ایک حمدیہ سی نعتیہ سی غزل،'' وہ بھی ملتا ہے اگر دل سے پکارا جائے'' اصلاح کی درخواست ہے

وہ بھی ملتا ہے اگر دل سے پکارا جاٴے
بس یہ لازم ہے ذرا خود کو سنوارا جاٴے
اُس کے احسان سمجھنے میں بڑی بھول ہوٴی
بوجھ بڑھتا ہی رہا، کچھ تو اُتارا جاٴے
بے حسی ہم نے روا رکھی عبادت تک میں
اب ہی احساس کیا کچھ تو خدارا جاٴے
شان اُنکی تھی جہاں میرے محمد پہنچے
چاند پہنچا نہ جہاں اور نہ ستارا جاٴے
کاٹ دوں عنق میں تلوار سے گستاخوں کی
میرے جزبات کو ایسے نہ اُبھارا جاٴے
سامنے کھول کے سینے یہ کھڑی ہے اُمت
بس نبی پاک کی سمت نہ شرارا جاٴے
ایک باری ہی گیا ہوں میں وہاں تک اظہر
گھر ہے اللہ کا، انسان دوبارا جاٴے
 

الشفاء

لائبریرین
سامنے کھول کے سینے یہ کھڑی ہے اُمت
بس نبی پاک کی سمت نہ شرارا جاٴے
واہ۔۔۔ بہت عمدہ کلام۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
کاپی کر رہا ہوں۔ لیکن یہ املا عجیب لکھتے ہو۔ ’جائے‘ اس طرح لکھا جاتا ہے نہ کہ ’جاٴے‘
یہ تو کسی طرح بحر میں نہین آتا
بس نبی پاک کی سمت نہ شرارا جاٴے
 
کچھ تبدیلیاں

وہ بھی ملتا ہے اگر دل سے پکارا جاٴے
بس یہ لازم ہے ذرا خود کو سنوارا جاٴے
مانگتے اُس سے نہیں، جو کہ ہے شہ رگ سے قریب
عقل پر انس کی پردہ ہے، اُتارا جاٴے
بے حسی کیا ہے یہ ناموس رسالت پر بھی
اس کا احساس کیا کچھ تو خدارا جاٴے
شان اُنکی تھی جہاں میرے محمد پہنچے
نظر جاٴے نہ جہاں اور نظارا جاٴے
کاٹ گردن میں دوں تلوار سے گستاخوں کی
میرے جزبات کو ایسے نہ اُبھارا جاٴے
سامنے کھول کے سینہ یہ کھڑی ہے اُمت
بس نبی پاک کی سمت نہ شرارا جاٴے
ایک ہی بار گیا ہوں میں وہاں تک اظہر
گھر ہے اللہ کا، انسان دوبارا جاٴے
 

الف عین

لائبریرین
استاد محترم یہ تقطیع دیکھیے تو
22-2211-2211-2212
بس۔۔ن۔۔بی۔۔پا۔۔۔ ۔۔۔ک۔۔ک۔۔سم۔۔مت۔۔۔ ۔ن۔ا۔۔شا۔۔را۔۔۔ ۔جا۔۔ٴے
اوہو، تو تم سمت بر وزن درد، فعل کو سم مت بر وزن فعلن باندھ رہے ہو۔ یہ تلفظ غلط ہے۔ اس کے تلفظ میں یہ تو کنفیوژن مانا جا سکتا ہے کہ یہ درست سَمت ہے یا سِمت۔ یعنی س پر زبر ہے یا زیر، لیکن کسی تیسرے متبادل کا آج پتہ چلا!!!
 
اوہو، تو تم سمت بر وزن درد، فعل کو سم مت بر وزن فعلن باندھ رہے ہو۔ یہ تلفظ غلط ہے۔ اس کے تلفظ میں یہ تو کنفیوژن مانا جا سکتا ہے کہ یہ درست سَمت ہے یا سِمت۔ یعنی س پر زبر ہے یا زیر، لیکن کسی تیسرے متبادل کا آج پتہ چلا!!!
او ہو اُستاد محترم مین واقعی فعلن باندھ رہا تھا، یوں دیکیے تو

وہ بھی ملتا ہے اگر دل سے پکارا جاٴے
بس یہ لازم ہے ذرا خود کو سنوارا جاٴے
مانگتے اُس سے نہیں، جو کہ ہے شہ رگ سے قریب
عقل پر انس کی پردہ ہے، اُتارا جاٴے
بے حسی کیا ہے یہ ناموس رسالت پر بھی
اس کا احساس کیا کچھ تو خدارا جاٴے
شان اُنکی تھی جہاں میرے محمد پہنچے
نظر جاٴے نہ جہاں اور نظارا جاٴے
کاٹ گردن میں دوں تلوار سے گستاخوں کی
میرے جزبات کو ایسے نہ اُبھارا جاٴے
سامنے کھول کے سینہ یہ کھڑی ہے اُمت
بس نبی پاک کی جانب نہ شرارا جاٴے
ایک ہی بار گیا ہوں میں وہاں تک اظہر
گھر ہے اللہ کا، انسان دوبارا جاٴے
 
لیجیے کچھ اور سجھاو آ گیا

وہ بھی ملتا ہے اگر دل سے پکارا جاٴے
بس یہ لازم ہے ذرا خود کو سنوارا جاٴے
کیوں جلاتے ہو نشیمن کو، یہیں رہنا ہے
جانب عقل بھی کوٴی تو خدارا جاٴے
شان دیکھو کہ جہاں میرے محمد پہنچے
نظر جاٴے نہ جہاں اورنہ نظارا جاٴے
پھونک ڈالے نہ یہ ایمان کا شعلہ تُم کو
میرے جزبات کو ایسے نہ اُبھارا جاٴے
آج کس دھج سے کھڑی سینہ سپر ہے اُمت
بس نبی پاک کی جانب نہ شرارا جاٴے
ایک ہی بار گیا ہوں میں وہاں تک اظہر
گھر ہے اللہ کا، انسان دوبارا جاٴے
 

الف عین

لائبریرین
وہ بھی ملتا ہے اگر دل سے پکارا جاٴے
بس یہ لازم ہے ذرا خود کو سنوارا جاٴے
//جب خدا کے ملنے کی ایک ہی شرط ٹھہری تو پھر دل سے پکارنے کی کیا ضرورت؟

مانگتے اُس سے نہیں، جو کہ ہے شہ رگ سے قریب
عقل پر انس کی پردہ ہے، اُتارا جاٴے
//یہ عربی کا جن و انس اردو میں نہیں چلتا۔ اِنس کو لوگ اُنس پڑھتے ہیں۔
عقلِ انسان پہ پردہ ہے، اتارا جائے
یا
عقلِ انسان پہ پردہ ہے، اتارا جائے
عقلِ انسان کے پردے کو اتارا جائے

بے حسی کیا ہے یہ ناموس رسالت پر بھی
اس کا احساس کیا کچھ تو خدارا جاٴے
//دوسرے مصرع میں ’زبان درازی‘ کی گئی ہے۔ یعنی خدارا قافیہ لانے کی وجہ سے الفاظ کی نشست کو نا مناسب طریقے سے الٹ پلٹ دیا ہے۔ اس کو فی الحال نکال ہی دو۔

شان اُنکی تھی جہاں میرے محمد پہنچے
نظر جاٴے نہ جہاں اور نظارا جاٴے
//نظر کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے۔یوں کر دو تو بہتر ہو۔
آنکھ ہی جائے جہاں تک، نہ نظارا جائے

کاٹ گردن میں دوں تلوار سے گستاخوں کی
میرے جزبات کو ایسے نہ اُبھارا جاٴے
//‘میں گردن کاٹ دوں‘ کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا ایسے بیانیہ سے۔
ایسے گستاخوں کی گردن ہی اڑا دوں نہ کہیں
میرے جذبوں کو نہ اس طرح ابھارا جائے

سامنے کھول کے سینہ یہ کھڑی ہے اُمت
بس نبی پاک کی سمت نہ شرارا جاٴے
//دوسرا مصرع بدل دو تو بہتر ہے، سمت کے تلفظ پہ بات ہو گئی ہے۔ نبیِ پاک کا محل ہے، یہاں محض نبی پاک بھی اچھا نہیں۔ اک صورت یہ ہے جس سے میں بھی مطمئن نہیں ہوں۔
جانبِ شاہِ رسل تا نہ ۔۔۔

ایک ہی بار گیا ہوں میں وہاں تک اظہر
گھر ہے اللہ کا، انسان دوبارا جاٴے
//ایک ہی بار تو آیا ہے خدا کے گھر تک
یہ ہے اظہر کی تمنا کہ دوبارا جائے
 
Top