طارق شاہ
محفلین
ایک تضاد
میرا جی
کوہ سے زرّیں اذیت کے گذر جانے کے بعد
سرخ نغمہ شام کو اک پَل میں مرجانے کے بعد
ہاں، پس از فریاد و قلبِ دہر کی لرزش کے بعد
دن کی نم آلود، زرد و لالہ گُوں کاوش کے بعد
تیرگی کے داغ دل سے کس طرح دھوؤں گا میں
جاگتے ہی جاگتے پھر صبح تک روؤں گا میں
ہاں وہی میں دن کو جس کی آنکھ تھی اور آفتاب
ہاں وہی میں جس نے دیکھا دہر لبریزِ حیات
ذہن انسانی مِرا کہتا ہے کھا کر پیچ وتاب
دیکھ لے ! حُسنِ مناظر کو نہیں حاصل ثبات
قلب میخانہ کی ہائے و ہو کا عادی ہے مِرا
کچھ تعلق ہی نہیں مجھکو سکونِ سنگ سے
مجھکو خوش آتی نہیں ہے امن کی شب گوں فضا
روح کو تسکیں ملے گی ایک پیہم جنگ سے
میرا جی
---------------
( نیا دور کراچی)