طالبان کے بارے میں یہ تو درست ہے کہ ان کی اکثریت پشتونوں کی تھی لیکن اسے قومیتوں کی لڑائی سمجھنا درست نہیں۔ افغانستان کے جنوبی علاقوں میں ویسے بھی پشتون اکثریت میں ہیں۔ لیکن طالبان نے کبھی قومیت کو فروغ نہیں دیا، بلکہ بہت سے تاجک اور ازبک بھی ان کی صفوں میں شامل رہے ہیں۔ویسے اگر طالبان کی بنیاد اور حقیقت کی طرف جائیں تو یہ طالبان بھی قومیت کی بنیاد پر ابھرے تھے افغانستان میں روس کے انخلا کے بعد خاص طور پر جب مرحوم ربانی صدر بنے تو یہ بات پشتونوں کو ناگوار گذری فارسی اور پشتونوں کا جھگڑا افغانستان میں کافی طویل عرصے سے چل رہا تھا حتی کہ خود روس سے جنگ کے زمانے میں ہر ہر قومیت کی الگ الگ جماعتیں تھیں روس نے ان کو متحد کردیا تھا لیکن اس اتحاد میں بھی جماعتی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ شناخت کو ان لوگوں نے برقرار رکھا مرحوم ربانی چونکہ تاجک اور فارسی زبان کے حامل تھے اور ملکی عہدوں پر اکثریت فارسی دان لوگوں کی تھی تو اس وقت طالبان اسلام کا نام لے کر کھڑے ہوئے۔
میری اس بات کی صداقت کسی ایسے آدمی سے کی جاسکتی ہے جو افغانستان کا باشندہ ہو تمام اہل افغانستان کے نزدیک یہ محض قومیتوں کی لڑائی تھی جو شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان چلتی رہی پھر چونکہ طالبان کو کافی سارے علاقوں میں کامیابی حاصل ہوئی تو پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی نے بھی طالبان کا بھرپور ساتھ دیا اور طالبان کی تشہیری مہم کے لیے پاکستان کے نامور علما کو بھی استعمال کیا گیا چونکہ معاملہ اسلام اور کفر کا بنایا جاچکا تھا اس لیے پاکستانی عوام بھی اس دھوکے میں آگئے کہ شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان لڑائی اسلام اور کفر کی جنگ ہے لیکن درحقیقت یہ قومیتوں کی لڑائی تھی اور پاکستان بھی جو طالبان کی پشت پناہی کی وہ امریکی اشاروں پر کی چونکہ امریکہ کو یہاں آنا تھا اس کے لیے طالبان کو اسلام کے نام پر خلافت کے نام کھڑا کرنا ضروری تھا تاکہ اسلام اور اسلامی احکامات اور جہاد پوری دنیا کے اندر خوب اچھی طرح بدنامی کا شکار ہوجائے۔
آج بہت سے لوگ جنہیں طالبان کے اس حقیقی پس منظر کا علم نہیں ہے وہ رائے تو جذبات کی رو میں بہہ کردے رہے ہیں لیکن اس حقیقت اور سچ سے یکسر لا علم ہیں کہ طالبان اصلا پشتونوں کی حکومت تھی ، شمالی اتحاد والے بھی مسلمان تھے احمد شاہ مسعود اور ربانی اس کی سربراہی کررہے تھے ادھر طالبان میں بھی سب مسلمان ، طالبان نے مزار اور ہزارہ قبائل رشید دوستم کو تو کسی نہ کسی طرح زیر کرلیا لیکن احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد ان کے قابو نہ آسکا اور طالبان کی پس پردہ اسلام کے نام پر القاعدہ اور اسامہ کو بھی دوبارہ مشق آزمائی کا موقع مل گیا۔
بھائی ہمیں ہمدردی صرف طالبان سے نہیں، آپ سے بھی ہے اور اپنے ہر مسلمان بھائی سے بھی ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ ہمارے ملک میں شریعت کا نفاذ کا ہونا چاہیے؟ آپ اوپر درج قرآن کی آیت کو ضرور دیکھ لیں ایک بار۔
اگر شمالی والے پکے اور کھرے مسلمان ہوتے تو اب امریکی غاصبوں کی صف میں کبھی نہ کھڑے ہوتے۔
طالبان میرے کوئی’’چاچے دے پتر‘‘ نہیں ہیں کہ میں ہمدردی جتا رہا ہوں، بلکہ اگر شمالی والے شریعت کا نفاذ اور اسلامی قوانین کے اطلاق پر راضی ہو جائیں تو وہ بھی سر آنکھوں پر۔۔۔۔ نہیں تو جوتے کی نوک پر۔ دو ایکن دو اور دو دونی چار والی بات ہے۔
اب پاکستانی طالبان کے پاس دو ہی عذر ہیں افواج سے لڑنے کے۔ ایک امریکہ کا ساتھ چھوڑا جائے اور دوسرا شریعت کا نفاذ کیا جائے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتلائیے کیا ہر پکا مسلمان اور سچا پاکستانی یہ نہیں چاہتا؟
اگر یہ دونوں چیزیں ہم سب چاہتے ہیں تو اب یہ مقتدر طبقہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں پر عمل کرکے طالبان کی مزاحمت کا جواز ہی ختم کر دیں۔ تاکہ کم سے کم مکمل عوامی حمایت تو حاصل ہو اور طالبان کا بلاوجہ دفاع کرنے والوں کا بھی منہ بند ہو جائے۔