تصویر واقعی پریشان کر دینے والی ہے۔ اس عمر میں بچوں کے ہاتھ میں قلم کتابیں ہونی چاہئیں اور جو مسقتبل کے معمار ہیں ان کو اس حال میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔
ہائے میں صدقے۔
قیصرانی، یہ تو کچھ بھی نہیں۔ دنیا میں ان معصوم بچوں پر تو اس سے بھی بڑے بڑے ظلم ہوتے ہیں۔
یہ اس وقت تو یہی سوچ رہا ہو گا کہ کب میں سیڑھیاں پار کر کے منزل تک پہنچوں گا۔
اس تصویر کو دیکھ کر ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے اور وہ ہے "انسانیت کی تذلیل"۔ اور کبھی شدید بے بسی کا احساس ہوتا ہے کہ میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں کے اپنے بچے ہوتے ہیں وہ شاید اس کو زیادہ محسوس کر سکتے ہیں۔
میں گزشتہ سال پاکستان گیا تھا تو لاہور میں ایک سگنل پر گاڑی روکی۔ وہاں ایک عجیب منظر دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ ایک چھوٹا سا بچہ اخبار بیچنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس بچے پر سختی کرنے والا اسی سے کچھ بڑی عمر کا لڑکا تھا۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ سارا ایموشنل بلیک میل تھا یا حقیقت تھی، لیکن جب بھی مجھے اس کا خیال آتا ہے، میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں اور اس کے بعد انتہائی تلخ جذبات اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔
یہ تو کچھ بھی نہیں۔ لاہور سے گجرات تک، ادھر سیالکوٹ تک اور ادھر فیصل آباد تک، گھریلو صنعت بہت زیادہ ہے۔ کبھی وہاں دیکھیئے کہ بچے کتنی عمر سے عملی زندگی میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ اس میں والدین کا بھی بہت قصور ہے کہ بچوں کو پڑھاتے نہیں اور دس سال سے بھی کم عمر بچوں کو کام سیکھنے پر لگا دیتے ہیں کہ چلو کچھ پیسے گھر میں آئیں گے۔