محمد اظہر نذیر
محفلین
وہ بھی ملتا ہے اگر دل سے پکارا جاٴے
بس یہ لازم ہے ذرا خود کو سنوارا جاٴے
اُس کے احسان سمجھنے میں بڑی بھول ہوٴی
بوجھ بڑھتا ہی رہا، کچھ تو اُتارا جاٴے
بے حسی ہم نے روا رکھی عبادت تک میں
اب ہی احساس کیا کچھ تو خدارا جاٴے
شان اُنکی تھی جہاں میرے محمد پہنچے
چاند پہنچا نہ جہاں اور نہ ستارا جاٴے
کاٹ دوں عنق میں تلوار سے گستاخوں کی
میرے جزبات کو ایسے نہ اُبھارا جاٴے
سامنے کھول کے سینے یہ کھڑی ہے اُمت
بس نبی پاک کی سمت نہ شرارا جاٴے
ایک باری ہی گیا ہوں میں وہاں تک اظہر
گھر ہے اللہ کا، انسان دوبارا جاٴے