلوب و مقصودِ مومن تھا تو خود امی کی اپنی بیٹی اس کی زیادہ حقدار تھی کہ وہ امی جی کے پاس رھے اور ان کی خدمت خاطر کرتی رھے ، اس کام کے لئے کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی ؟ اپنی بیٹی ماں کے مزاج اور پسند ناپسند سے خوب آگاہ ھوتی ھے ، وہ اماں کے شور شرابے اور بڑی سے بڑی گالی کو بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتی ھے ،، وہ اماں کے الزام پر بھی کھلکھلا کر اسے جپھی مار کر رہ جاتی ھے “ ایسی آئیڈیل بچی غیروں کی ماں کی خدمت کے لئے دینے سے بہتر ھے کہ اپنی ماں کی خدمت کرے ،،
خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے وہ گھر میں تین بھائیوں کی بڑی بہن تھی ،، بھائی تقریباً اسی نے پالے تھے ، جس کی وجہ سے خود اس کا بچپن نا آسودہ اور ادھورا سا تھا ، اسے کسی بھی تقریب میں نہیں لے جایا جاتا تھا ،، بھائیوں کو پتہ نہیں کیسے مٹی کھانے کی لت پڑ گئ تھی ، اور والدین نے کمپیوٹر جینریٹڈ کمانڈ تیار کر رکھی تھی ،، ان کا خیال رکھنا مٹی نہ کھائیں ،، خیال رکھنا مٹی کی طرف نہ جائیں ،،،،،،،، اس بیچاری کے خواب بھی بھائیوں کو مٹی کھانے سے روکنے کی جدوجہد میں ھی شروع ھوتے اور ٹوٹتے ،، جوان ھوئی تو خدا خدا کر کے ایک رشتہ قبول کر لیا گیا ، جو کہ ابا جی کے مسجد کے ساتھی کا بیٹا تھا ،،،،،،،،،،،،،،
شادی کی تقریبات مکمل ھوئیں اور وہ شکر کا کلمہ پڑھتے ھوئے پیا گھر سدھار گئ ، شکر اس بات کا کہ بھائیوں کا خیال رکھنے سے جان چھوٹی اب چار دن اپنی نیند سوئے گی اور اپنی جاگ جاگے گی ،،،، وہ گھنٹے بھر سے سکڑی سمٹی بیٹھی تھی کہ گھونگٹ کشائی کا مرحلہ بھی گزرے اور وہ رسومات کی چکی سے نکل لے ،، شوھر تشریف لائے تو سلام نہ کلام ،، مصلی بچھایا اور نفل شروع کر دیئے ،، نفل بھی پوری تراویح لگتے تھے ،، پھر اتنی لمبی دعا جیسے کسی مصیبت سے بچنے کی سعی فرما رھے ھوں ، جل توں جلال توں - آئی بلا ٹال توں ،،، آخر پلنگ کی طرف متوجہ ھوئے کہ وھاں بھی کوئی مخلوق بٹھا رکھی ھے ،، باقی 15 منٹ اس کے بال پکڑ کر کچھ پڑھتے گزار دیئے ،، ،،،،،،،،، پھر دو زانو ھو کر بیٹھ گئے اور ھپناٹسٹ کی طرح کمانڈ دینے لگے ،،،،
دیکھ تجھے میرے ماں باپ کا خیال رکھنا ھو گا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ جادوئی جملہ سنتے ھی دلہن کا تراہ نکل گیا اور کمرہ اپنی چھت سمیت گھوم گیا ،اس نے ساری رسمی کارروائی اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور خود ھی گھونگٹ اٹھا کر بیساختہ پوچھا “کیوں ؟ تیرے ماں پیو وی مٹی کھاندے نیں