ایک تازہ غزل اصلاح کی غرض سے

اتنا مشکل بھی نہیں اور یہ آساں بھی نہیں
باعث درد نہیں، درد کا درماں بھی نہیں
میں ادھر کا بھی نہیں، اور اُدھر کا نہ رہا
تجھ سے راضی بھی نہیں اور میں نالاں بھی نہیں
تُو نہیں ہے، تو بھی احساس ترا رہتا ہے
وصل لگتا بھی نہیں اور یہ ہجراں بھی نہیں
کیا مصیبت ہے، ہوا جب سے محبت کا اسیر
اب تو آزاد نہیں ہوں، پس زنداں بھی نہیں
اُس کے اظہار سے پہلے کوٗی امکان تو تھا
اب جو انکار کیا ہے تو وہ امکاں بھی نہیں
حرف مدھم سے عبارت بھی شکستہ اظہر
اُس نے لکھا ہے مگر خط پہ تو عنواں بھی نہیں
 
بڑی نوازش محترم اُستاد، کچھ تبدیلیاں

اتنا مشکل بھی نہیں عشق تو آساں بھی نہیں
باعث درد نہیں، درد کا درماں بھی نہیں
میں ادھر کا بھی نہیں، اور اُدھر کا نہ رہا
تجھ سے راضی بھی نہیں اور میں نالاں بھی نہیں
تُو نہیں ہے، تو بھی احساس ترا رہتا ہے
وصل لگتا بھی نہیں اور یہ ہجراں بھی نہیں
کیا مصیبت ہے، ہوا جب سے محبت کا اسیر
اب تو آزاد نہیں ہوں، پس زنداں بھی نہیں
اُس کے اظہار سے پہلے کوٗی امکان تو تھا
اب جو انکار کیا ہے تو وہ امکاں بھی نہیں
کیا میں سمجھوں کہ عبارت بھی شکستہ اظہر
اُس نے لکھا ہے مگر خط پہ تو عنواں بھی نہیں
 

عین عین

لائبریرین
اُس کے اظہار سے پہلے کوی امکان تو تھا
اب جو انکار کیا ہے تو وہ امکاں بھی نہیں

خوب صورت
 
ایک تبدیلی اور​

اتنا مشکل بھی نہیں عشق تو آساں بھی نہیں
باعث درد نہیں، درد کا درماں بھی نہیں
میں ادھر کا بھی نہیں، اور اُدھر کا نہ رہا
تجھ سے راضی بھی نہیں اور میں نالاں بھی نہیں
تُو نہیں ہے، تو بھی احساس ترا رہتا ہے
وصل لگتا بھی نہیں اور یہ ہجراں بھی نہیں
کیا مصیبت ہے، ہوا جب سے محبت کا اسیر
اب تو آزاد نہیں ہوں، پس زنداں بھی نہیں
اُس کے اظہار سے پہلے کوٗی امکان تو تھا
اب جو انکار کیا ہے تو وہ امکاں بھی نہیں
خط ملا ہے پہ عبارت ہے شکستہ اظہر
نام لکھا بھی نہیں اور کہ عنواں بھی نہیں
 
بلکہ مقطع کچھ یوں ہو تو؟؟

اتنا مشکل بھی نہیں عشق تو آساں بھی نہیں
باعث درد نہیں، درد کا درماں بھی نہیں

میں ادھر کا بھی نہیں، اور اُدھر کا نہ رہا
تجھ سے راضی بھی نہیں اور میں نالاں بھی نہیں

تُو نہیں ہے، تو بھی احساس ترا رہتا ہے
وصل لگتا بھی نہیں اور یہ ہجراں بھی نہیں

کیا مصیبت ہے، ہوا جب سے محبت کا اسیر
اب تو آزاد نہیں ہوں، پس زنداں بھی نہیں

اُس کے اظہار سے پہلے کوئی امکان تو تھا
اب جو انکار کیا ہے تو وہ امکاں بھی نہیں

خط ملا ہے پہ عبارت ہے شکستہ اظہر
نام عنقا ہے، اور اُس پر کوئی عنواں بھی نہیں
 

غ۔ن۔غ

محفلین

اتنا مشکل بھی نہیں عشق تو آساں بھی نہیں
باعث درد نہیں، درد کا درماں بھی نہیں
واہ بہت خوب جناب۔ ۔۔
داد پیشِ خدمت ہے
 

الف عین

لائبریرین
اتنا مشکل بھی نہیں عشق تو آساں بھی نہیں
باعث درد نہیں، درد کا درماں بھی نہیں
//دوسرے مصرع میں ’باعثِ غم بھی‘ کر دو بجائے درد‘ کے۔

میں ادھر کا بھی نہیں، اور اُدھر کا نہ رہا
تجھ سے راضی بھی نہیں اور میں نالاں بھی نہیں
//پہلے مصرع میں محاورہ غلط ہے۔ یوں کہا جائے
میں ادھر کا بھی نہیں، اور نہ اُدھر کا ہی رہا

تُو نہیں ہے، تو بھی احساس ترا رہتا ہے
وصل لگتا بھی نہیں اور یہ ہجراں بھی نہیں
// اس کو یوں کیا جائے تو
تُو نہیں ہے مگر احساس ترا رہتا ہے
وصل بھی لگتا نہیں اور یہ ہجراں بھی نہیں

کیا مصیبت ہے، ہوا جب سے محبت کا اسیر
اب تو آزاد نہیں ہوں، پس زنداں بھی نہیں
//درست

اُس کے اظہار سے پہلے کوٗی امکان تو تھا
اب جو انکار کیا ہے تو وہ امکاں بھی نہیں
//درست

خط ملا ہے پہ عبارت ہے شکستہ اظہر
نام عنقا ہے، اور اُس پر کوٗی عنواں بھی نہیں
//عبارت شکستہ ہو تو یہ بھی تو ممکن ہے کہ نام لکھا ہو اور پڑھا نہ جاتا ہو۔ اس کو پھر کہو۔
 
Top