ایک بیوی کے ساتھ جنت کے دو دروازے کھل جاتے ھیں

ابن آدم کا المیہ یہ ھے کہ وہ تین ماہ چلنے والے جوتوں پہ تو کمپرومائز نہیں کرتا اور اپنی پسند پر اصرار کرتا ھے ،، مگر ساری زندگی ساتھ دینے والی اور آنے والی نسلوں کی آبیاری کرنے والی بیوی پر کمپرومائز کر لیتا ھے ،،،

بیوی اسے اپنی نہیں بلکہ امی کی پسند کی چاھیئے جو اس کی امی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ھو ،،، اپنی پسند کرنے کے لئے پہاڑ جتنی زندگی پڑی ھے ناں ،، اچھے بچے ھمیشہ پہلی بیوی اپنی امی کے لئے کرتے ھیں ،، بلکہ امی سے بڑھ کر امی کے قدموں تلے دبی ھوئی جنت کے لئے کرتے ھیں ،، شادی کرتے ھی اس کی جنت ھر دو صورتوں میں کھری ھو جاتی ھے ، اگر اس کی بیوی امی جی کی توقعات پر پورا اترتے ھوئے بغیر تنخواہ کے ھاؤس میڈ کی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے میں کامیاب ھو جائے ،، تو بھی بیٹے کی جنت کھری ( چاھے بیوی کی دنیا جھنم بن جائے ) ،، یعنی دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں ،، اگر بیوی امی جان کی توقعات پر پورا نہ اترے بلکہ مزاحمت کرنا اور اپنے حقوق طلب کرنا شروع کر دے تو امی جی کے حکم پر اس کو طلاق دے کر بھی جنت کمائی جا سکتی ھے ،، یوں ایک بیوی کے ساتھ جنت کے دو دروازے کھل جاتے ھیں ،،،،،،،،،،

اس سلسلے میں دو مثالیں دھوبی پاٹ کا کام کرتی ھیں جن کے سامنے ھر بیٹا بےبس ھو جاتا ھے ، ایک تو یہ مثال کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو تو اس نے طلاق دے دی ،،، اور دوسری مثال حضرت ابراھیم علیہ السلام کی کہ انہوں نے کہا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ،، پہلی مثال کا بیک گراؤنڈ یہ ھے کہ صاحبزادہ جماعت کی نماز مس کر دیتا تھا اور بیوی کے اردگرد رھتا تھا ،لہذا حضرت عمرؓ اسے سبق سکھانا چاھتے تھے ،مگر جب بیٹے نے طلاق تو دے دی مگر اب تکبیرِ اولی نہیں بلکہ پوری جماعت ھی بھول کر مطلقہ بیوی کے گھر کی گلی میں بیٹھ کر رونا اور شعر پڑھنا شروع کر دیئے تو حضرت عمرؓ نے فوراً احساس کر لیا کہ دوا ری ایکشن کر گئ ھے اور پھر خود حکم دے کر رجوع کروایا ،، یہاں امی کی خدمت وجہ طلاق نہیں تھی بلکہ نماز کی جماعت میں عدم حاضری وجہ تھی ،، دوسری مثال بے جوڑ سی ھے کیونکہ ھمارے والدین میں سے کوئی بھی خلیل اللہ اور رسول اللہ نہیں ھے کہ اسے وحی کے ذریعے مستقبل کے بارے میں بتا دیا گیا ھو ، خلیل اللہ کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ نبی ﷺ جس کو انہوں نے اور حضرتِ اسماعیل علیہ السلام نے تعمیرِ کعبہ کے دوران مانگا ھے وہ اس عورت سے پیدا نہیں ھو گا ، لہذا اس کے لئے دوسری عورت کا انتظام کیا گیا ،
جنت جنت کھیلنے والے اس المیئے کا بدترین پہلو یہ ھے کہ یہ اکثر و بیشتر نام نہاد دینی بیک گراؤنڈ رکھنے والے گھرانوں میں کھیلا جاتا ھے ،، یوں بیٹا امی جی کے ھاتھ میں ایک چارے ( Bait) کے طور پر استعمال ھوتا ھے وہ بہترین سینٹ لگا کر اور بال بنا کر لڑکی پٹاتا ھے اور جب وہ لڑکی شکار ھو جاتی ھے تو وہ اسے بتاتا کہ سویٹ ھارٹ میں امی کو لے کر آ رھا ھوں ( تا کہ وہ دیکھ لیں کہ شکار ان کے اسٹینڈرڈ کا ھے یا نہیں ) وہ پہلے دن ھی لڑکی کو جتا دیتا ھے کہ اس گھر میں اس کے قیام کا انحصار امی ابا کے موڈ پر ھے لہذا وہ حتی الامکان کوشش کرے کہ ان کو اس کی طرف سے کسی قسم کی شکایت نہ ھو ،،

حالانکہ اگر امی جی کی خدمت ھی مطلوب و مقصودِ مومن تھا تو خود امی کی اپنی بیٹی اس کی زیادہ حقدار تھی کہ وہ امی جی کے پاس رھے اور ان کی خدمت خاطر کرتی رھے ، اس کام کے لئے کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی ؟ اپنی بیٹی ماں کے مزاج اور پسند ناپسند سے خوب آگاہ ھوتی ھے ، وہ اماں کے شور شرابے اور بڑی سے بڑی گالی کو بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتی ھے ،، وہ اماں کے الزام پر بھی کھلکھلا کر اسے جپھی مار کر رہ جاتی ھے “ ایسی آئیڈیل بچی غیروں کی ماں کی خدمت کے لئے دینے سے بہتر ھے کہ اپنی ماں کی خدمت کرے ،،
خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے وہ گھر میں تین بھائیوں کی بڑی بہن تھی ،، بھائی تقریباً اسی نے پالے تھے ، جس کی وجہ سے خود اس کا بچپن نا آسودہ اور ادھورا سا تھا ، اسے کسی بھی تقریب میں نہیں لے جایا جاتا تھا ،، بھائیوں کو پتہ نہیں کیسے مٹی کھانے کی لت پڑ گئ تھی ، اور والدین نے کمپیوٹر جینریٹڈ کمانڈ تیار کر رکھی تھی ،، ان کا خیال رکھنا مٹی نہ کھائیں ،، خیال رکھنا مٹی کی طرف نہ جائیں ،،،،،،،، اس بیچاری کے خواب بھی بھائیوں کو مٹی کھانے سے روکنے کی جدوجہد میں ھی شروع ھوتے اور ٹوٹتے ،، جوان ھوئی تو خدا خدا کر کے ایک رشتہ قبول کر لیا گیا ، جو کہ ابا جی کے مسجد کے ساتھی کا بیٹا تھا ،،،،،،،،،،،،،،

شادی کی تقریبات مکمل ھوئیں اور وہ شکر کا کلمہ پڑھتے ھوئے پیا گھر سدھار گئ ، شکر اس بات کا کہ بھائیوں کا خیال رکھنے سے جان چھوٹی اب چار دن اپنی نیند سوئے گی اور اپنی جاگ جاگے گی ،،،، وہ گھنٹے بھر سے سکڑی سمٹی بیٹھی تھی کہ گھونگٹ کشائی کا مرحلہ بھی گزرے اور وہ رسومات کی چکی سے نکل لے ،، شوھر تشریف لائے تو سلام نہ کلام ،، مصلی بچھایا اور نفل شروع کر دیئے ،، نفل بھی پوری تراویح لگتے تھے ،، پھر اتنی لمبی دعا جیسے کسی مصیبت سے بچنے کی سعی فرما رھے ھوں ، جل توں جلال توں - آئی بلا ٹال توں ،،، آخر پلنگ کی طرف متوجہ ھوئے کہ وھاں بھی کوئی مخلوق بٹھا رکھی ھے ،، باقی 15 منٹ اس کے بال پکڑ کر کچھ پڑھتے گزار دیئے ،، ،،،،،،،،، پھر دو زانو ھو کر بیٹھ گئے اور ھپناٹسٹ کی طرح کمانڈ دینے لگے ،،،،
دیکھ تجھے میرے ماں باپ کا خیال رکھنا ھو گا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

یہ جادوئی جملہ سنتے ھی دلہن کا تراہ نکل گیا اور کمرہ اپنی چھت سمیت گھوم گیا ،اس نے ساری رسمی کارروائی اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور خود ھی گھونگٹ اٹھا کر بیساختہ پوچھا “کیوں ؟ تیرے ماں پیو وی مٹی کھاندے نیں
 

x boy

محفلین
بہت عمدہ
شکریہ

ایک فیملی میں شادی شدہ جوڑے کی محبت ان کے بچوں کو دیکھ اندازا لگانا مشکل ہے اگر شوہر سے بیوی پوچھے کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو شوہر جٹ سے کہہ دے ہے کہ یہ بچے تم اپنے میکے لائی ہو ، بچے ہونا پیار کی علامت نہیں ہے یہ مرد کی حوس ہے
محبت وہی ہے شوہر گھر پہنچنے کی جلدی کرے اور بیوی دروازے پر نظر لگا رکھے۔ پھر بھی مرد کا دل ایک عورت سے بھر جانا قابل یقین بات نہیں۔
یہ فطرت ہے اور فطری طور پر ابن آدم مرد ذات کچھ نہ کچھ عادات اسطرح کے ہوتے ہی ہیں اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں باہر نظریں نیچی رکھتا ہوں تو میں اس بات پر اس وقت یقین کرتا ہوں کہ وہ اس کو اندر اور باہر سے اچھی طرح جانتا ہوں ،، میں جس جم میں جاتا ہوں وہاں نیم عریاں لڑکیاں بھی آتی ہیں اللہ رب العزت ہمارے خواہشات کو صاف شفاف اور نیتوں کو اچھا کرے، آمین،، میرے نظر کا کوٹے کو کبھی کمی کا احساس ہوجاتاہے۔
ہم بھی اپنے کام میں مصروف ہوتے وہ لڑکیاں بھی لیکن اگر اس طرح بار بار سامنے آجائے تو مسئلہ بہت خطرناک ہوجاتا ہے ہم تو جم اس لئے جاتے ہیں کہ صحت بنایا جائے لیکن جم میں صحت تو بن جاتی ہے لیکن نظریں بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے ابن آدم اس میں بہت کمزور واقع ہوا ہے۔
انتہا۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تو عنوان پڑھ کر یہ خیال آیا کہ دو بیویوں کے ساتھ چار دروازے کھل جاتے ہوں تو کثیر ازواجی بڑی نفع بخش ثابت ہوئی ہے!!!
 

ابن رضا

لائبریرین
بالکل سر الف عین نے جو بات بیان کی عنوان سے یہی لگتا ہے کہ سارے دروازے کھولنے ہیں تو چار کی اجازت اسی لیے دی گئی ہے۔

تفنن برطرف بہت اچھی اور چبھتی ہوئی تحریر۔ اعتدال کے ساتھ کام لیا جائے تو سبھی رشتے اپنی اپنی جگہ محترم ہیں
 

عندلیب

محفلین
ہم تو کہتے ہیں کہ لکھنے والے نے پھر بھی موضوع پر ہاتھ تھوڑا نرم ہی رکھا ورنہ مٹی کھانے کی روایت کا تو ایک دراز ہی سلسلہ ہے۔۔۔
اماں بی کو دیکھ کر ہٹیں تو ادھر سے نند نظر آتی ہیں مٹی پھانکتے ۔۔ ان کی مدد سے فارغ ہوئیں تو آواز آتی ہے بیٹی ذرا دیکھنا تمہارے چھوٹے دیور اپنے کپڑے مٹی میں تو خراب نہیں کر رہے۔۔۔ واشنگ مشین میں ڈال دو سب کپڑے اس کے
پھر پھپھو خالہ ممانی آئیں تو آواز لگاتی ہیں ۔۔ اے ہے تمہاری بہو تو کچھ سلیقہ والی نہیں لگتی، ذرا دیکھو کرسی فرش پر کتنی مٹی دھول پڑی ہے
بچے ہوئیں تو ایک کو پکڑو دھلاؤ ادھر دوسرا مٹی میں لوٹ پوٹ ۔۔۔ اس پر غضب تو میاں جی کے کمانڈز۔۔۔۔ ارے وہ میرے موزے کدھر گئے؟ بنیان نہیں مل رہی۔۔ کنگھا کیا کچن سے ملے گا؟ بہت خاص دوست آئے ہیں صرف چائے کیوں پکوڑے سینڈوچ بھی بنا دینا ذرا ۔۔۔۔۔
نکاح دراز مانگ لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو مٹی میں مل گئے:love-over:
 
ہم تو کہتے ہیں کہ لکھنے والے نے پھر بھی موضوع پر ہاتھ تھوڑا نرم ہی رکھا ورنہ مٹی کھانے کی روایت کا تو ایک دراز ہی سلسلہ ہے۔۔۔
اماں بی کو دیکھ کر ہٹیں تو ادھر سے نند نظر آتی ہیں مٹی پھانکتے ۔۔ ان کی مدد سے فارغ ہوئیں تو آواز آتی ہے بیٹی ذرا دیکھنا تمہارے چھوٹے دیور اپنے کپڑے مٹی میں تو خراب نہیں کر رہے۔۔۔ واشنگ مشین میں ڈال دو سب کپڑے اس کے
پھر پھپھو خالہ ممانی آئیں تو آواز لگاتی ہیں ۔۔ اے ہے تمہاری بہو تو کچھ سلیقہ والی نہیں لگتی، ذرا دیکھو کرسی فرش پر کتنی مٹی دھول پڑی ہے
بچے ہوئیں تو ایک کو پکڑو دھلاؤ ادھر دوسرا مٹی میں لوٹ پوٹ ۔۔۔ اس پر غضب تو میاں جی کے کمانڈز۔۔۔۔ ارے وہ میرے موزے کدھر گئے؟ بنیان نہیں مل رہی۔۔ کنگھا کیا کچن سے ملے گا؟ بہت خاص دوست آئے ہیں صرف چائے کیوں پکوڑے سینڈوچ بھی بنا دینا ذرا ۔۔۔۔۔
نکاح دراز مانگ لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو مٹی میں مل گئے:love-over:
سچ میں عندلیب حقیقت اس سے مختلف نہیں ہے..
 

آوازِ دوست

محفلین
پہلے تو عنوان پڑھ کر یہ خیال آیا کہ دو بیویوں کے ساتھ چار دروازے کھل جاتے ہوں تو کثیر ازواجی بڑی نفع بخش ثابت ہوئی ہے!!!
عنوان پڑھتے ہی حساب دیکھا کہ دروازے پانچ اور آپشن تین باقی بچے ہیں سو اَب کریں تو کیا کریں شُکر ہے بات آئی گئی ہو گئی :)
 

دوست

محفلین
یہ تحریر قاری حنیف ڈار کی وال پر دیکھی تھی۔ اگر میرا شک ٹھیک ہے اور آپ نے انہیں کی تحریر کاپی پیسٹ کی ہے تو اصل مصنف کا نام ساتھ لکھنا آپ کا اخلاقی فرض ہے۔ پڑھنے والے اسے آپ کی تحریر سمجھیں گے تو آپ کچھ کہے بغیر بھی خیانت اور جھوٹ کی گنہگار ہوں گی۔
اگر یہ واقعی آپ کی تحریر ہے اور قاری صاحب نے نقل کی تھی تو یہی ان سے کہا جائے گا۔
 
یہ تحریر قاری حنیف ڈار کی وال پر دیکھی تھی۔ اگر میرا شک ٹھیک ہے اور آپ نے انہیں کی تحریر کاپی پیسٹ کی ہے تو اصل مصنف کا نام ساتھ لکھنا آپ کا اخلاقی فرض ہے۔ پڑھنے والے اسے آپ کی تحریر سمجھیں گے تو آپ کچھ کہے بغیر بھی خیانت اور جھوٹ کی گنہگار ہوں گی۔
اگر یہ واقعی آپ کی تحریر ہے اور قاری صاحب نے نقل کی تھی تو یہی ان سے کہا جائے گا۔
محترم دوست جی
مجھے یہ تحریر ایک سوشل میڈیا ویب سائٹ Tumblr پر ملی تھی اور یقین کریں کہ مجھے سچ میں نہیں اندازہ کہ یہ تحریر کن صاحب کی ہے مجھے یہ تحریر اچھی لگی تو آپ احباب کے ساتھ شئر کر دی اور کوئی مقصد نہیں تھا...
 

دوست

محفلین
براہِ کرم سورس ضرور دیا کریں۔ اردو والے ویسے تو ماخوذ بھی لکھ دیتے ہیں۔
ٹمبلر کا کوئی ربط تو ہو گا تو وہ دیا جا سکتا ہے۔
 
http://urduu.tumblr.com/post/131644715658/ابن-آدم-کا-المیہ-یہ-ھے-کہ-وہ-تین-ماہ-چلنے-والے
براہِ کرم سورس ضرور دیا کریں۔ اردو والے ویسے تو ماخوذ بھی لکھ دیتے ہیں۔
ٹمبلر کا کوئی ربط تو ہو گا تو وہ دیا جا سکتا ہے۔
آئندہ احتیاط کروں گی
شکریہ

یہ ہے ٹمبلر کا ربط
 
حضرت ابراھیم علیہ السلام کی کہ انہوں نے کہا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی

کوئی حوالہ قران حکیم سے مل سکتا ہے؟



شادی ماں باپ کی مرضی سے یا اپنی پسند سے ؟
مردوں کے لئے حکم الہی ۔۔۔
شادی ان عورتوں سے کرو جو "تم" کو پسند آئیں ۔
ابا اماں نے اپنی شادی کے وقت اپنا حق استعمال کرلیا کہ اپنی پسند سے شادی کرلی ۔ اب مرد کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرے ۔ یہ حق مرد کو اللہ تعالی نے دیا ہے۔
سورۃ النساء آیت نمبر 3

4:3 وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ

اور اگر اندیشہ ہو تم کو کہ نہ انصاف کرسکو تم یتیم (لڑکیوں) کے معاملے میں تو نکاح کروتم ان سے جو پسند آئیں تم کو عورتیں دو دو ، تین تین، چار چار۔ پھر اگر خوف ہو تم کو یہ کہ نہ عدل کرسکو گے تو بس ایک یا پھر (لونڈی) جو تمہاری مِلک میں ہو۔ یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ بچ جاؤ تم ناانصافی سے۔


عورتوں کے شادی کرنے کے حق کے بارے میں اللہ تعالی کا حکم ۔
عورتوں کو ان کی مرضی کے جوڑے سے شادی کرنے سے نا روکو
2:232 وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدتکو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، اس شخص کو اس امر کی نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اﷲ پراور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو، یہ تمہارے لئے بہت ستھری اور نہایت پاکیزہ بات ہے، اور اﷲ جانتا ہے اور تم (بہت سی باتوں کو) نہیں جانتے

یہاں طاہر القادری نے لفظ أَزْوَاجَهُنَّ کا ترجمہ نئے یا پرانے شوہر کیا ہے جبکہ زوج کے معانی جوڑا ، پئیر یا کپل بنتے ہیں۔ یعنی عورتوں کی پسند کا شخص جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔

عورتوں پر زبردستی قبضہ کرنے کے خلاف حکم الہی۔
4:19 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے

مرد اور عورت دونوں کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا حق اللہ تعالی نے دیا ہے۔ اس بنیادی حق کو دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب تسلیم کرتا ہے۔

مرد پر اضافی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی زوجہ کو اپنی وسعت کے مطابق رہنے کی جگہ فراہم کرے، سارے خرچے اٹھائے ، حتی کہ اگر عورتیں مرد کی اولاد کو دودھ پلائیں تو اس کا بھی معاوضہ مرد ادا کرے ۔ کچھ لوگ اس آیت کو طلاق کے بعد کی شرط قرار دیتے ہیں ۔ میں اس کو ازداوجی زندگی پر محیط سمجھتا ہوں ۔ اس لئے کہ طلاق کے بعد تو تعلق ختم ہوگیا تو بھی اپنے بچے کو دودھ پلانے کی ادائیگی کرنی ہے تو جب تعلق ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایک بیوی کا اپنے شوہر پر سے یہ حق ختم ہو جائے۔ بنیادی طور پر گھر اور گھر کا سارا خرچہ ایک عورت کا حق ہے جو اس کے شوہر پر اللہ تعالی کی طرف سے فرض ہے۔ اس لئے کہ یہ ماں صرف اپنے بچوں کی پرورش ہی نہیں کرتی ہے ایک قوم کی تعمیر بھی کرتی ہے۔

65:6 أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى
تم اُن عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی


والسلام
 

x boy

محفلین
سو فیصد کسی پر بھی بھروسہ ناممکنات میں سے ہے سوائے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
مجھے ایران جانے کا دل کررہا ہے،، باقی جملے آپ لوگ مکمل کریں۔
 
2:232 وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدتکو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، اس شخص کو اس امر کی نصیحت کی جاتی یہے جو تم میں سے اﷲ پراور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو، یہ تمہارے لئے بہت ستھری اور نہایت پاکیزہ بات ہے، اور اﷲ جانتا ہے اور تم (بہت سی باتوں کو) نہیں جانتے

یہاں طاہر القادری نے لفظ أَزْوَاجَهُنَّ کا ترجمہ نئے یا پرانے شوہر کیا ہے جبکہ زوج کے معانی جوڑا ، پئیر یا کپل بنتے ہیں۔ یعنی عورتوں کی پسند کا شخص جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔

سرخ رنگ کے حصوں پر غور کیجئے
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ مزکورہ موقف اس بنیاد پر ہے؟
یعنی یہ حکمِ عام نہیں بلکہ صرف شوہر دیدہ خواتین کے متعلق ہے
 
آپ کی مرضی ہے کہ "طلاق یافتہ عورتوں" اور "غیر طلاق یافتہ عورتوں" کے الگ الگ گروپ بنا لیجئے۔ بھائی عورتیں محترم ہیں چاہے بن بیاہی ہوں یا طلاق یافتہ

اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر عورتوں کو کون روک سکتا ہے کہ اپنی پسند کے مردوں سے شادی کرنے کے لئے پہلے ایک شادی کرکے طلاق لے لیں اور پہلے شوہر کو دوڑا دیں ۔۔۔ پھر اپنی پسند کے جوڑے سے دوسری شادی کرلیں۔

انصاف یہ ہے ہوتا ہے کہ جس طرف سے بھی دیکھیں برابر نظر آئے۔ کیا عورتیں اپنا حق صرف اور صرف طلاق کے بعد ہی استعمال کرسکتی ہیںِ؟

ایک طرف تو ملا ٹولے نے طلاق یافتہ عورت کو "بے کار اور بے عزت" قرار دیا ہوا ہے اور دوسری طرف اس کو پسند کا حق صرف اور صرف طلاق کے بعد ہے؟ کیوں؟

بن بیاہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بے بنیاد روایتوں اور رواجوں کے تلے دبی رہے؟ کیا بن بیاہی عورت کسی کی ملکیت ہے کہ اس کے وارث بھی نکل آئیں ۔۔ ایسی روایتی ترکیبیں خواتین کو ان کا حق استعمال کرنے سے روکنے کے لئے اب شائید کام نہیںں کرتی ہیں۔

عورتوں کے زبردستی وارث مت بن بیٹھو۔ اس آئت پر بھی غور کریں۔

والسلام
 
دراصل میں نے نمائندہ تصویر پر غور نہیں کیا تھا۔ اگر پہلے غور کر لیتا تو یقینًا کمنٹ کو اہمیت نہ دیتا :D
اب غور کر لیا ہے لہذا اب میرے لئے ان کمٹس کی کوئی حثیت نہیں ۔۔۔
 
دراصل میں نے نمائندہ تصویر پر غور نہیں کیا تھا۔ اگر پہلے غور کر لیتا تو یقینًا کمنٹ کو اہمیت نہ دیتا :D
اب غور کر لیا ہے لہذا اب میرے لئے ان کمٹس کی کوئی حثیت نہیں ۔۔۔

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا :)
 
Top