تبصرہ کتب ایک خودنوشت- نوشاد علی لکھنوی

Rashid Ashraf

محفلین
نوشاد علی لکھنوی - جہاں کی رت بدل گئی
خودنوشت -تبصرہ و تجزیہ-حصہ اول
راشد اشرف
کراچی سے

موسیقار اعظم نوشاد علی لکھنوی (۲۵ دسمبر ۱۹۱۹ تا ۵ مئی ۲۰۰۵ )کی خودنوشت کا کتابی شکل میں شائع ہونا ایک اہم واقعہ ہے!
براڈوے تھیٹر میں فلم بیجو باورا کا پریمئر تھا۔ اس فلم کی کامیاب موسیقی نوشاد علی لکھنوی نے دی تھی۔ تھیٹرسے باہر نکلتے وقت فلمساز وجے بھٹ نے نوشاد کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو حیرت سے کہا: ’’ یہ خوشی کا موقع کا اور تم رو رہے ہو ؟ ‘‘
نوشاد نے سامنے فٹ پاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ اس فٹ پاتھ کو پار کرکے یہاں براڈوے تھیٹر تک پہنچنے میں مجھے سولہ برس لگے ‘‘
اس فٹ پاتھ پر رات گئے اپنے دور کی مشہور اداکارہ لیلا چٹنس (فلم گائیڈ میں دیو آنند کی ماں کا کردار کیا) فلموں کی شوٹنگ سے واپس لوٹتی تھی ، فلیٹ کے راستے میں نوشاد زمین پر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے تھے، کہتے ہیں کہ اس کی سینڈلوں کی کھٹ کھٹ سے میری آنکھ کھل جاتی تھی اور اکثر بقیہ تمام رات آنکھوں میں کٹ جایا کرتی تھی۔
یہ سرگزشت ایسے ہی لاتعداد دلچسپ واقعات کا مرقع ہے۔
سن ۱۹۳۷ (انیس سو سینتیس) میں نوشاد اپنے ایک دوست سے ریل کا کرایہ لے کر لکھنؤ سے بمبئی چلے گئے تھے۔کام کی تلاش میں بہت کھٹن وقت دیکھا۔ ان کے بقول ’’ میں ایک ایک کا منہ تکتا تھا۔‘‘۔۔پھر قسمت کی دیوی جب مہربان ہوئی تو ایسی کہ چار دانگ عالم میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔اپنی اڑتالیس سال کی فلمی زندگی میںنوشاد نے ۶۶ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان فلموں میں رتن، بیجو باورا، مغل اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان،بیجو باورا، انمول گھڑی، انوکھی ادا، امر، مدر انڈیا، دیدار، گنگا جمنا ، پاکیزہ اور رام اور شیام جیسی مشہور زمانہ فلمیں شامل ہیں۔ ان کے چند مشہور گیت ملاحظہ ہوں:
انکھیاں ملا کے جیا برما کے چلے نہیں جانا ۔رتن
آجا میری برباد محبت کے سہارے۔ انمول گھڑی
غم دیے مستقل، کتنا نازک ہے دل۔ شاہجہان
جب دل ہی ٹوٹ گیا۔ شاہجہان
تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا۔ بیجو باورا
او دنیا کے رکھوالے سن درد بھرے میرے نالے۔بیجو باورا
دل میں چھپا کے پیار کا طوفان لے چلے۔آن
اے دل تجھے قسم ہے۔دلاری
ڈوبا تارا امیدوں کا سہارا۔اڑن کھٹولا
یاد میں تیری جاگ جاگ کے ہم۔میرے محبوب
زندہ باد اے محبت زندہ باد۔مغل اعظم
ملتے ہی آنکھیں دل ہو ا دیوانہ کسی کا۔بابل
انصاف کا مندر ہے۔ امر
ہوئے ہم جن کے لیے برباد۔دیدار
مان میرا احسان۔آن
میرے پاس آؤ نظر تو ملاؤ۔ سنگھرش

نوشاد علی لکھنوی کی سرگزشت کبھی منظر عام پر نہ آتی اگر ظہیر ناصر ، نوشاد کے ساتھ بیٹھ کر اسے لفظ بہ لفظ نہ لکھتے۔ ابتدا میں یہ سرگزشت شمع دہلی میں جنوری ۱۹۸۴ (چوراسی) سے نومبر ۱۹۸۵(پچاسی) تک قسط وار شائع ہوئی تھی اور پھر چار برس کے وقفے کے بعد مارچ ۱۹۸۹ (نواسی) سے شمع میں اس کے دوسرے حصے کی اشاعت شروع ہوئی۔ عالمی اردو کانفرنس کے سیکریٹری فاروق ارگلی نے ۲۰۰۶ میں پہلی مرتبہ کتابی شکل میں اسے نوشاد کی شاعری کے مجموعے کے ساتھ دہلی سے شائع کیا اور اس شان سے کہ ۴۹۱ (چار سو اکیانوے) صفحات کی قیمت محض ۱۵۰ (ایک سو پچاس ) روپے مقرر کی گئی۔ ان دنوں دہلی ہی سے ملک زادہ منظور کی آپ بیتی رقص شرر بھی شائع ہوئی تھی۔ صفحات بھی کم و بیش اتنے ہی تھے جتنے نوشاد کی خودنوشت کے ہیں لیکن رقص شرر کی قیمت ۵۵۰ (پانچ سو پچاس) ہے۔
یہاں اس دلچسپ سرگزشت سے کچھ انتخاب شامل کیا جارہا ہے:

۱فلم مرزا صاحباں میں ایک آؤٹ ڈور گانا تھا کہ ہیروئن پکڑے دھو رہی ہے اور گیت گارہی ہے۔ یہ گیت پوائی لیک پر فلمانا تھا۔ پوئی لیک پر میوزیشن چھپائے گئے کیونکہ پلے بیک کا زمانہ نہیں تھااور شوٹنگ میں ہی گانا فلمایا جاتا تھا۔ کلارنٹ بجانے والے کو درخت کی ایک ٹہنی پر بٹھایا گیا۔ مجھے آرگن دیا گیا۔ میں بھی ایک پیڑ پر چڑھا۔ ریہرسل ہوئی، کیمرہ سیٹ کیا گیا۔ ہیروئن نے شکایت کی کہ لے نہیں مل رہی، طبلہ قریب لاؤ۔ اب مشکل یہ کہ طبلے والا اگر ہیروئن کے قریب آئے تو کیمرے میں آئے گا ۔ پھر حل یہ نکالا گیا کہ ایک بڑے پیڑ کو کاٹا گیا۔ غوثا پہلوان طبلہ بجا رہے تھے۔ ایک بڑا ٹہنا ان کی کمر سے باندھا گیا۔شاخوں سے ان کو ڈھانپ دیا گیا ، اس طرح یہ ہیروئن کے قریب ہوئے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ غوثا پہلوان طبلہ بجاتے وقت ہل رہے ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ پیڑ ہوا سے ہل رہا ہے۔

۲ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا۔، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہوگیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے ہوچھا ۔’’ تم کون ہو ؟ ُ‘‘۔۔میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا ، اپنا کوٹ اٹھایااور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آکر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔

۳اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کررہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگرٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگرٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگرٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا ، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگرٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے ۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیونکہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔

۴فلم قانون ریلیز ہوئی تو ایک غلط فہمی کی وجہ سے بڑا زبردست ہنگامہ بھی ہوا۔ فلم کا ایک سین کچھ اس قسم کا تھا کہ گھر میں ایک مندر بنا ہوا ہے جہاں پتنی بھجن گارہی ہے۔ اس کا پتی آتا ہے اور کہتا ہے کہ بند کرو یہ بکواس، اور مندر کو ٹھوکر مارتا ہے۔ تماشائیوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ مندر کو ٹھوکر کیوں ماری گئی۔ حالانکہ اس مندر میں کسی مورتی کی بجائے پتی کی تصویر رکھی ہوئی ہوتی ہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ کمپنی کے تمام ملازمین سینما ہال جائیں اور جب ٹھوکر مارنے کے بعد شوہر کی تصویر نظر آئے تو تالیاں بجائی جاتیں تاکہ لوگ سین کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔پروگرام کے مطابق تمام ملازمین بھیجے گئے۔ ان میں ایک پارسی بابا بھی تھے جو پیانو بجاتے تھے۔ ان بزرگ سے ذرا سی غلطی ہوگئی۔ انہوں نے ٹھوکر لگتے ہی تالیاں بجادیں۔ دوسرے فلم بینوں نے ان کی پٹائی کردی۔ لیکن آہستہ آہستہ اس حکمت عملی نے کام دکھانا شروع کیا۔ اور وہ سین فلم کی خوبی بن کر ابھرا۔

۵فلم شاہجہاں کی شوٹنگ شروع ہوچکی تھی۔ چونکہ تاریخی فلم تھی لہذا بہت بڑی تعداد میں ایکسٹرا اداکار اور اداکارائیں اس فلم کی شوٹنگ میں حصہ لیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ شوٹنگ کے بعد یہ اداکار گٹ اپ اور فلمی ملبوسات کے ساتھ اسٹوڈیو کے گیٹ سے رخصت ہوجاتے اور اگلے دن شوٹنگ کے وقت دوبارہ گٹ اپ اور ڈریس تیار کرانے پڑتے۔ کاردار میاں اس صورت حال سے پریشان تھے۔ انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ اسٹوڈیو کے گیٹ پر ایک چوکی دار کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ ہر شخص سے گٹ اپ اور ملبوسات اتروائے۔ حکیم حیدر بیگ، کاردار میاں کے قریبی دوست اور محبوب صاحب کے سمدھی تھے۔ وہ کاردار میاں سے ملنے اسٹوڈیو آئے۔ ملاقات کے بعد جب وہ گیٹ پر پہنچے تو زبردست ہنگامہ ہوگیا۔ حکیم صاحب زور زور سے چلا رہے تھے۔ ہم نے شور کی آواز سنی تو ا سٹوڈیو کے گیٹ پر پہنچے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ چوکی دار حکیم صاحب سے اصرار کررہا ہے کہ وہ داڑھی اتار کر جائیں۔حکیم صاحب غصے میں آگ بگولا ہوکر چوکی دار سے کہہ رہے ہیں:
’’ بدتمیز ! خبیث! تیری یہ مجال کہ میرے چہرے کی داڑھی کو اتروائے۔ بے وقوف یہ اصل داڑھی ہے ‘‘
کاردار میاں آگے بڑھے۔ چوکی دار کو ڈانٹ پلائی۔ایسے واقعات بیسیوں مرتبہ ہوئے۔
کاردار میاں اس فلم میں جنت کے مناظر بھی فلما رہے تھے۔، لہذا علماء کو مشورے کے لیے بلایا جاتا۔ مختلف لوگ آتے اورخوب بحث و مباحثہ ہوتا۔ ان محفلوں میں بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوتی۔ علماء کو فلمی کہانی، منظر نامہ یا مکالموں سے کیا لینا دینا ۔ اکثر پورا منظر سننے سے پہلے علماء اعتراضات شروع کردیتے۔ کاردار میاں بیچ میں کہتے
’ ’ جناب! پہلے مکمل سین تو سن لیجیے، پھر اعتراض کیجیے گا۔‘‘
مجروح سلطان پوری فلم کے گیت سناتے تو مشاعرے کا ماحول پیداہوجاتا۔ سبحان اللہ۔۔سبحان اللہ کا شور بلند ہوتا تو کاردار میاں پریشان ہوکر کہتے۔
’’ حضرت! آپ مشاعرہ سننے نہیں آئے ۔ آپ کہانی سنیئے۔‘‘
جیسے تیسے یہ مرحلہ ختم ہوتا تو اسٹوڈیو کے دورازے پر وہی ہنگامے۔ چوکی دار کسی عالم سے کہتا کہ پگڑی اتار کر جائیے ۔،کسی عالم دین کے انگرکھے کو اتروانے کی ضد کرتا۔
ان واقعات کے بعد کاردار میاں نے گیٹ پر ایک ایسے شخص کو تعینات کردیا جو مہمانوں کو پہچانتا تھا۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
نوشاد علی لکھنوی - جہاں کی رت بدل گئی
خودنوشت -تبصرہ و تجزیہ-حصہ دوم

۷مجھے فلموں کے مرکزی خیال کیسے سوجھے، اس پر روشنی ڈالتا ہوں۔ فلم میلہ کے بارے میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔ بابل کی کہانی کا مرکزی خیال مجھے بچپن میں پڑوس میں رہنے والے ایک کوچوان کی جوان بیٹی (جو گونگی اور بہری تھی) سے ملا تھا۔ یہ بچی محلے کی کسی بھی شادی میں جاتی اور دلہن کو دیکھتی تو بہت خوش ہوتی۔ اور وہاں سے آکر اشاروں میں اپنے باپ سے کہتی ’’ مجھے دلہن کب بناؤں گے ‘‘
باپ اپنی بچی کی یہ فطری خواہش سن کر رو پڑتا ۔ وہ اکثر پڑوسیوں سے کہتا ’’ اب اس پگلی کو کیسے سمجھاؤں کہ اس سے شادی کون کرے گا۔‘‘
فلم بابل کا کلائمکس اس لڑکی کی زندگی سے ہی سے لیا گیا تھا۔جب یہ گونگی بہری لڑکی شادی نہ ہونے کے غم اور دلہن نہ بننے کے دکھ میں بستر مرگ پر پڑی تھی تو محلے کے ایک نوجوان نے لڑکی کے باپ سے کہا تھا : ’’ چاچا کیوں روتے ہو ؟ میں تمہاری بیٹی سے شادی کروں گا ۔‘‘
اس لڑکے نے لڑکی کو بستر مرگ پر دلہن بنایا تھا اور لڑکی اسی دوران مر گئی تھی۔
فلم بابل کا کلائمکس بھی یہی تھا!
۸کے آصف (فلمساز، ہدایتکار و مصنف مغل اعظم) کی ہر فلم کی شوٹنگ کے دوران لوگوں کی لائن لگی رہتی تھی۔ہر شخص کام کی تلاش میں ہوتا اور اپنی پریشانیاں کا اظہار کرتا۔ آصف صاحب ہر شخص کو میک اپ کراتے اور سیٹ پر کھڑا کردیتے۔ ایسے لوگوں کو روزانہ معاوضہ ملتا رہتا اور زندگی کی گاڑی چلتی رہتی۔ ایک روز ہم دفتر میں بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ ایک ادھیڑ عمر جونئیر آرٹسٹ کمرے میں داخل ہوا اور بیٹھتے ہی رونے لگا۔ ہم دونوں پریشان ہوگئے کہ اس نے رونا کیوں شروع کردیا۔ آصف صاحب نے اس سے پوچھا ۔ : ’’ ارے روتا کیوں ہے ‘‘۔۔۔
جونیئر آرٹسٹ نے جواب دیا :
’’ دو روز بعد میری بچی کی بارات آنے والی ہے۔ میں نے اپنے رشتے دار کے پاس اس مقصد کے لیے پیسے جمع کرا رکھے تھے ۔وہ پیسے کھا گیا۔ اب میری عزت کا سوال ہے۔ بیٹی کی شادی کیسے کروں گا۔‘‘
آصف صاحب نے اس کی بات سنی۔اس کے لیے چائے اور بسکٹ منگائے۔ ’’ مرد ہوکر روتا ہے، بتا کتنے پیسے چاہیں ‘‘
اس نے جواب دیا: ’’ آصف صاحب ، کم از کم دس ہزار میں کام بنے گا۔‘‘
آصف صاحب نے اپنا کوٹ منگوایا۔ اسے اپنے کندھے پر رکھا اور جونیئر آرٹسٹ کو ساتھ لے کر ایک سندھی فنانسر کے پاس گئے۔ ہنڈی پر دس پزار روپے لیے اور اور یہ کہہ کر آرٹسٹ کے حوالے کیے : ’’ یہ تیری بچی کی شادی پر میرا تحفہ ہے، قرض نہیں ہے۔‘‘
جونیئر آرٹسٹ پیسے ملنے کے بعد آصف صاحب سے لپٹ کر رونے لگا ۔ کہنے لاگ ’’ آصف صاحب! آپ تو دیوتاسمان ہیں۔‘‘
۹مینا کماری مرحومہ نے فلم پاکیزہ دیکھنے کے بعد میری ترتیب دی ہوئی پس منظر موسیقی کی تعریف میرے غریب خانے پر آکر کی تھی۔ ان دنوں مینا بہت بیمار تھیں۔او ر میرے گھر کے قریب لینڈ مارک بلڈنگ میں رہتی تھیں۔ایک شام میرے گھر آئیں اور کہنے لگیں: ’’ نوشاد صاحب! میں رات بھر جاگتی ہوں اس خوف سے کہ دن نکلے گا اور دن اس کشمکش میں گزرتا ہے کہ اب اندھیرا ہونے والاہے۔‘‘
مجھ سے مینا کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔میں نے کاغذ اٹھایا اور مینا کی کیفیت کو اس قطعہ میں سمو دیا۔:
دیکھ سورج افق میں ڈوب گیا
دھوپ اک سر سے تیرے اور ڈھلی
ایک دن الجھنوں کا اور گیا
اک کڑی زندگی کی اور کٹی
مینا کماری نے یہ قطعہ بار بار پڑھا اور زار و قطار رونے لگیں ۔

۱۰احمد بھائی کھتری بمبئی میں رہتے ہیں۔ بڑے بزنس مین ہیں۔ان کا چھوٹا بیٹا پیدائشی طورپر گونگا بہرا تھا۔ عمر مشکل سے چار پانچ سال ہوگی۔ احمد بھائی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک عجیب و غریب بات بتائی۔انہوں نے کہا ’’ نوشاد صاحب، آپ کی فلم ساتھی کے ایل پی ریکارڈ میں ایک گیت ہے جس کے بول ہیں:
آنکھیں کھلی تھیں آئے تھے وہ بھی نظر مجھے
پھر کیا ہوا نہیں ہے کچھ اس کی خبر مجھے
میرا بچہ ہمیشہ بالکل خاموش اور گم صم رہتا ہے۔ ایک دن گھر پر ایل پی ریکارڈ بج رہا تھا۔ جب یہ گیت شروع ہوا تو بچے نے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ گیت ختم ہوا اور دوسرا گیت شروع ہوا تو بچہ رونے لگا۔ میں نے دوبارہ یہی گیت لگا دیا۔ جب جب یہ گیت بجتا ہے، بچہ بہت خوش نظر آتا ہے۔ جب گیت ختم ہوتا ہے تو بچہ رونے لگتا ہے۔ میں درجنوں کے حساب سے فلم ساتھی کے ایل پی ریکارڈ لا چکا ہوں اور ہر ریکارڈ کا وہ حصہ گھس گھس کر ختم ہوچکا ہے جہاں یہ گیت ہے۔‘‘
بعد میں یہ بچہ سخت بیمار ہو کر ہسپتال پہنچ گیا اور اور وہاں جاکر بے ہوش ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بچہ کوما میں چلا گیا ہے اور اب دوباری ہوش میں کبھی نہیں آئے گا۔ چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔ڈاکٹروں کے منہ سے ایسی بات سن کر احمد بھائی بچے کو گھر لے آئے۔تین چار روز سے مستقل بے ہوش بچے کو انہوں نے ریڈیو گرام کے سامنے لٹا دیا اور وہی گیت سنایا۔بچے نے آنکھیں کھولیں، ماں باپ کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور گیت ختم ہوا تو بچے نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔احمد بھائی نے اپنے بچے کی قبر پر جو کتبہ لگوایا اس پر اس گیت کا مکھڑا کندہ کرایا ۔بچے کی قبر بمبئی کے سونا پور قبرستان میں ہے۔

۶لکھنؤ کا سفر بہت عرصے بعد اختیار کیا تھا۔ اداس دل کے ساتھ لکھنؤ پہنچا۔ ہمارے گھر کے پڑوس میں ایک پنڈت جی رہتے تھے۔ پنڈت جی نے میری حالت دیکھی تو تو مجھ سے کہا: ’’ آج کل حضرت وارث علی شاہ کا عرس اور میلہ چل رہا ہے۔ وہاں ہو آؤ۔‘‘
میں دیوا شریف پہنچا تو کلکٹر صاحب اپنی کار لیے موجود تھے۔ میں کار کے ذریعے سفر کررہا تھا اور میرا بچپن میرا تعاقب کررہا تھا۔ بیتے دنوں کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔بچپن میں جس بانسری والے کی بانسری سنی تھی ، اس کی جگہ اس کا بیٹا بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔
’’ چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا ‘‘ غزل گانے والے استاد نصیر خان صاحب کی جگہ دوسرا گویا بیٹھا ہوا تھا۔ برگد کا پرانا درخت جوں کا توں اپنی جگہ کھڑا تھا۔ میں نے فاتحہ پڑھی اور اسی رات لکھنؤ واپس آگیا۔ جب میں غیر متوقع طور پر رات ہی کو واپس آگیا تو پنڈت جی کو بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے پنڈت جی کو بتایا کہ دیوا شریف کا میلہ تو وہی ہے ، مگر پرانے لوگوں کی جگہ نئی نسل آگئی ہے۔پنڈت جی نے میری بات سنی تو اپنے گاؤں کا واقعہ سنایا کہ ایک اسکول ٹیچر سزا کاٹ کر اپنے گاؤں آیا تو زمانہ بدلا ہوا پایا۔ یہ واقعہ سنا کر پنڈت جی نے مجھ سے کہا۔ ’’ بیٹے یہ دنیا میلہ ہی تو ہے ‘‘
یہاں سے فلم میلہ کی ابتدا ہوئی!
میں نے کہانی لکھی اور جے بی ایچ واڈیا کو سنائی ۔ انہوں نے کہانی پسند کی اور اسے بنانے کا وعدہ کیا۔ فلم میلہ بننی شروع ہوئی۔ کسی بزرگ شاعر کا ایک شعر میرے ذہن میں تھا:
دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز یہ کم نہ ہوں گے
چرچے یہی رہیں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے
میں نے شکیل بدایونی صاحب سے اسی مضمون پر یہ گیت:
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
لکھوایا ۔محمد رفیع کی آواز میں اسے ریکارڈ کیا۔
 
Top