ایک دوست شاعر کی غزل برائے تبصرہ

سر الف عین براہ مہربانی اس غزل پر تبصرہ فرما دیں ۔۔۔

خُدا کی مرضی بول کر مجھ سے بچھڑ گیا
اِک شخص خُدا کے نام پر فریب کر گیا

جو مجھ کو دے رہا تھا خُدائی کا واسطہ
مطلب نِکل گیا تو حق سے مُکر گیا

مجھ کو بتا رہا تھا بہتان ہے گناہ
جاتے ہوئے مجھی پر بہتان دھر گیا

جھوٹ بول کر وہ عزت بچا رہے ہیں
شیخ جی کا جانے ایماں کدھر گیا

اس حادثے میں آخر سب کا بھلا ہوا
ہم سے فقیر اجڑے زمانہ سدھر گیا

میں نے بڑوں کے سامنے محبت کی بات کی
نفرت سے سب ہی بولے کہ لڑکا بِگڑ گیا

تیری بزم سے نکلا تو رستہ کھو گیا
مرتا میں کیا نا کرتا سوئے دہر گیا

راستے سے واقف ہرگز نہیں تھا واصف
جہاں خامشی بسی تھی میں پھر ادھر گیا

محمد واصف اسلم

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
اپنے دوست سے بحر کا پوچھ لیں، یہ خود ساختہ بحر معلوم ہوتی ہے۔ آسانی سے مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/فاعلات کی جا سکتی ہے جس میں کچھ مصرع پہلے سے ہی ہیں جیسے
جو مجھ کو دے رہا تھا خُدائی کا واسطہ
ڑ پر ختم ہونے والے قوافی درست نہیں
 
اپنے دوست سے بحر کا پوچھ لیں، یہ خود ساختہ بحر معلوم ہوتی ہے۔ آسانی سے مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/فاعلات کی جا سکتی ہے جس میں کچھ مصرع پہلے سے ہی ہیں جیسے
جو مجھ کو دے رہا تھا خُدائی کا واسطہ
ڑ پر ختم ہونے والے قوافی درست نہیں
دوست سے قوافی پر بحث ہو رہی تھی مگر وہ ماننے کو تیار نہ تھا۔۔۔ بحر کا مجھے بھی کوئی اتا پتا نہیں چلا۔۔۔
 
Top