عمران شناور
محفلین
ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی
شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی
اک نہ اک روز اُتر جائیں گے ہم موجوں میں
اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی
ہیں ابھی شہر میںناموس پہ مرنے والے
جینے والوں کے لیے اتنا سہارا ہی سہی
جب یہ طے ہے کہ ہمیں جانا ہے منزل کی طرف
ایک کوشش ہے اکارت تو دوبارہ ہی سہی
اک تغیر تو ضروری ہے کسی سمت بھی ہو
کچھ منافع جو نہیں ہے تو خسارا ہی سہی
ہم کو جلنا ہے بہر رنگ سحر ہونے تک
اک تماشا ہی سہی‘ ایک نظارا ہی سہی
سعد ہم ساتھ ہیں تیرے کسی مجبوری سے
کچھ نہیں ہے تو کوئی درد کا مارا ہی سہی
(سعداللہ شاہ(
شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی
اک نہ اک روز اُتر جائیں گے ہم موجوں میں
اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی
ہیں ابھی شہر میںناموس پہ مرنے والے
جینے والوں کے لیے اتنا سہارا ہی سہی
جب یہ طے ہے کہ ہمیں جانا ہے منزل کی طرف
ایک کوشش ہے اکارت تو دوبارہ ہی سہی
اک تغیر تو ضروری ہے کسی سمت بھی ہو
کچھ منافع جو نہیں ہے تو خسارا ہی سہی
ہم کو جلنا ہے بہر رنگ سحر ہونے تک
اک تماشا ہی سہی‘ ایک نظارا ہی سہی
سعد ہم ساتھ ہیں تیرے کسی مجبوری سے
کچھ نہیں ہے تو کوئی درد کا مارا ہی سہی
(سعداللہ شاہ(