محمد بلال اعظم
لائبریرین
ایک خواہش ہے جو ابھی آنکھ کی تحویل میں ہے
میں وہ سپنا ہوں کہ جو جسم کی تشکیل میں ہے
میں نہ حوا ہوں نہ مریم ہوں نہ میں آسیہ ہوں
اور اُس پہ کہ مرا ذِکر بھی انجیل میں ہے
میں نے خود پردے کی حرمت کو نہ افضل جانا
ہاتھ اپنا ہی مری ذات کی تذلیل میں ہے
خال و خد کر بھی چکا میرے نمایاں لیکن
وہ مصور ابھی تصویر کی تفصیل میں ہے
میں تجھے تجھ سے زیادہ بھی کبھی چاہوں گی
اور اک پیار کا دریا میری زنبیل میں ہے
اس لئے بھی نہ ہواؤں سے بجھی ہے اب تک
میری آنکھوں کا لہو وقت کی قندیل میں ہے
(صائمہ ملک)