یوسف سلطان
محفلین
چل بھئی اٹھ، نماز کا وقت ہوگیا ہے۔
جا یار پڑھ کے آجا۔ اور میرے لیے بھی دعا کیجیو۔
یار، کچھ خدا کا خوف کر، کب سے تونے نماز چھوڑی ہوئی ہے، پچھلے ہفتے بھی تو نے کہا تھا کہ بس جمعے سے شروع کروں گا، آج پھر جمعرات ہوگئی۔ یار کچھ تو سوچ کہ اگر اسی حال میں موت ہوگئی تو اللہ کو کیا جواب دے گا؟
یار،ا بھی نہیں دل کر رہا نا ۔۔۔۔۔۔۔ تو پھرمنافقت کروں کیا؟
منافقت۔۔۔؟ کیا مطلب؟ یعنی اگر بندہ نماز کے لیے مسجد جائے اور اپنے مالک کے سامنے گردن جھکائے تو یہ منافقت ہوئی؟
تو اور کیا؟ جب بندے کا دل کسی کام پہ نہ چاہ رہا ہو اور وہ زبردسی کرے تو منافقت ہی ہوئی۔ اور منافقت کس کو کہتے ہیں؟
اچھا؟ تو یہ بتا کہ جس دن تیرا دل کام پہ جانے کو نہ کرے تو کیا کرتا ہے، چھٹی کر لیتا ہے؟
نہیں ، ڈیوٹی تو مجبوری ہوتی ہے ، جانا پڑتا ہے بھائی۔
اچھا یہ بتا کہ اگر تجھے بجلی کا بل ملے تو کیا تو خوشی سے دیتا ہے؟ اگر نہ دے تو کیا ہوگا؟
ابے بھائی کیا بات کررہا ہے، کون بجلی کا بل اپنی خوشی سے دیتا ہے؟ اگر بل نہ دوں تو بجلی کٹ جائے گی۔
آگے چل، یہ بتا کہ اپنے بچے کی اسکول فیس دیتے ہوئے تجھے خوشی ہوتی ہے یا تکلیف ہوتی ہے؟
خیر، رنج تو نہیں ہوتا لیکن خوشی بھی نہیں ہوتی۔
اس کا مطلب ہے کہ تجھے مجبورا وہ فیس دینا پڑتی ہے۔
کہ سکتے ہو۔
اچھا چل ایک اور زاویے سے دیکھ۔ تو ہر وقت اپنی ساس اور سالیوں کی برائیاں کرتا رہتا ہے جب تیری ساس مع تیری پانچ سالیوں کےتیرے گھر آجائے تو تو خوش ہوتا ہے یا پریشان ہوتا ہے؟
ظاہر ہے بھائی پریشانی تو ہوتی ہے کہ کچھ اچھا کھلانا پڑے گا، بجٹ اوپرنیچے ہوگا۔ لیکن میں اپنی پریشانی ظاہر نہیں کرتا، اور ان کے سامنے خوب لطیفے سنا سنا کر سب کو ہنساتا ہوں، خدمت بھی خوب کرتا ہوں، جبکہ اندر کا حال تو مجھے ہی پتہ ہوتا ہے۔
یہ ہوئی نا بات۔ اب بتا، کہ جب تو دل نہ چاہتے ہوئے بھی نوکری پہ جائے، دل نہ چاہتے ہوئے بجلی کا بل اور بیٹے کی اسکول فیس اداکرے، اندر سے پریشان مگر بظاہر ہنستے ہوئے سسرال کی خدمت کرے تو یہ منافقت نہیں لیکن جب اللہ کے سامنےدل نہ چاہتے ہوئے حاضری لگائے اور گردن جھکائے تو یہ منافقت ہوئی۔
ابے گھامڑ، یہ بتا کہ یہ الجبرا تو نے کہاں سے سیکھی ہے؟
چل اٹھ، نہیں تو۔۔۔
ابے یار چلتا ہوں، ایک تو تم مولوی لوگ بھی نا۔۔۔۔
(سبق آموز باتیں)
جا یار پڑھ کے آجا۔ اور میرے لیے بھی دعا کیجیو۔
یار، کچھ خدا کا خوف کر، کب سے تونے نماز چھوڑی ہوئی ہے، پچھلے ہفتے بھی تو نے کہا تھا کہ بس جمعے سے شروع کروں گا، آج پھر جمعرات ہوگئی۔ یار کچھ تو سوچ کہ اگر اسی حال میں موت ہوگئی تو اللہ کو کیا جواب دے گا؟
یار،ا بھی نہیں دل کر رہا نا ۔۔۔۔۔۔۔ تو پھرمنافقت کروں کیا؟
منافقت۔۔۔؟ کیا مطلب؟ یعنی اگر بندہ نماز کے لیے مسجد جائے اور اپنے مالک کے سامنے گردن جھکائے تو یہ منافقت ہوئی؟
تو اور کیا؟ جب بندے کا دل کسی کام پہ نہ چاہ رہا ہو اور وہ زبردسی کرے تو منافقت ہی ہوئی۔ اور منافقت کس کو کہتے ہیں؟
اچھا؟ تو یہ بتا کہ جس دن تیرا دل کام پہ جانے کو نہ کرے تو کیا کرتا ہے، چھٹی کر لیتا ہے؟
نہیں ، ڈیوٹی تو مجبوری ہوتی ہے ، جانا پڑتا ہے بھائی۔
اچھا یہ بتا کہ اگر تجھے بجلی کا بل ملے تو کیا تو خوشی سے دیتا ہے؟ اگر نہ دے تو کیا ہوگا؟
ابے بھائی کیا بات کررہا ہے، کون بجلی کا بل اپنی خوشی سے دیتا ہے؟ اگر بل نہ دوں تو بجلی کٹ جائے گی۔
آگے چل، یہ بتا کہ اپنے بچے کی اسکول فیس دیتے ہوئے تجھے خوشی ہوتی ہے یا تکلیف ہوتی ہے؟
خیر، رنج تو نہیں ہوتا لیکن خوشی بھی نہیں ہوتی۔
اس کا مطلب ہے کہ تجھے مجبورا وہ فیس دینا پڑتی ہے۔
کہ سکتے ہو۔
اچھا چل ایک اور زاویے سے دیکھ۔ تو ہر وقت اپنی ساس اور سالیوں کی برائیاں کرتا رہتا ہے جب تیری ساس مع تیری پانچ سالیوں کےتیرے گھر آجائے تو تو خوش ہوتا ہے یا پریشان ہوتا ہے؟
ظاہر ہے بھائی پریشانی تو ہوتی ہے کہ کچھ اچھا کھلانا پڑے گا، بجٹ اوپرنیچے ہوگا۔ لیکن میں اپنی پریشانی ظاہر نہیں کرتا، اور ان کے سامنے خوب لطیفے سنا سنا کر سب کو ہنساتا ہوں، خدمت بھی خوب کرتا ہوں، جبکہ اندر کا حال تو مجھے ہی پتہ ہوتا ہے۔
یہ ہوئی نا بات۔ اب بتا، کہ جب تو دل نہ چاہتے ہوئے بھی نوکری پہ جائے، دل نہ چاہتے ہوئے بجلی کا بل اور بیٹے کی اسکول فیس اداکرے، اندر سے پریشان مگر بظاہر ہنستے ہوئے سسرال کی خدمت کرے تو یہ منافقت نہیں لیکن جب اللہ کے سامنےدل نہ چاہتے ہوئے حاضری لگائے اور گردن جھکائے تو یہ منافقت ہوئی۔
ابے گھامڑ، یہ بتا کہ یہ الجبرا تو نے کہاں سے سیکھی ہے؟
چل اٹھ، نہیں تو۔۔۔
ابے یار چلتا ہوں، ایک تو تم مولوی لوگ بھی نا۔۔۔۔
(سبق آموز باتیں)