ایک دو غزلہ اصلاح، تبصرہ، تنقید کی غرض سے،، سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، اب دیکھو محو خواب ہیں ہم''

سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، اب دیکھو محو خواب ہیں ہم​
کچھ تُم کو خبر بھی ہے جاناں ملنے کو بہت بے تاب ہیں ہم​
چھیڑا ہے جو تُم نے سہہ تارا، انگلی میں پہن لیتے ہم کو​
یہ لمس تمنا ہے اپنی، یوں سمجھو کہ مضراب ہیں ہم​
جو چاہو گے بن جائیں گے، تُم موم کا پیکر ہی سمجھو​
بس ہو جائیں مقبول تُجھے، خود سر سے پا ایجاب ہیں ہم​
رُکنے کے نہیں جب چل دیں تو، پربت سے بھی ہم ٹکرا جائیں​
ٹہرے کو نہ ہلکا تُم جانو کہ فطرت میں سیلاب ہیں ہم​
سمجھو گے تو اظہر جانو گے، جب جان لیا تو مانو گے​
مانا کہ نہیں نایاب مگر، ایسا ہے سجن کمیاب ہیں ہم​
حاسد لوگو کچھ شرم کرو، اک آگ ہو تُم اور آب ہیں ہم​
ہم تُم کو بجھا دیں گے اک دن، تُم چنگاری، سیلاب ہیں ہم​
ہم بول بڑا بھی مت بولیں، کافر سے تو بہتر ہیں پھر بھی​
ناپا ک نہیں ہم رہ سکتے، جس حالت میں ہوں طاب ہیں ہم​
جب فرصت ہو تو آ جانا، کچھ کہہ لیں گے، کچھ رو لیں گے​
ہے آس بھڑاس نکلنے کی، کچھ کہنے کو بیتاب ہیں ہم​
طائر کی طرح ہر موسم میں، کیوں ہجرت کرنا پڑتی ہے​
کیوں ٹک کے نہیں ہم رہ سکتے، کیا قسمت میں سیماب ہیں ہم​
تُم کچھ بھی کرو، ناممکن ہے، ہم بات کریں گے حق کی ہی​
جو سیدھا رستہ دکھلائیں، ایسے اظہر اصحاب ہیں ہم​
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب اظہر۔

سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، اب دیکھو محو خواب ہیں ہم​
کچھ تُم کو خبر بھی ہے جاناں ملنے کو بہت بے تاب ہیں ہم​
÷÷جاناں بھرتی کا لفظ ہے، اس کو یون کہا جائے​
سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، دیکھو پھرمحو خواب ہیں ہم​
کچھ تُم کو خبر بھی ہو جائے، ملنے کو بہت بے تاب ہیں ہم​
ویسے دوسرے مصرع میں ’کاش‘ آ سکے تو اچھا ہو۔​
چھیڑا ہے جو تُم نے سہہ تارا، انگلی میں پہن لیتے ہم کو​
یہ لمس تمنا ہے اپنی، یوں سمجھو کہ مضراب ہیں ہم​
÷÷اک تارہ تو سنا ہے، سہ تارا نہیں سنا!!​
’کہ‘ دو حرفی، ہجائے طویل آ رہا ہے، ’اک مضراب‘ کر دو۔​
جو چاہو گے بن جائیں گے، تُم موم کا پیکر ہی سمجھو​
بس ہو جائیں مقبول تُجھے، خود سر سے پا ایجاب ہیں ہم​
÷÷ایجاب کے مقابل قبول کا محل ہے۔ ’گے قبول‘ ہو سکتا ہے مقبول کی جگہ۔​
رُکنے کے نہیں جب چل دیں تو، پربت سے بھی ہم ٹکرا جائیں​
ٹہرے کو نہ ہلکا تُم جانو کہ فطرت میں سیلاب ہیں ہم​
÷کچھ روانی بہتر ہو سکتی ہے، اور ’کہ‘ کا سقم بھی دور ہو سکتا ہے۔​
رُکنے کے نہیں جب ہم چل دیں، پربت سے بھی ٹکرا جائیں​
اس رکنے کو مت کم جانو، فطرت میں اک سیلاب ہیں ہم​
سمجھو گے تو اظہر جانو گے، جب جان لیا تو مانو گے​
مانا کہ نہیں نایاب مگر، ایسا ہے سجن کمیاب ہیں ہم​
’سجن‘ پسند نہیں آیا۔ ’بس یوں سمجھو کمیاب ہیں ہم‘ کیا جا سکتا ہے​
حاسد لوگو کچھ شرم کرو، اک آگ ہو تُم اور آب ہیں ہم​
ہم تُم کو بجھا دیں گے اک دن، تُم چنگاری، سیلاب ہیں ہم​
÷درست​
ہم بول بڑا بھی مت بولیں، کافر سے تو بہتر ہیں پھر بھی​
ناپا ک نہیں ہم رہ سکتے، جس حالت میں ہوں طاب ہیں ہم​
÷÷بول اور ناپاکی کا تعلق؟​
جب فرصت ہو تو آ جانا، کچھ کہہ لیں گے، کچھ رو لیں گے​
ہے آس بھڑاس نکلنے کی، کچھ کہنے کو بیتاب ہیں ہم​
÷÷آس بھڑاس نکالنے کی تم کو ہے کہ بھڑاس کو نکلنے کی آس ہے؟​
ہے آس بھڑاس نکل جائے، کچھ کہنے کو بیتاب ہیں ہم​
طائر کی طرح ہر موسم میں، کیوں ہجرت کرنا پڑتی ہے​
کیوں ٹک کے نہیں ہم رہ سکتے، کیا قسمت میں سیماب ہیں ہم​
÷÷’ٹک کے‘ بدلنے کی ضرورت ہے اور ’کیا فطرت سے سیماب ہیں ہم‘ بہتر ہو گا۔​
تُم کچھ بھی کرو، ناممکن ہے، ہم بات کریں گے حق کی ہی​
جو سیدھا رستہ دکھلائیں، ایسے اظہر اصحاب ہیں ہم​
÷÷اصحاب کا قافیہ عجیب لگ رہا ہے، یوں بھی درست یوں ہوگا کہ ایسے اصحاب میں شامل ہیں، ’ہم خود اصحاب ہیں‘ نہیں۔​
 
بہت خوب اظہر۔

سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، اب دیکھو محو خواب ہیں ہم​
کچھ تُم کو خبر بھی ہے جاناں ملنے کو بہت بے تاب ہیں ہم​
÷÷جاناں بھرتی کا لفظ ہے، اس کو یون کہا جائے​
سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، دیکھو پھرمحو خواب ہیں ہم​
کچھ تُم کو خبر بھی ہو جائے، ملنے کو بہت بے تاب ہیں ہم​
ویسے دوسرے مصرع میں ’کاش‘ آ سکے تو اچھا ہو۔​

چھیڑا ہے جو تُم نے سہہ تارا، انگلی میں پہن لیتے ہم کو​
یہ لمس تمنا ہے اپنی، یوں سمجھو کہ مضراب ہیں ہم​
÷÷اک تارہ تو سنا ہے، سہ تارا نہیں سنا!!​
’کہ‘ دو حرفی، ہجائے طویل آ رہا ہے، ’اک مضراب‘ کر دو۔​
جو چاہو گے بن جائیں گے، تُم موم کا پیکر ہی سمجھو​
بس ہو جائیں مقبول تُجھے، خود سر سے پا ایجاب ہیں ہم​
÷÷ایجاب کے مقابل قبول کا محل ہے۔ ’گے قبول‘ ہو سکتا ہے مقبول کی جگہ۔​
رُکنے کے نہیں جب چل دیں تو، پربت سے بھی ہم ٹکرا جائیں​
ٹہرے کو نہ ہلکا تُم جانو کہ فطرت میں سیلاب ہیں ہم​
÷کچھ روانی بہتر ہو سکتی ہے، اور ’کہ‘ کا سقم بھی دور ہو سکتا ہے۔​
رُکنے کے نہیں جب ہم چل دیں، پربت سے بھی ٹکرا جائیں​
اس رکنے کو مت کم جانو، فطرت میں اک سیلاب ہیں ہم​

سمجھو گے تو اظہر جانو گے، جب جان لیا تو مانو گے​
مانا کہ نہیں نایاب مگر، ایسا ہے سجن کمیاب ہیں ہم​
’سجن‘ پسند نہیں آیا۔ ’بس یوں سمجھو کمیاب ہیں ہم‘ کیا جا سکتا ہے​
حاسد لوگو کچھ شرم کرو، اک آگ ہو تُم اور آب ہیں ہم​
ہم تُم کو بجھا دیں گے اک دن، تُم چنگاری، سیلاب ہیں ہم​
÷درست​
ہم بول بڑا بھی مت بولیں، کافر سے تو بہتر ہیں پھر بھی​
ناپا ک نہیں ہم رہ سکتے، جس حالت میں ہوں طاب ہیں ہم​
÷÷بول اور ناپاکی کا تعلق؟​
جب فرصت ہو تو آ جانا، کچھ کہہ لیں گے، کچھ رو لیں گے​
ہے آس بھڑاس نکلنے کی، کچھ کہنے کو بیتاب ہیں ہم​
÷÷آس بھڑاس نکالنے کی تم کو ہے کہ بھڑاس کو نکلنے کی آس ہے؟​
ہے آس بھڑاس نکل جائے، کچھ کہنے کو بیتاب ہیں ہم​
طائر کی طرح ہر موسم میں، کیوں ہجرت کرنا پڑتی ہے​
کیوں ٹک کے نہیں ہم رہ سکتے، کیا قسمت میں سیماب ہیں ہم​
÷÷’ٹک کے‘ بدلنے کی ضرورت ہے اور ’کیا فطرت سے سیماب ہیں ہم‘ بہتر ہو گا۔​
تُم کچھ بھی کرو، ناممکن ہے، ہم بات کریں گے حق کی ہی​
جو سیدھا رستہ دکھلائیں، ایسے اظہر اصحاب ہیں ہم​
÷÷اصحاب کا قافیہ عجیب لگ رہا ہے، یوں بھی درست یوں ہوگا کہ ایسے اصحاب میں شامل ہیں، ’ہم خود اصحاب ہیں‘ نہیں۔​

لیجئے اُستاد محترم دو غزلہ ایک غزل میں تبدیل کرتے ہوئے، ذو مطلع کر دیا ہے ۔ سہہ تارا سے ہی بعد میں وہ آلہ موسیقی بنا جسے ہم آج کل ستار کہتے ہیں جناب، اس میں تین تار ہوا کرتے تھے

سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، دیکھو پھر محو خواب ہیں ہم
اے کاش کہ آگاہ ہو جاو، ملنے کو بہت بے تاب ہیں ہم
حاسد لوگو کچھ شرم کرو، اک آگ ہو تُم اور آب ہیں ہم​
ہم تُم کو بجھا دیں گے اک دن، تُم چنگاری، سیلاب ہیں ہم​
چھیڑا ہے جو تُم نے سہہ تارا، انگلی میں پہن لیتے ہم کو​
یہ لمس تمنا ہے اپنی، یوں سمجھو اک مضراب ہیں ہم
جو چاہو گے بن جائیں گے، تُم موم کا پیکر ہی سمجھو​
تُو کر لے بس تسلیم ہمیں، خود سر سے پا ایجاب ہیں ہم
رُکنے کے نہیں جب ہم چل دیں، پربت سے بھی ہم ٹکرا جائیں​
اس رُکنے کو مت کم جانو، فطرت میں اک سیلاب ہیں ہم
جب فرصت ہو تو آ جانا، کچھ کہہ لیں گے، کچھ رو لیں گے​
ہے آس بھڑاس نکل جائے، کچھ کہنے کو بیتاب ہیں ہم
طائر کی طرح ہر موسم میں، کیوں ہجرت کرنا پڑتی ہے​
کیوں ایک ٹھکانا مشکل ہے، کیا فطرت میں سیماب ہیں ہم
سمجھو گے تو اظہر جانو گے، جب جان لیا تو مانو گے​
مانا کہ نہیں نایاب مگر، بس یوں سمجھو کمیاب ہیں ہم
 

الف عین

لائبریرین
اب کافی بتر ہے، بس مطلع میں اب نئی غلطی ہے، آگاہ مکمل نہیں وزن میں آ رہا ہے۔ اس کو یوں کر دو
اے کاش پتہ ہو جائے تمہیں
 
اب کافی بتر ہے، بس مطلع میں اب نئی غلطی ہے، آگاہ مکمل نہیں وزن میں آ رہا ہے۔ اس کو یوں کر دو
اے کاش پتہ ہو جائے تمہیں

جی بہت بہتر اُستاد محترم
سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، دیکھو پھر محو خواب ہیں ہم​
اے کاش پتہ ہو جائے تُمہیں، ملنے کو بہت بے تاب ہیں ہم​
حاسد لوگو کچھ شرم کرو، اک آگ ہو تُم اور آب ہیں ہم​
ہم تُم کو بجھا دیں گے اک دن، تُم چنگاری، سیلاب ہیں ہم​
چھیڑا ہے جو تُم نے سہہ تارا، انگلی میں پہن لیتے ہم کو​
یہ لمس تمنا ہے اپنی، یوں سمجھو اک مضراب ہیں ہم​
جو چاہو گے بن جائیں گے، تُم موم کا پیکر ہی سمجھو​
تُو کر لے بس تسلیم ہمیں، خود سر سے پا ایجاب ہیں ہم​
رُکنے کے نہیں جب ہم چل دیں، پربت سے بھی ہم ٹکرا جائیں​
اس رُکنے کو مت کم جانو، فطرت میں اک سیلاب ہیں ہم​
جب فرصت ہو تو آ جانا، کچھ کہہ لیں گے، کچھ رو لیں گے​
ہے آس بھڑاس نکل جائے، کچھ کہنے کو بیتاب ہیں ہم​
طائر کی طرح ہر موسم میں، کیوں ہجرت کرنا پڑتی ہے​
کیوں ایک ٹھکانا مشکل ہے، کیا فطرت میں سیماب ہیں ہم​
سمجھو گے تو اظہر جانو گے، جب جان لیا تو مانو گے​
مانا کہ نہیں نایاب مگر، بس یوں سمجھو کمیاب ہیں ہم​
 
Top