محمد اظہر نذیر
محفلین
سپنوں میں جو اکثر آتے ہو، اب دیکھو محو خواب ہیں ہم
کچھ تُم کو خبر بھی ہے جاناں ملنے کو بہت بے تاب ہیں ہم
چھیڑا ہے جو تُم نے سہہ تارا، انگلی میں پہن لیتے ہم کو
یہ لمس تمنا ہے اپنی، یوں سمجھو کہ مضراب ہیں ہم
جو چاہو گے بن جائیں گے، تُم موم کا پیکر ہی سمجھو
بس ہو جائیں مقبول تُجھے، خود سر سے پا ایجاب ہیں ہم
رُکنے کے نہیں جب چل دیں تو، پربت سے بھی ہم ٹکرا جائیں
ٹہرے کو نہ ہلکا تُم جانو کہ فطرت میں سیلاب ہیں ہم
سمجھو گے تو اظہر جانو گے، جب جان لیا تو مانو گے
مانا کہ نہیں نایاب مگر، ایسا ہے سجن کمیاب ہیں ہم
حاسد لوگو کچھ شرم کرو، اک آگ ہو تُم اور آب ہیں ہم
ہم تُم کو بجھا دیں گے اک دن، تُم چنگاری، سیلاب ہیں ہم
ہم بول بڑا بھی مت بولیں، کافر سے تو بہتر ہیں پھر بھی
ناپا ک نہیں ہم رہ سکتے، جس حالت میں ہوں طاب ہیں ہم
جب فرصت ہو تو آ جانا، کچھ کہہ لیں گے، کچھ رو لیں گے
ہے آس بھڑاس نکلنے کی، کچھ کہنے کو بیتاب ہیں ہم
طائر کی طرح ہر موسم میں، کیوں ہجرت کرنا پڑتی ہے
کیوں ٹک کے نہیں ہم رہ سکتے، کیا قسمت میں سیماب ہیں ہم
تُم کچھ بھی کرو، ناممکن ہے، ہم بات کریں گے حق کی ہی
جو سیدھا رستہ دکھلائیں، ایسے اظہر اصحاب ہیں ہم