ایک تازہ غزل '' خسُ خاشاک جہاں پر تھے وہیں پھول گیا مدتوں یاد رہا،'' اصلاح کی درخواست

خسُ خاشاک جہاں پر تھے وہیں پھول گیا
مدتوں یاد رہا، پھر وہ مجھے بھول گیا

گرد بڑھتی ہی رہی، جس کا نہ ادراک ہوا
وقت جزبات پہ چھڑکاتا ہوا دھول گیا

ایک ہی دن کے ہوئے یار وہ بیمار بہت
سب ضروری جو سمجھتے تھے وہ معمول گیا

قد برابر جو پڑی بجلی تو پھر چین کہاں
جس پہ نازاں وہ رہے، سارا وہیں طول گیا

جو کمایا تھا بڑی عمر کی سب پونجی تھی
سود سارا بھی گیا اصل بھی مشمول گیا

قوم ہاری تھی وہیں جنگ، یہ اظہر نے کہا
دشمنوں کے جو جلو اپنا ہی مسئول گیا​
 

الف عین

لائبریرین
اشعار تو سارے بحر میں ہیں، کہیں تلفظ کی غلطی بھی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن تقریبا سبھی اشعار کے معنی سمجھ میں نہیں آ سکے!!
 
خسُ خاشاک جہاں پر تھے وہیں پھول گیا
مدتوں یاد رہا، پھر وہ مجھے بھول گیا
کوئی کتنا بھی عزیز ہو وہ ایک مدت تک تو ہمیں یاد رہتا ہے، مگر وقت بڑے سے بڑا زخم جیسے کہ بھر دیتا ہے ویسا ہی لوگ آہستہ آہستہ بھول جاتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جہاں جھاڑ جھنکار پڑے رہتے، پھول بھی وہیں چلے جاتے ایک خاص مدت کے بعد


گرد بڑھتی ہی رہی، جس کا نہ ادراک ہوا
وقت جزبات پہ چھڑکاتا ہوا دھول گیا
انسانی جذبات وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں اور اس بات کا پتہ بھی نہیں چلتا کیونکہ یہ تبدیلی بہت آہستہ آہستہ ہوتی


ایک ہی دن کے ہوئے یار وہ بیمار بہت
سب ضروری جو سمجھتے تھے وہ معمول گیا
کسی بھی انسان سے بات کرو تو وہ خود کو انتہائی اہم تصور کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ جو کام وہ کر رہا ہے وہ بہت ضروری ہے، اور شائد اُس کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا، پر ایک دن کا معمولی مرض اُسے اتنا لاچار کرتا کہ وہ سارے معمول اُس سے چھن جاتے



قد برابر جو پڑی بجلی تو پھر چین کہاں
جس پہ نازاں وہ رہے، سارا وہیں طول گیا
بہت لمبا چوڑا ہوتا ہے انسان ، بڑی طاقت رکھتا ہے، اور کسی شے کو خاطر میں نہیں لاتا، پر ایک بد دعا اُسے ڈھیر کر دیتی ہے



جو کمایا تھا بڑی عمر کی سب پونجی تھی
سود سارا بھی کہیں اصل کے مشمول گیا
انسان ساری زنگی کمائی کرتا ہے پر ایک وقت آتا کہ سب کمائی اور اُس کا سود مٹی میں مل جاتا ہے



قوم ہاری تھی وہیں جنگ، یہ اظہر نے کہا
دشمنوں کے جو جلو اپنا ہی مسئول گیا
وہ قوم جنگیں کیسے جیت سکتی ہے، جس کے کمانڈر دشمنوں سے ملنے جاتے ہوں


محترم اُستاد،
میں نے کوشش تو کی ہے کہ وضاحت کر سکوں، پھر بھی کوئی کمی ہو تو معزرت قبول کیجیے گا
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
نہیں عزیزم، تمہاری وضاحت درست سہی، لیکن بغیر تمہارے سمجھائے یہ مفہوم نکالنا نا ممکن ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ تم نظمیں کہا کرو، تاکہ جو خیالات ذہن میں آئیں، ان کو پھیلا کر مکمل کر سکو، غزل اختصار کا نام ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ تفہیم بھی مکمل ہو تو بات بنتی ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
محترم الف عین سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔ اگر شاعر کو اپنا کلام سمجھا نا بھی پڑے تو پھر وہ کلام ہی کیا ؟ شعر وہی جو سنتے ہی دل میں اتر جائیں۔ غزل قافیہ پیمائی کا نام نہیں۔ البتہ نظم میں اس قسم کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔
 
Top