ایک جگنو ہی سہی ایک ستارہ ہی سہی - (سعداللہ شاہ)

ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی
شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی

اک نہ اک روز اُتر جائیں گے ہم موجوں میں
اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی

ہیں ابھی شہر میں‌ناموس پہ مرنے والے
جینے والوں کے لیے اتنا سہارا ہی سہی

جب یہ طے ہے کہ ہمیں جانا ہے منزل کی طرف
ایک کوشش ہے اکارت تو دوبارہ ہی سہی

اک تغیر تو ضروری ہے کسی سمت بھی ہو
کچھ منافع جو نہیں ہے تو خسارا ہی سہی

ہم کو جلنا ہے بہر رنگ سحر ہونے تک
اک تماشا ہی سہی‘ ایک نظارا ہی سہی

سعد ہم ساتھ ہیں تیرے کسی مجبوری سے
کچھ نہیں ہے تو کوئی درد کا مارا ہی سہی
(سعداللہ شاہ(
 

الف عین

لائبریرین
عمران، سعد اللہ شاہ کا بہت سا کلام آپ نے پوسٹ کر دیا ہے۔۔ کیا اس کو ٹائپ کیا ہے یا تمہارے پاس ان پیج یا یونی کوڈ میں فائل مل گئی ہے۔ اگر فائل مل گئی ہو تو مجھ کو بھیج دیں۔ یا اگر سعد اللہ شاہ سے ربط ہو تو ان کی توجہ دلائیں ای بک کے سلسلے میں۔
 
عمران، سعد اللہ شاہ کا بہت سا کلام آپ نے پوسٹ کر دیا ہے۔۔ کیا اس کو ٹائپ کیا ہے یا تمہارے پاس ان پیج یا یونی کوڈ میں فائل مل گئی ہے۔ اگر فائل مل گئی ہو تو مجھ کو بھیج دیں۔ یا اگر سعد اللہ شاہ سے ربط ہو تو ان کی توجہ دلائیں ای بک کے سلسلے میں۔

شکریہ اعجاز عبید صاحب!
دراصل سعداللہ شاہ صاحب کا کلام مختلف ادوار (اردو محفل جوائن کرنے سے اب تک) میں پوسٹ کیا گیا تھا۔ اور یہ ٹائپ کیا گیا ہے۔ ویسے میرے پاس ان پیج میں بھی ان کا کلام موجود ہے لیکن مجھے یونی کوڈ بنانا نہیں آتا۔ اس لیے ٹائپ کر لیتا ہوں۔ اور سعداللہ شاہ صاحب سے تو بلاناغہ ملاقات ہوتی ہے۔ آپ کے لیے نئی کتابوں کی سافٹ کاپیز حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھ کو بھیج دیں عمران، میں یونی کوڈ میں کنورٹ کر لوں گا۔ ان کے علاوہ اور کسی کا بھی کلام دستیاب ہو تمہارے پاس تو میری موج ہو جائے گی!!
 
Top