نیلم
محفلین
آج دفتر جاتے ہوئے
ایک بچے کو دیکھا
کہ تختی کو بلا بنائے کھڑا تھا
مجھے دیکھتےہی وہ بولا
چلو گیند پھینکو
شہنشاہ ِمعصومیت کے یہ احکام جب میں بجا
لا چکا
تو یکایک میں بچپن کے ماحول میں تھا
میرے ہاتھ میں میری تختی تھی
اور سر پہ بستہ تھا
اور میری صحت بلا کی تھی
ابھی وقت باقی تھا
اور میں خراماں خراماں چلا جا رہا تھا
میرے مدرسے اور مجھ میں فقط ایک تالاب کا
فاصلہ تھا
یہ تالاب کل تک تو بارش کے پانی سے لبریز تھا
آج لیکن نہ پنہاریاں گاگریں بھر رہی تھیں
نہ مرغابیاں تیرتی تھی
فقط ایک شیشہ سا مشرق سے مغرب تلک جگمگاتا تھا
اور ایک دھندلائے سورج کو کتنی ہی موہوم قاشوں
میں بانٹے زمیں پر بچھا تھا
میں کچھ سہما سہما سا کچھ دم بخود سا کھڑا تھا
کہ استاد جی مدرسے جاتے ہوئے مرے پاس ٹھہرے
بڑے پیار سے مجھ سے کہنے لگے
تم نے تالاب کا حال دیکھا؟
گئی رات شدت کی سردی پڑی تھی
سو تالاب کی سطع منجمد ہو کے تالاب کی
ساری صورت بدل دی
ابھی دھوپ تیز ہو گی
تو تالاب کی سطع چٹخے گی
پھر برف کی چادر سی یہاں سے وہاں، تیرتی
اور پگھتی ہوئی
اخرکار پانی میں گھل جائے گی
اور تالاب نیچے سے اوپر ابھر اآئے گا !
مجھ کو پانی پہ رحم آگیا
ٹھنڈ سے کانپتے کانپتے اس کا کیا حال ہو گا
اسے برف کے قید خانے سے کیسے رہائی دلائوں
اسے دھوپ میں لا کے کیسے بٹھائوں
یکایک مجھے ہاتھ میں اپنی تختی نظر آگئی
میں نےیخ سطع پر کھنچ کر اس کو مارا
تو برف ایک دم ٹھیکری ٹھیکری ہو گئی
اور نیچے سے پانی نے ایک قہقہ مار کر مجھ سے آنکھیں ملائی
تو جیسے مجھے دوجہاں کی خوشی گھٹریوں گھٹریوں مل گئی!
اب میں دفتر جاتا ہوں
اور اپنی عینک لگی آنکھ سے دیکھتا ہوں
کہ چاروں طرف سطع پر برف چھائی ہوئی ہے
مگر میرےہاتھوں میں تختی نہیں ہے
اُسے میرا علم، اور عمر، اور کتنے کڑے تجربے چھین
کر لے گئے ہیں
میں محبوس پانی کی حالت پہ کڑھتا ہوں
اور صرف کڑھتا ہوں
اور صرف کڑھنے سے سورچ چمکتے نہیں
اور برفیں پگھلتی نہیں
آج دفتر جاتے ہوئے
ایک بچے کو دیکھا
کہ تختی کو بلا بنائے کھڑا تھا
مجھے دیکھتےہی وہ بولا
چلو گیند پھینکو
شہنشاہ ِمعصومیت کے یہ احکام جب میں بجا
لا چکا
تو یکایک میں بچپن کے ماحول میں تھا
میرے ہاتھ میں میری تختی تھی
اور سر پہ بستہ تھا
اور میری صحت بلا کی تھی
ابھی وقت باقی تھا
اور میں خراماں خراماں چلا جا رہا تھا
میرے مدرسے اور مجھ میں فقط ایک تالاب کا
فاصلہ تھا
یہ تالاب کل تک تو بارش کے پانی سے لبریز تھا
آج لیکن نہ پنہاریاں گاگریں بھر رہی تھیں
نہ مرغابیاں تیرتی تھی
فقط ایک شیشہ سا مشرق سے مغرب تلک جگمگاتا تھا
اور ایک دھندلائے سورج کو کتنی ہی موہوم قاشوں
میں بانٹے زمیں پر بچھا تھا
میں کچھ سہما سہما سا کچھ دم بخود سا کھڑا تھا
کہ استاد جی مدرسے جاتے ہوئے مرے پاس ٹھہرے
بڑے پیار سے مجھ سے کہنے لگے
تم نے تالاب کا حال دیکھا؟
گئی رات شدت کی سردی پڑی تھی
سو تالاب کی سطع منجمد ہو کے تالاب کی
ساری صورت بدل دی
ابھی دھوپ تیز ہو گی
تو تالاب کی سطع چٹخے گی
پھر برف کی چادر سی یہاں سے وہاں، تیرتی
اور پگھتی ہوئی
اخرکار پانی میں گھل جائے گی
اور تالاب نیچے سے اوپر ابھر اآئے گا !
مجھ کو پانی پہ رحم آگیا
ٹھنڈ سے کانپتے کانپتے اس کا کیا حال ہو گا
اسے برف کے قید خانے سے کیسے رہائی دلائوں
اسے دھوپ میں لا کے کیسے بٹھائوں
یکایک مجھے ہاتھ میں اپنی تختی نظر آگئی
میں نےیخ سطع پر کھنچ کر اس کو مارا
تو برف ایک دم ٹھیکری ٹھیکری ہو گئی
اور نیچے سے پانی نے ایک قہقہ مار کر مجھ سے آنکھیں ملائی
تو جیسے مجھے دوجہاں کی خوشی گھٹریوں گھٹریوں مل گئی!
اب میں دفتر جاتا ہوں
اور اپنی عینک لگی آنکھ سے دیکھتا ہوں
کہ چاروں طرف سطع پر برف چھائی ہوئی ہے
مگر میرےہاتھوں میں تختی نہیں ہے
اُسے میرا علم، اور عمر، اور کتنے کڑے تجربے چھین
کر لے گئے ہیں
میں محبوس پانی کی حالت پہ کڑھتا ہوں
اور صرف کڑھتا ہوں
اور صرف کڑھنے سے سورچ چمکتے نہیں
اور برفیں پگھلتی نہیں