حصۂ اول ۔ بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع - تعارف اور اوزان
بڑی بحر ایک دریا کی مانند ہوتی ہے۔ طغیانی میں ہو تو ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے۔ موج میں ہو تو لہریں گنتے جاؤ اور ختم نہ ہوں اور اگر کہیں روانی میں کمی آ جائے تو جگہ جگہ جوہڑ بن جاتے ہیں، 'بڈھے' روای کی طرح۔ اس کے مقابلے میں چھوٹی بحر ایک گنگناتی، لہراتی، بل کھاتی، مچلتی ندی کی طرح ہے۔ اور جیسے کسی دیو ہیکل پہاڑ کی اوٹ سے جھرنا ایک دم آنکھوں کے سامنے خوشنما منظر لیے آجاتا ہے اسی طرح چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی بات دھم سے آنکھوں کو چکا چوند کردیتی ہے اور دماغ بغیر سوچ و بچار میں پڑے فوراً روشن ہو جاتا ہے۔
چھوٹی بحروں میں شاعری کرنا ہر شاعر کا مشغلہ رہا ہے۔ اساتذہ سے لیکر موجودہ عصر تک ہر شاعر نے ان بحروں میں طبع آزمائی کی ہے، اور اصنافِ سخن میں سے غزل کو اس میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ تھوڑے اور گنے چنے الفاظ میں غزل کی رنگینیٔ بیاں کو نبھاتے ہوئے دو مصرعوں میں بات مکمل کر دینا بلکہ سامع تک پوری بلاغت سے پہنچا دینا واقعتاً ایک معانی رکھتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی اچھی غزلیں اردو ادب میں سدا بہار کا مقام رکھتی ہیں اور ان غزلوں کے اشعار اور مصرعے ضرب المثل کا مقام حاصل کرچکے ہیں۔
انہی چھوٹی بحروں میں ایک بحر، بحرِ خفیف ہے۔ بحرِ خفیف ایک مسدس (تین ارکان والی) بحر ہے اور تقریباً تمام مسدس بحریں چھوٹی ہیں کہ ان میں مثمن (چار ارکان والی) بحروں کے مقابلے میں ایک رکن کم ہوتا ہے اور پھر زحافات کا استعمال انہیں مزید مختصر کیے ہی چلا جاتا ہے۔ بحرِ خفیف کی ایک مزاحف شکل ،بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع' کا تعارف اور اس مخصوس بحر میں کہی ہوئی مشہور غزلیات کی ایک فہرست اس مضمون کا مقصود ہے۔
وجۂ تسمیہ
بحرِ خفیف کی وجۂ تسمیہ صاحبِ بحر الفصاحت، مولوی نجم الدین غنی رامپوری نے یہ بیان کی ہے۔
"خفیف کے معنی ہلکے ہیں۔ چونکہ اس بحر کے سب ارکان ہلکے ہیں بسب اس کے کہ دو سبب وتد مجموع کو گھیرے ہوئے ہیں، اس لئے اس بحر کا نام خفیف رکھا ہے۔ اس بحر کو متاخرین شعرائے ریختہ نے سوائے مسدس مزاحف کے اور کسی طرح استعمال نہیں کیا۔"
آخری جملے سے یہ بھی معلومات ملتی ہیں کہ اب سالم حالت میں، مثمن و مسدس و مربع، یہ بحر استعمال نہیں ہوتی اور مزاحف بھی صرف مسدس (یعنی جس بحر کے ایک مصرعے میں تین رکن ہوں) استعمال ہوتی ہے۔
اوزان
بحرِ خفیف سالم الاصل کے اوزان یہ ہیں۔
مثمن۔ فاعلاتن مستفعلن فاعلاتن مستفعلن
مسدس۔ فاعلاتن مستفعلن فاعلاتن
لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ مضمون بحر خفیف کی ایک مسدس مزاحف شکل 'بحر خفیف مسدس مخبون مخذوف مقطوع' کے متعلق ہے اور اسی بحر کے اوزان سے یہاں بحث کی جائے گی۔
بحر خفیف مسدس مخبون مخذوف مقطوع کا وزن 'فاعِلاتن مَفاعِلن فعلن' ہے (فعلن میں ع کے سکون کے ساتھ)۔ اس بحر کا یہ وزن بحر خفیف مسدس سالم الاصل پر زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے، یہ زحافات بحر کے نام میں ہی شامل ہیں یعنی زحافات خبن، حذف اور قطع۔
اس بحر کے وزن میں میں کچھ رعائیتیں اور اجازتیں دی گئی ہیں جس سے اس بحر کا حسن بہت بڑھ جاتا ہے اور ایک ہی بحر میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کے اور فصیح سے فصیح تر الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اجازتیں کچھ اسطرح سے ہیں۔
1- اس بحر یعنی خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع کو بحر خفیف مسدس کی ہی ایک اور مزاحف صورت 'خفیف مسدس مخبون محذوف' کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس بحر کا وزن 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' ہے (فعِلن میں ع کے کسرے یا زیر کے ساتھ)۔
2- ان دونوں مسدس بحروں یعنی مخبون محذوف مقطوع اور مخبون محذوف کے صدر و ابتدا (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے رکن اور دوسرے مصرعے کے پہلے رکن) اور عروض و ضروب (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے آخری رکن اور دوسرے مصرعے کے آخری رکن) میں ان اوزان کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔
اول۔ صدو ابتدا میں جو اس بحر میں 'فاعلاتن' ہے کو اس رکن کی مخبون شکل یعنی 'فعِلاتن' کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اور ایک شعر میں دونوں اوزان لا سکتے ہیں۔
دوم۔ عروض و ضروب میں جو اس بحر میں فعلن (عین کے سکون کے ساتھ) ہے کو فعِلن (عین کے کسرہ کے ساتھ) اور ان دونوں کی ہی مسبغ اشکال یعنی فعلان (عین کے سکون کے ساتھ) اور فعِلان (عین کے کسرہ کے ساتھ) کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔
3- حشو (یعنی صدر و ابتدا اور عروض و ضروب کے درمیان آنے والے تمام اراکین) جو اس بحر میں صرف 'مفاعِلن' ہے کو کسی اور رکن کے ساتھ تبدیل نہیں کر سکتے وگرنہ بحر بدل جائے گی۔
اوپر دئے گئے اصولوں کی مدد سے اگر اس بحر میں جمع کئے جانے والے اوازن کی ایک فہرست بنائی جائے تو اس بحر میں تکنیکی طور پر آٹھ اوزان کو ایک ہی غزل میں یا ان میں سے کسی دو کو ایک ہی شعر میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ یہ فہرست کچھ اسطرح سے ہے۔
1- فاعِلاتن مفاعِلن فعلن (فعلن میں عین کے سکون کے ساتھ)
2- فَعِلاتن مفاعِلن فعلن
3- فاعِلاتن مفاعِلن فعلان (فعلان میں عین کے سکون کے ساتھ)
4- فَعِلاتن مفاعِلن فعلان
5- فاعِلاتن مفاعلن فعِلن (فعِلن میں عین کے کسرہ کے ساتھ)
6- فَعِلاتن مفاعلن فعِلن
7- فاعِلاتن مفاعلن فعِلان (فعِلان میں عین کے کسرہ کے ساتھ)
8- فَعِلاتن مفاعِلن فعِلان
یہاں پر ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ کلاسیکی عروض میں اوپر دیئے گئے آٹھوں اوزان کی بحروں کے علیحدہ علیحدہ نام تھے لیکن ان سب کو ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی اجازت تھی لیکن جدید فارسی اور اردو عروض میں ان آٹھ اوزان کو تو علیحدہ مانا جاتا ہے اور جمع بھی کر سکتے ہیں لیکن آٹھ بحروں کی بجائے انھیں دو بحریں ہی تصور کیا جاتا ہے کہ عملی لحاظ سے یہ بات بالکل صحیح ہے۔
مختلف اوزان کو جمع کرنے کی امثال
اب ہم اوپر دیئے گئے اوزان کو ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی دو مثالیں دیکھتے ہیں۔ یوں تو بے شمار غزلیں ہیں جن میں مندرجہ بالا اوزان کو جمع کیا گیا ہے لیکن میں نے اس کیلیے ایک غالب کی اور ایک فیض کی غزل منتخب کی ہے اور دیکھتے ہیں کہ ان دو عظیم شعرا نے کس مہارت کے ساتھ مختلف اوزان کو ایک ہی غزل میں جمع کیا ہے۔
غالب کی غزل کے اشعار
شعرِ غالب
نے گُلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
مصرع اول عروضی متن و وزن
نے گُ لے نغ (فاعلاتن) مَ ہو نَ پر (مفاعِلن) دَ ء ساز (فعِلان) یہ فاعلاتن مفاعلن فعِلان اوپر دی گئی فہرست میں وزن نمبر 7 ہے۔
مصرع ثانی عروضی متن و وزن
مے ہُ اپنی (فاعلاتن) شکست کی (مفاعلن) آواز (فعلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلان۔ وزن نمبر 3۔
شعرِ غالب
تُو اور آرائشِ خمِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
مصرع اول عروضی متن و وزن
تُو اَ را را (فاعلاتن) ء شے خَ مے (مفاعلن) کاکل (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن، وزن نمبر 1۔
مصرع ثانی عروضی متن و وزن
مے اَ رن دے (فاعلاتن) شَ ہاے دُو (مفاعلن) ر دراز (فعِلان) وزن نمبر 7۔
شعرِ غالب
لافِ تمکیں فریب سادہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز
مصرع اول عروضی متن و وزن
لاف تمکیں (فاعلاتن) فریب سا (مفاعلن) دَ دلی (فعِلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 5۔
مصرع ثانی۔ وزن نمبر 7 میں ہے۔
شعرِ غالب
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز
مصرع اول عروضی متن و وزن
نَ ہِ دل میں (فعلاتن) مرے وُ قَط (مفاعلن) رَ ء خو (فعِلن)۔ فعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 6۔
مصرع ثانی وزن نمبر 3 میں ہے۔
یوں اس غزل میں غالب نے پانچ اوزان جمع کئے ہیں جو کہ اوپر والی فہرست کے مطابق اوزان نمبر 1، 3، 5، 6 اور 7 بنتے ہیں۔
اب فیض احمد احمد فیض کی ایک غزل کے اشعار دیکھتے ہیں۔
شعرِ فیض
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن
آے کچ اب (فاعلاتن) ر کچ شرا (مفاعلن) بائے (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 1۔
مصرع ثانی عروضی متن و وزن
اس کِ بع دا (فاعلاتن) ء جو عذا (مفاعلن) بائے (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 1۔
شعرِ فیض
عمر کے ہر وَرق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن
عمر کے ہر (فاعلاتن) ورق پہ دل (مفاعلن) کُ نظر (فعِلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 5۔
مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعرِ فیض
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن
کر رہا تھا (فاعلاتن) غَ مے جہا (مفاعلن) کَ حساب (فعِلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلان۔ وزن نمبر 7۔
مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعرِ فیض
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن
نَ گئی تے (فعلاتن) رِ غم کِ سر (مفاعلن) داری (فعلن)۔ فعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 2۔
مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعرِ فیض
جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن
جل اٹھے بز (فاعلاتن) مِ غیر کے (مفاعلن) در بام (فعلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلان۔ وزن نمبر 3۔
مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔
اس غزل میں فیض نے مجموعی طور پر پانچ اوزان جمع کئے ہیں جو اوپر والی اوزان کی فہرست کے مطابق وزن نمبر 1، 2، 3، 5 اور 7 ہیں۔
آٹھوں اوزن کی امثال (اوزان کے نمبر اوپر والی فہرست کے مطابق ہیں)
شعر فیض
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
دونوں مصرعے 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' میں ہیں (وزن نمبر 1)
شعرِ فیض
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
اس شعر کا پہلا مصرع 'فعِلاتن مفاعلن فعلن' میں ہے (وزن نمبر 2)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعرِ فیض
جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہے (وزن نمبر 3)، دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعر مصحفی
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند
دونوں مصرعے 'فعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہیں (وزن نمبر 4)۔
شعرِ فیض
عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 5)۔
شعرِ غالب
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز
پہلا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 6)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 3 میں ہے۔
شعرِ فیض
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلان' وزن نمبر 7 میں ہے۔
شعرِ داغ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق
دوسرا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلان' میں ہے (وزن نمبر 8)۔ پہلا مصرع وزن نمبر 7 میں ہے۔
مشابہت
بحروں میں مشابہت کے حوالے سے محمد حسین آزاد کا آبِ حیات میں تحریر کردہ ایک واقعہ یاد آگیا جو انہوں انشاءاللہ خان انشا کے تذکرے میں بیان کیا ہے۔
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ سودا کے دعوٰی شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے انکا دماغ بہت بلند کر دیا تھا۔ وہ فقط شد بود کا علم رکھتے تھے مگر اپنے تئیں ہندوستان کا صائب کہتے تھے اور خصوصاً ان معرکوں میں سب سے بڑھ کر قدم مارتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دن میر ماشاءاللہ خاں کے پاس آئے اور غزل سنائی کہ بحر رجز میں تھی مگر ناواقفیت سے کچھ شعر رمل میں جا پڑے تھے۔ سید انشاءاللہ بھی موجود تھے، تاڑ گئے۔ حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرار سے کہا کہ مرزا صاحب اسے آپ مشاعرے میں ضرور پڑھیں۔ مدعی کمال کہ مغز سخن سے بے خبر تھا اس نے مشاعرہ عام میں غزل پڑھ دی۔ سید انشاءاللہ نے وہیں تقطیع کی فرمائش کی۔ اس وقت اس غریب پر جو گزری سو گزری مگر سید انشاءاللہ نے اس کے ساتھ سب کو لے ڈالا اور کوئی دم نہ مار سکا۔ بلکہ ایک مخمس بھی پڑھا، جس کا مطلع یہ ہے۔
گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے
کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے
اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے
پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے
بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے"
اس واقعے کا ذکر مولوی نجم الدین غنی نے عیوبِ عروض کے تحت کیا ہے اور شعراء کرام کو متنبہ کیا ہے جو بحریں آپس میں متشابہ ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔
اور یہ بات ہماری مذکورہ بحر کیلیے بھی حرف بحرف صحیح ہے کہ اس بحر کی مشابہت یوں تو کئی بحروں کے ساتھ ہے لیکن بحر 'رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع' کے ساتھ تو حد سے زیادہ متشابہ ہے۔ اس دوسری بحر کا وزن 'فاعلاتن فعِلاتن فعلن' ہے اور اسکے صدر و ابتدا اور عروض و ضروب میں بھی وہی اور اتنے ہی اوزان آ سکتے ہیں جو کہ بحرِ خفیف کے ہیں یعنی اس میں بھی مجموعی طور پر آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں لیکن خفیف اور رمل مقطوع میں فرق یہ ہے کہ خفیف کا حشو 'مفاعلن' جب کہ رمل کا حشو 'فعِلاتن' ہے۔ اگر آپ اوپر دیئے گئے آٹھ اوزان کی فہرست دیکھیں تو نوٹ کریں گے کہ ان آٹھ اوزان میں صدر و ابتدا اور عروض و ضروب تو تبدیل ہو رہے ہیں لیکن حشو تبدیل نہیں ہو رہا بعینہ اسی طرح 'رمل' میں حشو 'فعِلاتن' تبدیل نہیں ہوتا اور صدر و ابتدا اور عروض و ضروب وہی ہیں جو 'خفیف' کے ہیں۔
یہ ایک انتہائی لطیف اور کم فرق ہے، یہ ایسے ہی جیسے آپ کہیں 'دعا یہ ہے' تو یہ بر وزن 'مفاعلن' ہے لیکن اگر کہیں 'یہ دعا ہے' تو یہ 'فعِلاتن' کے وزن پر ہے اور صرف ایک حرف کی جگہ تبدیل کرنے سے بحر بدل جائے گی۔
۔