ایک تازہ غزل برائے اصلاح

ندیم مراد

محفلین

غزل
میں سو رہا تھا نیند میں اور دیکھتا تھا خواب
اور خواب میں بھی خواب تھا وہ جو تھا لا جواب
اک شعر کہہ رہا تھا جو لکھا تھا شعر میں
اور جس کتاب میں تھا ،تھی اس میں بھی اک کتاب
قطرے میں ایک قطرہ تھا ، قطرہ تھا بے کنار
اور وہ سمندروں کے سفر کا تھا کُل نصاب
دیکھے ہیں ہم نے دریا جو بہتے ہیں دریا میں
دیکھوں سمندروں میں سمندر، ہے اضطراب
یہ بات رات کی ہے کہ جس میں تھی ایک رات
بس ماہتاب ہی نہ تھا اس میں تھا آفتاب
موجوں میں جس کی موجیں پٹختی ہیں اپنا سر
ایسے سمندروں کو مرے خواب انتساب
لاشوں میں کوئی لاش نہ زندوں میں زندگی
کیسے مرے لہو سے کوئی آئےانقلاب
بس آسمان میں ہی نہیں آسماں بہت
دنیا میں دیکھیں دنیائیں لیکن تھا سب حباب
راتوں کو کالا کر دیا پڑھ پڑھ کے شاعری
رکھی ہے طاق نسیاں پہ اللہ کی کتاب
لے ڈوبی تجھ کو تیری یہ دیوانگی ندیؔم
بیکار ٹھہرے سارے تمہارے خیال و خواب​
 

ندیم مراد

محفلین
ارے کوئی کچھ بولو
تعریف نہ سہی کوئی تنقید ہی سہی
پیغام نہ سہی کوئی دشنام ہی سہی
اب تو گھبرا کے تغافل سے تمنا ہے ستم کی
حالت کوئی دیکھے میرے مظلوم الم کی
 

الف عین

لائبریرین
خوب کرتب دکھائے ہیں!!!
میں سو رہا تھا نیند میں اور دیکھتا تھا خواب
اور خواب میں بھی خواب تھا وہ جو تھا لا جواب
÷÷معذرت کہ مجھے اس میں الفاظ کے کھیل سے زیادہ کچھ نہیں لگا۔

اک شعر کہہ رہا تھا جو لکھا تھا شعر میں
اور جس کتاب میں تھا ،تھی اس میں بھی اک کتاب
÷÷شعر میں شعر اور کتاب میں کتاب؟؟؟

قطرے میں ایک قطرہ تھا ، قطرہ تھا بے کنار
اور وہ سمندروں کے سفر کا تھا کُل نصاب
÷÷ایضاً

دیکھے ہیں ہم نے دریا جو بہتے ہیں دریا میں
دیکھوں سمندروں میں سمندر، ہے اضطراب
پہا مصرع درست مانا جا سکتا ہے

یہ بات رات کی ہے کہ جس میں تھی ایک رات
بس ماہتاب ہی نہ تھا اس میں تھا آفتاب
÷÷رات میں رات؟؟؟

موجوں میں جس کی موجیں پٹختی ہیں اپنا سر
ایسے سمندروں کو مرے خواب انتساب
لاشوں میں کوئی لاش نہ زندوں میں زندگی
کیسے مرے لہو سے کوئی آئےانقلاب
۔۔ایضاً

بس آسمان میں ہی نہیں آسماں بہت
دنیا میں دیکھیں دنیائیں لیکن تھا سب حباب
÷÷’دنیائیں‘ تو درست وزن میں بھی نہیں آ رہا ہے۔

راتوں کو کالا کر دیا پڑھ پڑھ کے شاعری
رکھی ہے طاق نسیاں پہ اللہ کی کتاب
÷÷درست، مگر راتوں کو کالا نہیں کیا جاتا، یوں ہی گزار دیں‘ کیا جا سکتا ہے

لے ڈوبی تجھ کو تیری یہ دیوانگی ندیؔم
بیکار ٹھہرے سارے تمہارے خیال و خواب
÷÷شتر گربہ دوسرے مصرع میں بھی ’تو‘ ہونا تھا
 
Top