سعید سعدی
محفلین
عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے
یہ طوفان ڈبو سکتا ہے
دھندلا سکتی ہے منزل بھی
رستہ بھی تو کھو سکتا ہے
یادوں کی اک چادر اوڑھے
کوئی کیسے سو سکتا ہے
آج ملا تو پوچھ رہا تھا
کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے
پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے
وہ بھی خار چبھو سکتا ہے
اس دل کی تم وسعت دیکھو
کیا کیا درد سمو سکتا ہے
آنسو ایک ندامت والا
ہر لغزش کو دھو سکتا ہے
اس نے کن ُ کہنا ہے سعدی
سوچو کیا کیا ہو سکتا ہے
یہ طوفان ڈبو سکتا ہے
دھندلا سکتی ہے منزل بھی
رستہ بھی تو کھو سکتا ہے
یادوں کی اک چادر اوڑھے
کوئی کیسے سو سکتا ہے
آج ملا تو پوچھ رہا تھا
کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے
پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے
وہ بھی خار چبھو سکتا ہے
اس دل کی تم وسعت دیکھو
کیا کیا درد سمو سکتا ہے
آنسو ایک ندامت والا
ہر لغزش کو دھو سکتا ہے
اس نے کن ُ کہنا ہے سعدی
سوچو کیا کیا ہو سکتا ہے