حسان خان
لائبریرین
عیدِ گل ہو، اور ہجومِ ساقیانِ سیم ساق
ایسی اک گردش بھی ہاں اے گنبدِ فیروزہ طاق
یوں بساطِ عیش پر ہو چنگ و بربط کا خروش
لحن میں تبدیل ہو جائے فغانِ اشتیاق
اپنے اپنے طرز میں ہو، ہر شریکِ بادہ فرد
اپنے اپنے رنگ میں ہو ہر حریفِ کیف طاق
راگ کے شعلوں سے دنیا کو بنا دیں یوں رقیق
زاہدوں کے آہنیں سینوں میں گل جائے نفاق
جرأتِ رندانہ و جوشِ جنوں ہو، صدرِ بزم
رکھ دیا جائے خرد کا آئینہ بالائے طاق
جھوم کر چھا جائیں مستی کی گھٹائیں روح پر
کیسی دنیا بلکہ خود عقبیٰ کو بھی دے دیں طلاق
گائیں، ناچیں، لڑکھڑائیں، گنگنائیں، تال دیں
دلبرانِ شوخ و شیریں، مہ وشانِ چست و چاق
کاکلِ برہم سے مہکے سینۂ موجِ صبا
قلقلِ مینا سے گونجے گنبدِ نیلی رواق
خرمنِ حکمت جلا دے مطربوں کی برقِ نَے
صولتِ عظمت مٹا دے مے کشوں کا طمطراق
جیسے ہلکی نیند میں پانی برسنے کی صدا
یاد آئے وصل میں یوں گریۂ شامِ فراق
ایک شب کے واسطے جنت بنا لوں دہر کو
مہرباں ہو جائے کاش اے جوش، بخت و اتفاق
(جوش ملیح آبادی)