ایک تازہ غزل برائے اصلاح، تبصرہ اور تنقید کے ،'' ادائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں''


ادائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں

بلائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں


قریب آ کر، مرے چہرے پہ چھا کر

گھٹائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


ریاضت دیکھ آخر رنگ لائی

وفائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


سمٹ کر ہو نہ ہم متروک جائیں

قبائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


فقط زنداں کی ہے یہ مہربانی

ہوائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


جبیں، سجدے سے اب اُٹھنا نہیں ہے

دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


نہیں دعویٰ خدا سے گُفتگو کا

عطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


سُدھر یہ کیوں نہیں جاتا ہے اظہر

خطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کچھ ہماری گزارشات دیکھئے، شاید غورکے قابل ہوں:
مطلع سہل ممتنع کہا جائے گا، لیکن محض اداؤں اور بلاؤں کا گفتگو فرمانا کوئی قابل قدر بات نہیں لگتی۔۔ کیا گفتگو ہورہی ہے، یہ معلوم نہیں۔۔۔ اداؤں کے ساتھ بلائیں کیوں آئیں ؟ ، وہ ادائیں بلاؤں کی تھیں یا کسی اور کی؟ شعر کچھ نہیں بتاتا۔۔۔ اسی لیے اس قسم کی طویل ردیف کی غزلوں کو مشکل کہاجاتا ہے کیونکہ ان کو نبھانا مشکل ہے۔۔ مجموعی طور پر غزل کا تاثر کچھ یوں ہے کہ اشعار ادھورے ادھورے سے لگتے ہیں، ۔ردیف نہیں نبھائی جاسکی۔۔۔ اشارہ کرکے چھوڑ دینے والی دو لائنوں کو بھی شعر ہی کہا جاتا ہے لیکن وہ اشارہ اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ زبان سے واقفیت رکھنے والا ایک بچہ بھی اس کو بخوبی سمجھ لیتا ہے۔اس غزل کے ایک ایک شعر کو باقی اشعار سے الگ کرکے دیکھئے ، کیا کوئی شعر ایسا ہے جسے میں اپنی گفتگو کے دوران کسی کو چھیڑنے، کوئی حوالہ دینے یا اپنی بات کو مزید وضاحت سے بیان کرنے کے لیے استعمال کرسکوں؟ یہ بہت اہم سوال ہے ۔۔۔ آج کل اس کا جواب میں اپنے پورے مجموعہ کلام کو دیکھتے ہوئے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن ابھی تک افسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔۔
 

شیرازخان

محفلین
کچھ ہماری گزارشات دیکھئے، شاید غورکے قابل ہوں:
مطلع سہل ممتنع کہا جائے گا، لیکن محض اداؤں اور بلاؤں کا گفتگو فرمانا کوئی قابل قدر بات نہیں لگتی۔۔ کیا گفتگو ہورہی ہے، یہ معلوم نہیں۔۔۔ اداؤں کے ساتھ بلائیں کیوں آئیں ؟ ، وہ ادائیں بلاؤں کی تھیں یا کسی اور کی؟ شعر کچھ نہیں بتاتا۔۔۔ اسی لیے اس قسم کی طویل ردیف کی غزلوں کو مشکل کہاجاتا ہے کیونکہ ان کو نبھانا مشکل ہے۔۔ مجموعی طور پر غزل کا تاثر کچھ یوں ہے کہ اشعار ادھورے ادھورے سے لگتے ہیں، ۔ردیف نہیں نبھائی جاسکی۔۔۔ اشارہ کرکے چھوڑ دینے والی دو لائنوں کو بھی شعر ہی کہا جاتا ہے لیکن وہ اشارہ اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ زبان سے واقفیت رکھنے والا ایک بچہ بھی اس کو بخوبی سمجھ لیتا ہے۔اس غزل کے ایک ایک شعر کو باقی اشعار سے الگ کرکے دیکھئے ، کیا کوئی شعر ایسا ہے جسے میں اپنی گفتگو کے دوران کسی کو چھیڑنے، کوئی حوالہ دینے یا اپنی بات کو مزید وضاحت سے بیان کرنے کے لیے استعمال کرسکوں؟ یہ بہت اہم سوال ہے ۔۔۔ آج کل اس کا جواب میں اپنے پورے مجموعہ کلام کو دیکھتے ہوئے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن ابھی تک افسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔۔
جناب شاہد شاہنواز صاحب عروٍضی معاملات کا تو مجھے علم نہیں لیکن بحثیت قاری جو اآخری مطالبہ ہوا ہے ایسے شعر تو غزل میں اکے دکے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔۔ ویسے غزل لطف و شاہستگی کا بھی نام ہے اور معنوی لحاظ سے بھی اس غزل کے چند اشعار قابل تعریف ہیں ۔۔۔۔۔
جبیں، سجدے سے اب اُٹھنا نہیں ہے

دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
سُدھر یہ کیوں نہیں جاتا ہے اظہر

خطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
نہیں دعویٰ خدا سے گُفتگو کا

عطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
اآپ کیا کہتے ہیں؟؟؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے پوری غزل پڑھنے کے بعد ہی لکھا تھا۔۔ گفتگو کرنے لگی ہے کی جو ردیف ہے، وہی نہیں بھائی ۔۔ اصل میں ہم غزل کے مجموعی تاثر کو بہت دیکھتے ہیں ، ایک ایک شعر الگ کرکے بھی دیکھا جاتا ہے۔۔ اتنا ٹٹولنے کے بعد بہت کم چیزیں ہوتی ہیں جو اچھی لگیں ۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو یہ غزل پسند آئی۔ بہر حال
ادائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں
بلائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں
//مبہم مگر درست

قریب آ کر، مرے چہرے پہ چھا کر
گھٹائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//واہ واہ، درست

ریاضت دیکھ آخر رنگ لائی
وفائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//ریاضت کی بجائے کچھ دوسرا لفظ لاؤ۔

سمٹ کر ہو نہ ہم متروک جائیں
قبائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//سمجھ میں نہیں آ سکا یہ شعر

فقط زنداں کی ہے یہ مہربانی
ہوائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//لے مصرع میں روانی کی کمی ہے۔ اسی بات کو یوں کہیں تو
کرم زنداں کا ہم پر اس قدر ہے

جبیں، سجدے سے اب اُٹھنا نہیں ہے
دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//یہاں بھی گرہ اچھی نہیں
جبیں،سجدے سے اب اُٹھتی نہیں ہے
کہیں تو؟

نہیں دعویٰ خدا سے گُفتگو کا
عطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


سُدھر یہ کیوں نہیں جاتا ہے اظہر
خطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//درست، ویسے پہلا مصرع بہتر ہو سکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو یہ غزل پسند آئی۔ بہر حال
ادائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں
بلائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں
//مبہم مگر درست

قریب آ کر، مرے چہرے پہ چھا کر
گھٹائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//واہ واہ، درست

ریاضت دیکھ آخر رنگ لائی
وفائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//ریاضت کی بجائے کچھ دوسرا لفظ لاؤ۔

سمٹ کر ہو نہ ہم متروک جائیں
قبائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//سمجھ میں نہیں آ سکا یہ شعر

فقط زنداں کی ہے یہ مہربانی
ہوائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//لے مصرع میں روانی کی کمی ہے۔ اسی بات کو یوں کہیں تو
کرم زنداں کا ہم پر اس قدر ہے

جبیں، سجدے سے اب اُٹھنا نہیں ہے
دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//یہاں بھی گرہ اچھی نہیں
جبیں،سجدے سے اب اُٹھتی نہیں ہے
کہیں تو؟

نہیں دعویٰ خدا سے گُفتگو کا
عطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


سُدھر یہ کیوں نہیں جاتا ہے اظہر
خطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//درست، ویسے پہلا مصرع بہتر ہو سکتا ہے۔
 
کچھ ہماری گزارشات دیکھئے، شاید غورکے قابل ہوں:
مطلع سہل ممتنع کہا جائے گا، لیکن محض اداؤں اور بلاؤں کا گفتگو فرمانا کوئی قابل قدر بات نہیں لگتی۔۔ کیا گفتگو ہورہی ہے، یہ معلوم نہیں۔۔۔ اداؤں کے ساتھ بلائیں کیوں آئیں ؟ ، وہ ادائیں بلاؤں کی تھیں یا کسی اور کی؟ شعر کچھ نہیں بتاتا۔۔۔ اسی لیے اس قسم کی طویل ردیف کی غزلوں کو مشکل کہاجاتا ہے کیونکہ ان کو نبھانا مشکل ہے۔۔ مجموعی طور پر غزل کا تاثر کچھ یوں ہے کہ اشعار ادھورے ادھورے سے لگتے ہیں، ۔ردیف نہیں نبھائی جاسکی۔۔۔ اشارہ کرکے چھوڑ دینے والی دو لائنوں کو بھی شعر ہی کہا جاتا ہے لیکن وہ اشارہ اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ زبان سے واقفیت رکھنے والا ایک بچہ بھی اس کو بخوبی سمجھ لیتا ہے۔اس غزل کے ایک ایک شعر کو باقی اشعار سے الگ کرکے دیکھئے ، کیا کوئی شعر ایسا ہے جسے میں اپنی گفتگو کے دوران کسی کو چھیڑنے، کوئی حوالہ دینے یا اپنی بات کو مزید وضاحت سے بیان کرنے کے لیے استعمال کرسکوں؟ یہ بہت اہم سوال ہے ۔۔۔ آج کل اس کا جواب میں اپنے پورے مجموعہ کلام کو دیکھتے ہوئے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن ابھی تک افسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔۔
محترم جناب شاہنواز صاحب،
ادائیں جتنی گُفتگو کرتی ہیں شائد ہی زبان اُن کا اظہار کر پاتی ہو، اور ادائیں بلا کی طرح چمٹ کر اپنی بات منوا ہی لیتی ہیں، تھا تو اشارہ ہی اور وہ بھی واضح
خیر آپ کے معیار پر غزل پوری نہ اُتر پائی اس کا افسوس ہے۔ کوشش کرتا ہوں انشا اللہ مزید بہتری کی
 
مجھے تو یہ غزل پسند آئی۔ بہر حال
ادائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں
بلائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں
//مبہم مگر درست

قریب آ کر، مرے چہرے پہ چھا کر
گھٹائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//واہ واہ، درست

ریاضت دیکھ آخر رنگ لائی
وفائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//ریاضت کی بجائے کچھ دوسرا لفظ لاؤ۔
جی بہت بہتر اُستاد محترم، یوں کہا جائے تو کیسا رہے گا؟
محبت رنگ لائے گی کبھی تو
وفائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں


سمٹ کر ہو نہ ہم متروک جائیں
قبائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//سمجھ میں نہیں آ سکا یہ شعر
یہاں یہ کہنا مطلوب تھا کہ قبائیں سمٹتے سمٹتے بہت مختصر ہوتی جا رہی ہیں کہیں متروک ہی نہ ہو جائیں گویا انسان پھر سے ننگے پن کی جانب بڑھ رہا ہے، یوں کہا جائے تو کیا واضح ہوتا ہے؟
سمٹ کر مختصر کیوں ہو گئیں ہم
قبائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں


فقط زنداں کی ہے یہ مہربانی
ہوائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//لے مصرع میں روانی کی کمی ہے۔ اسی بات کو یوں کہیں تو
کرم زنداں کا ہم پر اس قدر ہے
جی بہت بہتر ہے


جبیں، سجدے سے اب اُٹھنا نہیں ہے
دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//یہاں بھی گرہ اچھی نہیں
جبیں،سجدے سے اب اُٹھتی نہیں ہے
کہیں تو؟
دراصل جبیں کو یہ کہنا مقصود تھا کہ ، اب سجدے سے نہ اُٹھنا کیونکہ دعائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں ، یعنی امر دینا مقصود ہے یہاں ، اگر جبیں سجدے سے اب اُٹھتی نہیں ہے کہا جائے تو وہ مقصد نہیں پورا ہو گا، میرے خیال سے اُستاد محترم کہ ایسا عموماٰٰ مقبولیت کے بعد ہوتا ہے۔ اب جیسا آپ کا حکم ہو

نہیں دعویٰ خدا سے گُفتگو کا
عطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


سُدھر یہ کیوں نہیں جاتا ہے اظہر
خطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
//درست، ویسے پہلا مصرع بہتر ہو سکتا ہے
جی بہتر، یوں کہا جائے تو ؟
سُدھر تُو کیوں نہیں جاتا ہے اظہر
خطائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں


گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی


ادائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں
بلائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں

قریب آ کر، مرے چہرے پہ چھا کر
گھٹائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں

محبت رنگ لائے گی کبھی تو
وفائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں

سمٹ کر مختصرکیوں ہو گئیں ہم
قبائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں

کرم زنداں کا ہم پر اس قدر ہے

ہوائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں

جبیں، سجدے سے اب اُٹھنا نہیں ہے
دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں

نہیں دعویٰ خدا سے گُفتگو کا
عطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں

سُدھر تُو کیوں نہیں جاتا ہے اظہر
خطائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محبت رنگ لائے گی کبھی تو
وفائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں
÷÷ درست ہو گیا ہے۔

سمٹ کر مختصرکیوں ہو گئیں ہم
قبائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں
تمہارا پچھلا شعر سمجھ میں نہیں آیا تھا، متروک لفظ کی وجہ سے ، اسی مصرع کو رکھ کر ’معدوم‘ لفظ رکھو تو بہتر ہو، ’سمٹ کر مختصر ‘ کہنے سے وہ مطلب ادا نہیں ہوتا۔ ویسے یہ ۔صورت دیکھو
سمٹ کر ہم کہیں غائب نہ ہو جائیں

جبیں، سجدے سے اب اُٹھنا نہیں ہے
دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
یہ تمہارا پرانا شعر ہے، جس کا مطلب مجھ پر واضح نہیں ہو سکا تھا۔ امر کے صیغے کا خیال نہیں آیا تھا۔ اسی کو کچگ تبدیل کر سکتے ہو، جیسے
جبیں سجدے سے اب یوں اٹھ نہ جانا
یا
جبیں! سجدے میں ہی مشغول رہ تو
اس قسم کا کچھ اور سوچو۔ نیا شعر ویسے ہی درست ہے، اس کو بھی شامل کر لو۔
 
محبت رنگ لائے گی کبھی تو
وفائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں
÷÷ درست ہو گیا ہے۔

سمٹ کر مختصرکیوں ہو گئیں ہم
قبائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں
تمہارا پچھلا شعر سمجھ میں نہیں آیا تھا، متروک لفظ کی وجہ سے ، اسی مصرع کو رکھ کر ’معدوم‘ لفظ رکھو تو بہتر ہو، ’سمٹ کر مختصر ‘ کہنے سے وہ مطلب ادا نہیں ہوتا۔ ویسے یہ ۔صورت دیکھو
سمٹ کر ہم کہیں غائب نہ ہو جائیں
جی یوں دیکھ لیجئے
سمٹتے ہو گئیں معدوم دیکھو


جبیں، سجدے سے اب اُٹھنا نہیں ہے
دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں
یہ تمہارا پرانا شعر ہے، جس کا مطلب مجھ پر واضح نہیں ہو سکا تھا۔ امر کے صیغے کا خیال نہیں آیا تھا۔ اسی کو کچگ تبدیل کر سکتے ہو، جیسے
جبیں سجدے سے اب یوں اٹھ نہ جانا
یا
جبیں! سجدے میں ہی مشغول رہ تو
اس قسم کا کچھ اور سوچو۔ نیا شعر ویسے ہی درست ہے، اس کو بھی شامل کر لو۔
جی بہت بہتر اُستاد محترم
اگر یوں کہا جائے تو کیسا رہے گا
جبیں سجدے سے یوں ہی اُٹھ نہ جانا
دعائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں


گویا اب کچھ ایسا ہے




ادائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں
بلائیں، گفتگو کرنے لگی ہیں

قریب آ کر، مرے چہرے پہ چھا کر
گھٹائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں

محبت رنگ لائے گی کبھی تو
وفائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں

سمٹتے ہو گئیں معدوم دیکھو
قبائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں

کرم زنداں کا ہم پر اس قدر ہے
ہوائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں

جبیں، سجدے سے یوں ہی اُٹھ نہ جانا
دعائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں


نہیں دعویٰ خدا سے گُفتگو کا
عطائیں ، گفتگو کرنے لگی ہیں

سُدھر تُو کیوں نہیں جاتا ہے اظہر
خطائیں گُفتگو کرنے لگی ہیں​
 
آخری تدوین:
Top