ایک خواہش ہے جو ابھی آنکھ کی تحویل میں ہے ۔۔۔صائمہ ملک

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک خواہش ہے جو ابھی آنکھ کی تحویل میں ہے​
میں وہ سپنا ہوں کہ جو جسم کی تشکیل میں ہے​
میں نہ حوا ہوں نہ مریم ہوں نہ میں آسیہ ہوں​
اور اُس پہ کہ مرا ذِکر بھی انجیل میں ہے​
میں نے خود پردے کی حرمت کو نہ افضل جانا​
ہاتھ اپنا ہی مری ذات کی تذلیل میں ہے​
خال و خد کر بھی چکا میرے نمایاں لیکن​
وہ مصور ابھی تصویر کی تفصیل میں ہے​
میں تجھے تجھ سے زیادہ بھی کبھی چاہوں گی​
اور اک پیار کا دریا میری زنبیل میں ہے​
اس لئے بھی نہ ہواؤں سے بجھی ہے اب تک​
میری آنکھوں کا لہو وقت کی قندیل میں ہے​
(صائمہ ملک)​
 
Top