ایک خود کش بمبار کی ارسال کردہ تحریر

قمراحمد

محفلین
ایک خود کش بمبار کی ارسال کردہ تحریر

روزن دیوار سے…عطا الحق قاسمی


آج کا کالم میرا نہیں، ایک مبینہ ”خودکش بمبار“ یا اس کے ساتھی کا ہے۔ یہ تحریر مجھے چار روز پیشتر موصول ہوئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ”خود کش بمبار“ کن حالات میں بنتے ہیں۔ اس تحریر کے آخر میں یہ الفاظ درج ہیں۔”آنے والے دس دنوں میں میرا بٹن دبنے والا ہے۔ میری یہ آپ بیتی میرے ”بٹن دبنے“ کے بعد قوم کو پڑھا دینا۔ کالم نویس صاحب کم از کم یہ کام تو کر دینا۔“ ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ وہ یہ درد ناک تحریر ایک ایسے باپ بلکہ ایسی ماں کی آنکھوں سے پڑیں جس کا لخت جگر معاشرتی ناانصافیوں کے نتیجے میں اپنے علاوہ ملک و قوم کو بھی موت کے منہ میں دھکیلنے پر تیار ہو جاتا ہے اور پھر اس صورتحال کے مداوا کے لئے وہ سب کچھ کریں جو آج تک نہیں کیاگیا۔ میں نے اس تحریر میں نہ کوئی لفظ حذف کیا ہے نہ اس میں کوئی اضافہ کیا ہے۔ یہ من و عن یہاں درج کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں۔ وہ بہت ہی تیز ہوشیار اور ہنسی مذاق کرنے والا تھا لوگ اس کی باتوں سے محظوظ ہوتے ۔ وہ پیار کرنے والا مذہب پرست اور وطن پرست تھا اس کی رگوں میں ایک غیرت مند باپ کا خون دوڑ رہا تھا وہ وطن سے محبت کو مذہب کی تعلیمات اور ایمان کا ”جزو لاینفق“ سمجھتا تھا اس کی ماں محترمہ نے اسے بنیادی اسلامی تعلیمات اپنی مقدس گود میں ہی یاد کروا دیں اس کے محنتی ماں اور باپ نے محنت مزدوری کرکے بمشکل اسے میٹرک تک تعلیم دلوائی وہ میٹرک کے بعد سرکار کا نوکر بننا چاہتا تھا اس مقصد کے لئے اس نے مختلف محکموں میں اپلائی کیا خصوصاً پولیس اور فوڈ کے محکمے اس کے پسندیدہ تھے وہ ان کرپٹ محکموں میں ایمانداری محنت لگن اور شرافت سے نام کمانا چاہتا تھا اس کی خواہش تھی کہ سرکاری نوکری ملنے کے بعد اوپن یونیورسٹی کے ذریعے تعلیم جاری رکھوں گا۔

عزت مآب ماں باپ نے جو ایم اے پاس کا خواب دیکھا اسے پورا کرنا چاہتا تھا اس کا دعویٰ تھا کہ اگر مجھے پولیس یا محکمہ خوراک میں سکیل 5 کی نوکری مل جائے تو انشا اللہ تعالیٰ میرے ساتھ کام کرنے والے دوسرے اہلکار مثالی انسان ہوں گے ان سے کرپشن بذریعہ کردار چھڑوا دوں گا وہ پولیس میں 3 بار، فوڈ میں 2 بار، تعلیم میں 2 بار ، ہیلتھ میں 4 بار ، بہبود آبادی میں ایک بار، سوشل سکیورٹی ایک بار، آبپاشی میں 2 بار قسمت آزمائی کر چکا تھا لیکن ہر بار سفارش نہ ہونے کی وجہ سے انٹرویومیں پاس ہونے کے باوجود ”سرکاری اعتماد“ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ پھر اس نے پرائیویٹ اداروں میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا تین چار ہزار تک وہ ملازمت کرتا رہا۔ یہ چار ہزار تنخواہ سے 18 سو ہوٹل 3 سو صابن تیل شیف وغیرہ پر خرچ کرتا اور 18 سو یا دو ہزار وہ منتھلی گاؤں بھیجتا اس نے رہائش پارکوں میں رکھی ہوئی تھی اس 18 سو میں اس کا بوڑھا بیمار باپ اس کی والدہ محترمہ اس کی 2 بہنیں اور چار چھوٹے بھائی بمشکل گزارہ کرتے وہ ہر وقت پریشان رہتا تھا وہ اپنے خاندان اور محلے میں غربت ختم کرنا چاہتا تھا اس کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ تھا وہ اخبارات کے اداریوں کا رسیا تھا اس نے والدہ محترمہ کی شدید خواہش کو پورا کرنے کے لئے (کاش میرا بیٹا بھی سرکاری ملازم ہو) مختلف اخبارات کے کالم نویسوں کے بڑی مشکل سے نمبر حاصل کئے ان سے ملاقاتیں کیں ان سے نوکری کی درخواستیں کی کیونکہ اسے یقین تھا کہ یہ لوگ جو انسانی ہمدردی اور حب الوطنی پر مضمون لکھتے ہیں یہ میرے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے وہ کہتاتھا کہ سر آپ کی ایک فون کال میری زندگی برباد ہونے سے بچا سکتی ہے لیکن یہاں بھی اسے مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا دن بدن اسے امیروں اور امیرزادوں سے نفرت ہونے لگی کیونکہ وہ ان لوگوں کو اپنے محلے اور پورے وطن کے غربا کا مجرم سمجھتا تھا وہ برملا کہتا تھا کہ داخلی و خارجی پالیسیوں میں یہ بڑے لوگ محرک ہوتے ہیں جبکہ غریبوں سے تو ووٹ بھی دھونس دھمکی اور ڈنڈے سے لئے جاتے ہیں وہ وطن سے نہیں یہاں کے نظام پر برہم تھا وہ گھر سے میلوں دور رہنے کی وجہ سے گھر کے لئے پریشان رہتا تھا۔

اسے معلوم تھا کہ خدا ناخواستہ میرے گھر پہ کوئی قیامت گزر گئی تو میرے ہی وطن میں مجھے انصاف خریدنا پڑے گا وہ شدید ذہنی ٹینشن میں رہتا تھا۔ آخرکار وہ لمحہ بھی آن پہنچا جو اس کے لئے زندگی کو نیا موڑ دینے کا موجب بنا۔ ہوا کچھ یوں کہ وہ اپنی عادات اور اللہ کی رحمت و نعمت کی وجہ سے مسجد میں نماز پڑھنے گیا نماز کے بعد جب وہ مسجد سے واپس آنے لگا تو کسی نے اس کے پچاس روپے والے جوتے اٹھا لئے وہ بہت پریشان ہوا لوگوں نے اسے دوسرے کسی آدمی کے جوتے پہننے کامشورہ دیا مگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا وہ ننگے پاؤں اپنی منزل کی طرف چل دیا تھوڑی دور alto کار میں موجود تین لڑکیوں نے اس پر کیچڑ پھینک دیا اس نے احتجاج کیا لڑکیاں جو شیشے میں دیکھتی جا رہی تھیں واپس آئیں اور اسے برا بھلا کہنے کے ساتھ اوقات میں رہنے کی تلقین کی ورنہ کہا اس ورنہ نے اسے کاروں پجاروں والوں کا باغی بنا دیا۔ وہ شدید غصے میں ہوٹل پر گیا کھانا کھا رہا تھا کہ اسے ایک آدمی پاؤں سے لے کر سر کے بالوں تک بڑی غور اور محبت سے دیکھ رہا تھا اس آدمی نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا وہ چلاگیا اس آدمی نے اس سے ساری معلومات لیں اس کی تعلیم میٹرک نوکری خاندان ذات قبیلہ گاؤں تحصیل ضلع اور جوتے چوری ہونے تک باتیں ہوئیں اس آدمی نے اسے اپنی طرف سے ہمدردی کا یقین دلایا اور اس کے ساتھ مکمل تعاون کی حامی بھری۔

اس آدمی نے کہا کہ بیٹا مجھے تمہاری حالت پہ بہت ترس آیا ہے لہٰذا میں اپنے ”باس“ سے بات کرکے آپ کو کل اسی ہوٹل پر اسی وقت بتا دوں گا ہمارے محکمے میں کوئی تعلیم، عمر، ہنر یا میرٹ کی پابندی نہیں ہے ہم بھی اس نظام سے تنگ ہیں بہرحال دوسرے دن اسی وقت وہ ”ہمدردی“ آدمی اس کا انتظار کر رہا تھا بس وہ لے کر ایک پارک میں گیااپنے ”باس“ سے ملایا ”باس“ نے اس کے ساتھ ایسی ”گفتگو“ کی کہ وہ اس کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور آخر میں وہ چار پانچ ”میٹنگز“ کے بعد اس وطن عزیز میں فرسودہ ا ور بے رحم نظام کے خلاف کمر بستہ ہو نے کے لئے تیار ہوگیا ”باس“ نے اسے اپنے سے ”سینئر باس“ جس نے نقاب پہن رکھا تھا سے ملاقات کروائی ”سینئر باس“ نے اسے شاباش دی اور دوسری نقاب پوش پارٹی سے اس کا تعارف کروایا اور اس کی جھوٹی تعریفیں کیں پھر اسے 50 ہزار نقد دے کر اور 14لاکھ کا وعدہ کرکے گاؤں گھر والوں سے ملنے کے لئے بھیج دیا وہ چلا گیا۔ اس نے گاؤں میں اپنے ایک بااعتماد حالات پر نظر رکھنے والے آدمی سے تمام بات کہہ دی لیکن ہمدردی حاصل نہ کر سکا اور خاموش رہو کا جواب سن کر خاموش اور مایوس ہوگیا وہ چاہتا تھا کہ جس نیٹ ورک سے میں واقف ہو چکا ہوں اسے پکڑوا دوں وہ ان ”باس“ اور ”سینئر باس“ سے غداری کرکے وطن سے عہد وفا داری نبھانا چاہتا تھا ۔ وہ جلدی گاڑی سے واپس شہر آگیا ”باس“ اور ”سینئر باس“ سے ملاقاتیں جاری رہیں ان لوگوں کا وہ بھرپور اعتماد حاصل کر چکا تھا

ایک رات خواب میں اس نے اپنی والدہ ماجدہ کا دیدار کیا اس کی والدہ صاحبہ اسے پیار کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے بیٹاجاؤ مزدوری کرو گھر میں آٹا نہیں، تیرے باپ کی دوائی نہیں، تیری بہنیں بھوکی سوئی ہوئی ہیں فوراً اٹھ بیٹھا۔ اس نے ایک دوست کے دفتر میں سے ایک کالم نویس کے گھر فون کیا اس سے ملاقات کا وقت لیا پھر ملاقات کی اور ”سینئر باس“ وغیرہ کے تمام نیٹ ورک سے آگاہ کیا اور اپنی امان اور مددچاہی وہ چاہتا تھا کہ محترم کالم نویس ایجنسیوں کو اس ”مکروہ“ نیٹ ورک کے بارے میں بتائیں اور بدلے میں مجھے سرکار کا نوکر لگوادیں لیکن کالم نویس صاحب نے دامن بچاؤ کی تلقین کی اس کے پاس وقت بہت کم تھا وہ نہ تو خود مرنا چاہتا تھا اور نہ ہی کسی کو مارنا چاہتا تھا یہ تو اس کے معاشی حالات اور گھٹیا نظام کی قاتل پالیسیاں اسے اس طرف لے جا رہی تھیں آخر کار ”باس“ اور ”سینئرباس“ نے اسے اتنا مقروض اور مجبور کر دیا کہ وہ یہ سوچ کر کے میری جان کے بدلے میرے خاندان کی زندگی سنور جائے تو بہتر ہے اٹھا اور ”باس“ کی ”ہدایت“ کے مطابق اپنی ہی عوام اپنے جیسے غریب مزدور حالات کے ستائے انصاف و معاش کی تلاش میں پھرتے پاکستانی مسلمان بھائیوں میں گھس گیا اور ہاتھ بلند کیا سر کے بال سنوارے ہی تھے کہ اپنی جگہ پہ ”ہوشیار و تیار کھڑے باس“ نے ریموٹ کا بٹن دبا دیااور وہ سیدھا نان سٹاپ ”جنت“ میں چلا گیا۔

کیسا ”محکمہ“ ہے کہ خاندان کو بھی امیر کر دیا اور اپنے ”اہلکار“ کو بھی جنت میں بنگلہ الاٹ کیالیکن افسوس کہ وہ آخر دم تک جینے اور رحم کی بھیک مانگتا رہا اور کسی نے اس کے ساتھ تعاون نہ کیا وہ جینے کی حسرت لئے مرگیا لوگوں نے اسے برا بھلا کہا اسے خودکش بمبار جیسے بدنام زمانہ لقب سے یاد کیا جانے لگا اس کے کئے گئے دھماکے کے انکوائری کمیشن بنے شہید یا جاں بحق ہونے والوں کے لئے لاکھوں روپے کے نقد اعلانات کئے گئے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے جیسے پرانے نعرے لارے دہرائے گئے کالم نویسوں کو لکھنے کے لئے مضمون مل گئے وہ اسے نوکری تو نہ دلوا سکے اس کے دیئے گئے ”عنوان“ پہ لکھ لکھ کر اپنی نوکریاں پکی کرنے لگے مگر ہائے افسوس کہ یہ کوئی نہیں لکھے گا کہ اس خودکش بمبار کو زندہ رہنے کے لئے سرکاریا کسی پرائیویٹ ادارے نے 8,7 ہزار کی نوکری نہیں دی لیکن اسے مرنے کے لئے تمام سہولیات جو لاکھوں روپے میں تھیں فراہم کی گئیں جن میں انکوائری کمیشن کے اخراجات جاں بحق ہونے والوں کے لئے لاکھوں روپے زخمی ہونے والوں کے لئے ہزاروں روپے وغیرہ وغیرہ آخر ہم کب وطن کے بیٹوں کو وطن عزیز پر قربان ہونے کے لئے تیار کریں گے۔ محترم قاسمی صاحب دشمن کے ایجنٹوں کی تھوڑی سی برین واش بریفنگ حالات کی وجہ سے وفادار کو غدار بننے پر مجبور کردیتی ہے۔ میری یہ آپ بیتی میرے ”بٹن دبنے“ کے بعد قوم کو پڑھا دینا کالم نویس صاحب کم از کم یہ کام تو کر دینا۔ آنے والے دس دنوں میں میرا بٹن دبنے والا ہے۔
 

arifkarim

معطل
بڑی فکرانگیز اور قابل غور تحریر ہے

بھائی یہ تو ایک معمول ہے اور ایک عرصہ سے ہو رہا ہے ہمارے وطن عزیز میں۔ ارباب اختیار والی بات پر بے اختیار ہنسی آگئی کہ انکو یہ سب آگاہ کرنے کی ہمیں‌کیا ضرورت ہے۔ کیا انکو خودنہیں پتا کہ ملک میں‌کیا ہو رہا ہے؟ اگر نہیں پتا تو وہ ارباب اختیار کیسے ہوئے؟
نیز ان تمام مسائل کی جڑ پیسا اور اسکا حل میرے دستخط میں ہیں! :)
 

طالوت

محفلین
یہی رونا میں بھی اپنی ایک تحریر میں ایک دوسرے انداز میں رو چکا ہوں ، مگر ہم بھرے پیٹوں کو اس طرف سوچنے کی فرصت کہاں ۔۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
واہ طالوت، آپکے دستخط سے مجھے جرمن سیاسی نازی بلیاں اور جرمن عوام چوہے لگ رہے ہیں:)
 

طالوت

محفلین
کچھ عرصے سے تو آپ متضاد کیفیات کا شکار ہو چلے ، مگر بات موضوع پر نہ رہے گی:) جرمن بلیاں تھیں اور نہ ان کے عوام چوہے ۔۔۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو کچھ اوراق غیر جانبدار بھی ہونے چاہیں ۔۔
وسلام
 
Top