وارد تو پہلا شعر ہوتا ہے، اس کے بعد زیادہ تر یوں ہوتا ہے کہ زمین گونجتی رہتی ہے ذہن میں اور مزید آمد ہوتی رہتی ہے، کچھ آورد بھی۔ لیکن اس قسم کے شعر کا ورود ہو بھی تو زمین بدل دیا کرو، تاکہ خواہ مخواہ ’اٹھا پٹک‘ نہیں کرنی پڑے۔ اس غزل میں مستقل یہی احساس ہوتا ہے۔
جی بہتر ہے جناب آئندہ کوشش کروں گا
عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے ہیں پہ نہیں وصل کی شب، دیکھ ذرا
حسن کی ایک نظر حشر بپا کردے گی
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
÷÷÷ پرانے مطلع کو دو اشعار میں بدلا گیا ہے۔ مطلع تو اب بھی واضح نہیں۔ دوسرا شعر درست ہے۔
مطلع میں کہنا یہ تھا کہ ہجر نے عشق پر غضب ڈھا رکھا ہے، کہ مر مٹنے کی نوبت آ چکی پر وصل نصیب نہیں ہوا
اُس کی نفرت نے محبت کو کبھی کم نہ کیا
ماجرا کیا ہے یہ کیسا ہے عجب، دیکھ ذرا
÷÷نیا شعر ہے۔ اور ’حسبِ معمول‘ واضح نہیں۔
’کیسا ہے عجب‘ کیا محاورہ ہے؟ لیکن جب ’ماجرا کیا ہے‘ سے معلوم ہوا کہ یہ معلوم ہی نہیں کہ ماجرا کیا ہے، تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کیسا عجب ہے؟
جی تبدیل کیے دیتا ہوں
دیکھتا روز تماشا ہوں نیا میں بھی یہاں
میرا کچھ ساتھ تو دے، تُو بھی یہ سب دیکھ ذرا
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ مرا، میری طلب دیکھ ذرا
ختم ہونے کو نہیں آٴے یہاں رنجُ الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر بزم طرب دیکھ ذرا
÷÷ نیا شعر ہے، بزمِ طرب نہیں، سازِ طرب چھیڑا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ املا کی طرف بھی اشارہ کروں۔ یہ واو عطف ہے، پیش کی جگہ نہیں۔ یعنی رنج و الم۔ تین الفاظ ہیں۔ اس کے علاوہ درمیانی ہمزہ کے لئے یہ اوپر والی ہمزہ کا استعمال مت کیا کرو، ’ئ‘ استعمال کی جاتی ہے یونی کوڈ میں، جو یو کی کنجی پر ہے، ’آئے‘۔
جی بہتر تبدیل کیے دیتا ہوں جناب
ختم ہونے کو نہیں آے ابھی میرے الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر ساز طرب دیکھ ذرا
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
میرا برتاو، مری حد ادب، دیکھ ذرا
÷÷درست، اگرچہ تبدیلی کی ضرورت نہیں تھی۔
دوست دشمن میں نہیں فرق رہا اب کوٴی
سامنے دیکھ کے اظہر تُو عقب ، دیکھ ذرا
÷÷ دوسرا مصرع رواں نہیں، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے
دوست دشمن میں نہیں فرق رہا اب اظہر
وہ ترے پیش نظر ہو کہ عقب ، دیکھ ذرا
یہ محض ایک نا پختہ کوشش ہے، شعر اب بھی رواں نہیں ہے، کچھ اور بہتر سوچا جا سکتا ہے۔
بہتر جناب اسے تبدیل کیے دیتا جی
تاک میں دوست بھی دشمن بھی ہیں تیرے اظہر
اب ترے پیش نظر ہو کہ عقب، دیکھ ذرا