خرم شہزاد خرم
لائبریرین
اس نے پھر موڑ کے دیکھا تو اسے کوئی نظر نا آیا وہ آرام آرام سے آگے کی طرف جا رہا تھا اسے امید تھی کے وہ اس کے پیچھے ضرور آئے گا لیکن پتہ نہیں کیا بات ہوئی وہ اس کے پیچھے نہیں آیا شام بھی ہونے والی تھی اس نے سوچا تھا اگر ایک دفعہ بھی راشد اس کو روکنے آیا تو وہ رکھ جائے گا لیکن راشد نا کبھی اس کو روکنے آیا اور نا ہی اس نے آنا تھا راشد بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اس دفعہ خود واپس آیا تو پھر وہ اس کو کبھی نہیں جانے دے گا دونوں دوست اپنی اپنی انا کی وجہ سے اپنی بات پر قائم رہے پھر کیا ہونا تھا سلیم بس سٹاپ پر پونچا ایک بار پھر موڑ کے دیکھا تو راشد کا دور تک نام و نشان نہیں تھا سلیم نے سوچا ہو سکتا ہے وہ مجھے روکنے کے لیے آ جائے اس لے وہ اس کا انتظار کرنے لگا لیکن رات بھی اپنی چادر پھیلا رہی تھی اس لیے سلیم نے سوچا اب میں کبھی واپس نہیں جاؤں گا گاڑی میں بیٹھا اور اپنے شہر چلا گے واپس کبھی نا آنے کے لیے اور ادھر راشد بھی ساری رات سو نا سکا سلیم کا انتظار کرتا رہا جب رات بہت ہو گی تو پھر سلیم کو تلاش کرنے کے لیے نکلا لیکن اس وقت تک سلیم بہت دور نکل چکا تھا