ایک تازہ غزل اساتذہ کی رہ نمائی کی منتظر

میں جو لکھتا ہوں، مرے حرف صدا دیتے ہیں
فرش والے نہ سہی، عرش ھلا دیتے ہیں
پوچھتے کیا ہو، بنے پیار میں کیوں ہیں پاگل
چاہتا کون ہے، حالات بنا دیتے ہیں
یوں تو کرتا ہی رہا ہوں میں جفا کا ماتم
کیوں وفا کر کے بھی کچھ لوگ رلا دیتے ہیں
شرم آتی بھی نہیں، نام کے ہمدردوں کو
آنکھ میں ڈال کے جب دھول دغا دیتے ہیں
روز پوچھے ہیں کہو ہجر میں کیسی گزری
روز بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
کیوں جنم دن کو مناتا ہی نہیں ہے اظہر
یہ گزرتے ہوئے دن، عمر گھٹا دیتے ہیں
 
کچھ تبدیلیاں


میں جو لکھتا ہوں، مرے حرف صدا دیتے ہیں

فرش والے نہ سہی، عرش ھلا دیتے ہیں


پوچھتے کیا ہو، بنے پھرتے ہیں پاگل کیونکر

چاہتا کون ہے، حالات بنا دیتے ہیں


یوں تو کرتا ہی رہا ہوں میں جفا کا ماتم

کیوں وفا کر کے بھی کچھ لوگ رلا دیتے ہیں


شرم آتی بھی نہیں، نام کے ہمدردوں کو

جھونک کر آنکھ میں جب دھول دغا دیتے ہیں


روز پوچھیں وہ کہو ہجر میں کیسی گزری

روز بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں


ہاں جنم دن پہ خوشی کیسے مناٗے اظہر

یہ گزرتے ہوئے دن، عمر گھٹا دیتے ہیں
 

غ۔ن۔غ

محفلین
روز پوچھے ہیں کہو ہجر میں کیسی گزری
روز بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں

واہ بہت خوب ۔ ۔ ۔ ۔
داد قبول کیجئے جناب
 

الف عین

لائبریرین
میں جو لکھتا ہوں، مرے حرف صدا دیتے ہیں
فرش والے نہ سہی، عرش ھلا دیتے ہیں
//شعر مبہم ہے، دوسرے مصرعے میں عرش ھلانے سے مطلب؟

پوچھتے کیا ہو، بنے پھرتے ہیں پاگل کیونکر
چاہتا کون ہے، حالات بنا دیتے ہیں
//درست

یوں تو کرتا ہی رہا ہوں میں جفا کا ماتم
کیوں وفا کر کے بھی کچھ لوگ رلا دیتے ہیں
//جفا کا ماتم سمجھ میں نہیں آیا۔

شرم آتی بھی نہیں، نام کے ہمدردوں کو
جھونک کر آنکھ میں جب دھول دغا دیتے ہیں
//اس میں بھی روانی کی کمی ہے، یوں کر دو توَََ؟؟؟
شرم آتی ہی نہیں، نام کے ہمدردوں کو
جھونک کر دھول یہ آنکھوں میں دغا دیتے ہیں

روز پوچھیں وہ کہو ہجر میں کیسی گزری
روز بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
// اس کو میر کے لہجے میں کہا جائے توَ۔۔۔؟
روز پوچھے ہیں کہو ہجر میں کیسی گزری

ہاں جنم دن پہ خوشی کیسے مناٗے اظہر
یہ گزرتے ہوئے دن، عمر گھٹا دیتے ہیں
// یہ تو وہی خیال ہے کہ کسی کا شعر ہے

کیوں لوگ مناتے ہیں خوشی سالگرہ کی
یاں ایک برس اور گیا اپنی گرہ سے
’جنم دن ‘ میں جنم کا تلفظ بھی ہندی کے حساب سے غلط ہے۔ اس کو اردو والے کبھی کبھی جَنَم دن بنا دیتے ہیں، جیسا کہ تم نے کیا ہے، لیکن درست نون پر جزم ہے۔ اس لئے یہ جھگڑا ہی ختم کر کے سالگرہ کا لفظ استعمال کیا جائے۔بہر حال تمہارے شعر کی رواں تر صورت یوں ممکن ہے۔
کیوں منائے گا خوشی سالگرہ کی اظہر
 
میں جو لکھتا ہوں، مرے حرف صدا دیتے ہیں
فرش والے نہ سُنیں، عرش ہلا دیتے ہیں
پوچھتے کیا ہو، بنے پھرتے ہیں پاگل کیونکر
چاہتا کون ہے، حالات بنا دیتے ہیں
میں تو حیراں ہوں مسیحا یہ مرے کیسے ہیں
حال سُنتے بھی نہیں اور دوا دیتے ہیں
شرم آتی ہی نہیں، نام کے ہمدردوں کو
جھونک کر دھول یہ آنکھوں میں دغا دیتے ہیں
روز پوچھے ہیں کہو ہجر میں کیسی گزری
روز بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
کیوں منائے گا خوشی سالگرہ کی اظہر
یہ گزرتے ہوئے دن، عمر گھٹا دیتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ایک شعر کا اضافہ کر دیا ہے تم نے
میں تو حیراں ہوں مسیحا یہ مرے کیسے ہیں
حال سُنتے بھی نہیں اور دوا دیتے ہیں
درست تو ہے، لیکن دونوں مصرعوں میں ’ہیں‘ سے بچا جا سکتا ہے، اس سقم کو دور کرنے کے لئے کچھ روانی پر اثر پڑتا ہے تو پڑنے دو۔​
میں تو حیراں ہوں مسیحا ہیں یہ میرے کیسے
 
میں جو لکھتا ہوں، مرے حرف صدا دیتے ہیں
فرش والے نہ سُنیں، عرش ہلا دیتے ہیں
پوچھتے کیا ہو، بنے پھرتے ہیں پاگل کیونکر
چاہتا کون ہے، حالات بنا دیتے ہیں
میں تو حیراں ہوں مسیحا ہیں یہ میرے کیسے
حال سُنتے بھی نہیں اور دوا دیتے ہیں
شرم آتی ہی نہیں، نام کے ہمدردوں کو
جھونک کر دھول یہ آنکھوں میں دغا دیتے ہیں
روز پوچھے ہیں کہو ہجر میں کیسی گزری
روز بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
کیوں منائے گا خوشی سالگرہ کی اظہر
یہ گزرتے ہوئے دن، عمر گھٹا دیتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
میں جو لکھتا ہوں، مرے حرف صدا دیتے ہیں
فرش والے نہ سُنیں، عرش ہلا دیتے ہیں
اب بھی مبہم ہے، بلکہ اس میں تو کوئی تبدیلی کی بھی نہیں ہے۔
شاید مراد یہ ہو کہ چاہے زمین پر میری کوئی نہیں سنتا مگر عرش ہل جاتا ہے۔ اس خیال کو ایک ہی مصرع کی بجائے دونوں مصرعوں میں پیش کرو تو شاید بات بن جائے۔ فی الحال تو پہلا مصرع معنی خیز نہیں۔ میں بھی کچھ سوچتا ہوں
 
Top