عبدالرحمن سید
محفلین
آج بابا کی درگاہ کی سیڑھیوں پر ایک کونے سے لگا ایک فقیر میلا سا پھٹا پرانا کمبل لپیٹے ھوئےبیٹھا، کچھ اپنی پرانی یادوں میں کھویا ھوا سوچوں میں گم تھا،!!!!!
اسکی پتھرائی ھوئی سی آنکھیں، سر کے بال میلے کچیلے کمبل کے پھٹے سوراخوں میں سے سرد ھوا کے جھونکوں میں ھلتے ھوئے دکھائی دے رھے تھے، اس کی داڑھی کچھ سفید کچھ کالے بالوں کے ساتھ بے ترتیبی سے بڑھی ھوئی مٹی میں اٹی ھوئی دکھائی دے رھی تھی،!!!!!!
اسے اپنا کوئی ھوش نہیں تھا، سامنے اسکے کئی چمکتے ھوئے سکے اور بکھرے ھوئے نوٹ پڑے تھے، لیکن اسے اس سے کوئی غرض نہیں لگتا تھا، کچھ آس پاس بیٹھے بچے بھی شاید ان سکوں اور نوٹوں کو اچکنے کے لئے موقع کے انتظار میں بیٹھے تھے،!!!!
آج کچھ زیادہ ھی ٹھنڈ محسوس ھورھی تھی، سرد ھوا کی سرسراتی ھوئی تھپیڑے اسے مزید کمبل میں سمٹنے کے لئے مجبور کررھے تھے، لیکن وہ اس کمبل میں اپنے آپ کو مکمل طور سے لپیٹنے میں ناکام نظر آرھا تھا،!!!!
وہ کون ھے پہلے تو کبھی کسی نے اسے یہاں نہیں دیکھا تھا، اور بھی کئی فقیر کٹورا ھاتھ میں لئے بھیک مانگتے ھوئے آوازیں نکالتے ھوئے آس پاس بیٹھے نظر آئے، لیکن نہ اس کے منہ سے کوئی آواز سنائی دی اور نہ ھی کوئی صدا، بس ایک خاموشی سی تھی، بس اس کے کبھی کبھی ھلنے جلنے سے اس کے سلامت ھونے کا گمان ھوتا تھا،!!!!
ایک کار سیڑھیوں کے آخری سطح کے پاس ایک کنارے پر رکی، کار کا دروازہ کھلا اس میں سے ایک بہت ھی خوبصورت دوشیزہ نفیس لباس زیب تن کئے نکلی، اور سیدھا اسی فقیر کے پاس رکی اور اس کے سامنے بیٹھ گئی، اسکی آنکھوں میں آنسوں کی ایک قطار سی بہہ رھی تھی،!!!!
اس دوشیزہ کے منہ سے ایک کپکپاتی ھوئی آواز سنائی دی،!!!!
شہزاد !!!!! میرےشہزاد،!!!!! ایک بار میری بات تو سن لو،!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہی شہزاد بھائی ھیں، جو کبھی تقریباً 10 سال پہلے ایک اسمارٹ خوبرو نوجوان ھوا کرتے تھے، ایک اچھی کمپنی میں اچھے عہدہ پر فائز تھے، ھمارے یہاں وہ اپنے بھائی اور بھابی کے ساتھ کبھی کبھی آیا کرتے، اور بہت ھی نفیس کپڑے پہننے کا شوق تھا، انکی شادی ابھی تک طے نہیں پائی تھی، یہ ھمارے دور کے رشتہ دار بھی تھے،!!!!!
میں ان دنوں میٹرک کا طالب علم تھا، اور شہزاد بھائی مجھ سے شاید 10 سال بڑے ھی ھونگے، وہ شروع شروع میں تو اپنے بھائی کے ساتھ ھی رھا کرتے تھے، لیکن کچھ ھی دنوں بعد انہوں نے کسی کے گھر میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا، جس کا دروازہ باھر کھلتا تھا، کمرے کے ساتھ باتھ روم کی سہولت موجود تھی، اور اس کمرے کی کھڑکی مالک مکان کے صحن میں ھی کھلتی تھی، جس کے شروع شروع میں کھولنے پر بالکل پابندی تھی،!!!!
میں بھی کبھی کبھی والدین کے ساتھ شہزاد کے بھائی اور بھابھی کے یہاں چلے جایا کرتا تھا، جہاں شہزاد بھائی بھی ھمارا سن کر آجایا کرتے، یہ معلومات بھی مجھے ان کے یہاں آنے جانے سے ھی جو ان کی آپس میں گفتگو کے دوران ھی معلوم ھوتی رھتی تھی، میری تو کوئی شہزاد سے کوئی خاص بات چیت نہیں تھی،!!!!! لیکن ان کے ساتھ بازار کا چکر لگا لئے کرتے،!!!!
شہزاد بھائی بہت اچھے تھے ان کے بھتیجے بھتیجیاں جو کہ بہت چھوٹے چھوٹے تھے، اور میرے بہن بھائی بھی ساتھ ھی ان کے ساتھ بازار یا پارک کا چکر لگا لیا کرتے،!!!!
شہزاد بھائی کے مکان مالک بہت سخت مزاج تھے، نیچے کے حصہ میں خود رھتے تھے اور اوپر کا حصہ بھی اپنے کسی رشتہ دار کو کرایہ پر دیا ھوا تھا، جس کی سیڑھیاں مکان مالک کے صحن سے ھی گزرتی تھیں، بہ بڑا دومنزلہ مکان تھا، شاید کوئی اچھی کمپنی میں کسی بڑی پوسٹ پر تھے، ایک اچھی کار بھی رکھی ھوئی تھی، جو صحن میں ھی پارک ھوتی تھی، گھر کے سامنے ڈبل سڑک تھی، اندر آنے کیلئے ایک بڑا اسٹیل کا گیٹ اور ایک چھوٹا گیٹ بھی تھا، اوپر جانے والی سیڑھیوں کے ساتھ ھی شہزاد بھائی کے کمرے کی کھڑی بھی تھی، جو کبھی نہیں کھلتی تھی،!!!! کیونکہ مکان مالک کی طرف سے کھڑکی کھولنے پر پابندی تھی، ان کے کمرے کادروازہ باھر گلی میں کھلتا تھا، اور شہزاد بھائی بس رات کو ھی وہاں سونے آتے تھے اور صبح ھوتے ھی اپنے کام پر نکل جاتے تھے، نوکری سے واپسی پر بھی وہ شام کو اپنے بھائی کے ھاں وقت گزارتے اور رات تک کھانے وغیرہ سے فارغ ھوکر ھی اپنے کمرے کی طرف چل دیتے جو وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ھی تھا،!!!!
اس علاقے میں شہزاد بھائی نے سب کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے ھوئے تھے سب ان کی بہت عزت بھی کرتے تھے، ان کیلئے دو تین اچھے رشتے بھی آئے لیکن انہوں نے فی الوقت شادی سے انکار کردیا تھا، ان کے بڑے بھائی ان کی شادی کے لئے فکر مند بھی تھے، کافی انہوں نے بچت کی ھوئی تھی، اس میں سے اپنے بڑے بھائی کو بھی ھر مہینہ کچھ نہ کچھ گھر کے خرچے کیلئے دیتے بھی رھے، وہ چاھتے تھے کہ ان کا ایک چھوٹا سا مکان بمعہ تمام آسائیش کے، اگر ھوجائے تو پھر وہ شادی کیلئے کچھ سوچ سکتے ھیں،!!!!!
اس محلے میں کئی خاندان ان کے رشتے کیلئے اپنی بہن بیٹی بھی دینے کو تیار تھے اور ایک دو نے تو شاید مکان اور اچھا جہیز کا لالچ بھی دیا ھوا تھا، لیکن شہزاد بھائی کی غیرت یہ گوارہ نہیں کرتی تھی کہ وہ لڑکی والوں سے کچھ جہیز یا کسی اور چیز کی لالچ رکھیں وہ جہیز کے بالکل خلاف تھے، ان کا ماننا تھا کہ جہیز ایک لعنت ھے، اوہر وہ یہی کہتے تھے کہ جب تک ان کا اپنا مکان تمام ساز و سامان کے ساتھ نہ ھوجائے، وہ کسی قیمت پر کسی بھی رشتہ کو قبول نہیں کریں گے، انہوں نے اپنے کرائے کے کمرے کو بھی بہت اچھا سجایا ھوا تھا، ایک چھوٹا سوفہ سیٹ اور ساتھ ھی ایک سنگل بیڈ بمعہ ایک چھوٹی الماری بھی کمرے میں قرینے سے رکھی ھوئی تھی،اوپر چھت پر ایک پنکھا بھی لٹکا ھوا تھا،!!!!
ایک دن ھم سب ان کے بھائی کے یہاں آئے ھوئے تھے، لیکن وہاں پر شہزاد بھائی کو نہیں دیکھا تو باتوں باتوں میں معلوم ھوا کہ آج کل وہ یہاں بہت کم آنے جانے لگے ھیں،!!! مجھے کچھ تشویش سی ھوئی، میں چپکے سے ان کے بھتیجے کو ساتھ لئے ان کے کمرے کی طرف نکل پڑا، جلدی جلدی قدم بڑھاتے ھوئے ان کے کمرے کے باھر گلی کی طرف دروازے پر پہنچ کر دستک دی، دروازہ کھلا تو شہزاد بھائی سامنے تھے بڑی گرم جوشی سے ملے، اب تو ان کے کمرے میں ایک نیا چھوٹا فرج بھی دیکھا، ایک دیوار کے ساتھ ٹیبل پر نیشنل کا ٹرانسسٹر ریڈیو بھی رکھا ھوا تھا، پہلے بھی کئی دفعہ ھم ان کا کمرہ دیکھ چکے تھے، لیکن اب تو مزید خوبصورت سجا سجایا نظر آرھا تھا،!!!!! اس سے پہلے کہ کچھ گپ شپ ھوتی، شہزاد بھائی اپنے بھتیجے کو ساتھ لئے باھر نکل پڑے جاتے ھوئے کہہ گئے کہ بس ھم یبھی بازار سے آتے ھیں،!!!! شاید کچھ کھانے پینے کا اہتمام کرنے گئے ھوں،!!!!
لیکن میری حیرت کی انتہا نہیں رھی جب میں نے دیکھا کہ کھڑکی کھلی ھوئی ھے اور وہاں سے ٹھنڈی ھوا کے جھونکے پردوں کو چھوتے ھوئے اندر آرھے ھیں، میں کھڑکی کی طرف آگے بڑھا تو مکان مالک کا صحن دیکھا جہاں کچھ ھری بھری گھاس اور مختلف قسم کے پھول پودے لگے ھوئے تھے، میرا بھی دل چاھتا تھا کہ ھمارے گھر میں بھی ایک چھوٹا سا صحن ھو اور وہاں میں خوب اچھا سا ایک باغیچہ بناؤں اور اس میں مختلف پھلواری لگاؤں، ابھی کھڑکی پر کھڑا میں کچھ سوچ ھی رھا تھا، کہ اچانک میرے سامنے ایک خوبصورت حسین سی لڑکی کھڑکی کے دوسری طرف میرے عین سامنے آگئی،!!!!
میں گھبرا سا گیا اور کھڑکی سے پیچھے آگیا،!!!! شہزاد بھائی اور ان کا بھتیجا شاید بازار سے کچھ کھانے پینے کیلئے لانے گئے تھے،!!!! اور آج کل سنا تھا کہ وہ رات کا کھانا بھائی کے یہاں نہیں کھاتے تھے، اور نہ ھی ان کے کمرے میں کوئی پکانے کا انتظام تھا، اس سے صاف ظاھر تھا کہ انہوں نے باھر ھی ھوٹل وغیرہ میں اپنا کھانے پینے کا بندوبست کیا ھوا ھوگا،!!!!!
جیسے ھی میں اس لڑکی کو دیکھ کر کھڑکی سے پیچھے ھٹا، اس لڑکی نے مجھے آواز دی،!!!!!
سنو،!!!! کیا نام ھے تمھارا،!!!!!!
میں نے جواباً گھبراتے ھوئے اپنا نام بتایا،!!!!!
لڑکی نے پوچھا کہ شہزاد کہاں ھیں،؟؟؟؟؟؟
میں نے اپنے آپ کو سنھالتے ھوئے کہا کہ،!!! وہ شہزاد بھائی ذرا باھر گئے ھیں، بس ابھی آتے ھی ھونگے،!!!!
اس لڑکی نے ھاتھ بڑھاتے ھوئے، مجھے ایک پلیٹ ڈھکی ھوئی مجھے دی، اور کہا کہ،!!!! اس میں گاجر کا حلوہ ھے،!!!!
میں نے بھی فوراً اس لڑکی سے وہ پلیٹ لے لی، مگر اس وقت مجھے گھبراھٹ کے عالم میں وہ پلیٹ بہت بھاری لگ رھی تھی، اس سے پہلے کہ پلیٹ میرے ھاتھ سے گر جائے، میں نے دونوں ھاتھوں سے بہت ھی محتاط ھوکر ٹیبل پر رکھ دی جہاں ریڈیو رکھا ھوا تھا،!!!!!
میں نے کھڑکی کی طرف دیکھا تو وہ حسین لڑکی اب بھی مجھے دیکھ کر مسکرائے جارھی تھی،!!!!! مجھ سے مخاطب ھوکر دوبارہ میرا نام پوچھا،!!!!!!
میں نے کہا،!!!! میں نے ابھی تو آپکو اپنا نام بتایا تھا،!!!!
لڑکی نے کہا کہ دوبارہ بتانے میں کیا کوئی حرج ھے، میں ذرا بھول گئی تھی،!!!!!
میں نے دوبارا اپنا نام بتاتے ھوئے اس سے اسکا نام بھی پوچھ لیا، بہت ھی پیاری اور خوبصورت لگ رھی تھی،!!!!
اس نے بہت ھی مدھم سر میں کچھ کھا،!!!!! نازنین،!!!!! اور کھڑکی سے غائب ،!!!! میں بس اسے دیکھتا ھی رہ گیا، اتنی خوبصورت اور حسین لڑکی میں نے نہیں دیکھی تھی، میں ابھی شاید 17 برس کا بھی نہیں ھونگا، لیکن دل میں حسن و جمال کے پرکھنے کے جذبات ضرور رکھتا تھا،!!! میرے دل میں ایک دم خیال آیا کہ یقیناً اس لڑکی کا شہزاد بھائی سے کوئی چکر ضرور ھے،!!!!
اسی اثناء میں شہزاد بھائی اپنے بھتیجے کے ساتھ کمرے میں داخل ھوئے ان کے ھاتھ میں ایک دو تھیلیاں تھیں، جس میں کچھ سموسے، جلیبیاں اور نمک پارے وغیرہ تھے، میں نے فوراً ھی شہزاد بھائی کو ٹیبل پر رکھی ھوئی پلیٹ دیکھنے کو کہا اور ابھی میں کچھ ھی کہہ پاتا،!!!! انہوں نے فوراً پوچھا،!!!!! کیا نازنیں آئی تھی،!!!!
میں نے جواباً اپنی گردن ھلادی، اور میں نے بھی کچھ ھمت کرکے پوچھ ھی لیا کہ،!!!! یہ کیا چکر ھے شہزاد بھائی، یہ نازنین کون ھیں،!!!!!!!
وہ پہلے تو خوب مسکرائے،!!! اور بہت ھی رازداری لہجہ میں کہنے لگے، !!!! دیکھو تمہیں قسم ھے، ابھی کسی سے بالکل نہیں کہنا، یہ بس جلد کچھ ھی عرصہ میں تمھاری بھابھی بننے والی ھیں، ھمارے بھتیجے کو تو پہلے سے ھی معلوم ھے،!!!!!
مییں نے کہا، کہ شہزاد بھائی،!!! واقعی آپ بہت ھی خوش قسمت ھیں، جبھی تو آجکل آپ بھی ھر وقت بنے ٹھنے رھتے ھیں،!!!!!
مجھے بعد میں شہزاد بھائی نے کہا کہ،!!!!! یہ لڑکی مجھے صبح کالج جاتے ھوئے ھر زوز نظر آتی تھی، لیکن میں نے کبھی دھیان نہیں دیا جبکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ مکان مالک کی بیٹی ھے،!!!!
بات کو بڑھاتے ھوئے انہوں نے اپنے دل کا سارا حال کھول دیا، ایک دو دفعہ اس لڑکی کے والد سے بھی انکی ملاقات ھوئی اور انہیں ایک شریف لڑکا سمجھتے ھوئے، انہیں کھڑکی کھولنے کی اجازت بھی دے دی تھی، اور مکان مالک کے گھر میں کوئی اچھی چیز پکتی تھی تو اس کھڑکی کے ذریعے ان تک پہنچ جاتی، ایک دو دفعہ شہزاد بھائی بھی ان کے گھر پر کسی تقریب میں کھانے کی دعوت پر بھی جاچکے تھے،!!!!!
آھستہ آھستہ ایک دوسرے کو دیکھتے ھوئے اسی کھڑکی کی بدولت ان دونوں کی محبت پروان چڑھتی رھی، جس کا کہ کسی کو بھی علم نہیں تھا، نہ ان کے بھائی بھابھی کو اور نہ ھی لڑکی کے گھر والوں کو،!!!!!!
مجھے واقعی ان دونوں کی قسمت پر رشک آنے لگا تھا، مجھے واقعی ان دونوں کی محبت کو دیکھ کر ایک دل کے اندر بہت ھی زیادہ خوشی محسوس ھوتی تھی، ساتھ کچھ حسد بھی،!!!!! دونوں بہت ھی اپنی اپنی جگہ خوبصورتی کے ساتھ ساتھ بہت ھی اچھے دل کے مالک تھے، شہزاد بھائی جب بھی مجھ سے ملتے تو اپنی محبت کے قصے بہت پیار سے مجھے سناتے تھے،!!! اور میں بھی خود ان دنوں ان کے پاس جانے لگا تھا، اور کئی دفعہ ان دونوں ایک ساتھ اس کھڑکی کے پاس آمنے سامنے باتیں کرتے ھوئے بھی دیکھا، روز بروز ان دونوں کی محبت شدت اختیا کرتی چلی گئی، مگر شھزاد بھائی نے کبھی اس نازنین سے کہیں باھر ملنے کی کوشش نہیں کی اور اپنے اور اسکے ساتھ تعلقات کا رشتہ صرف اور صرف اس کھڑکی تک ھی محدود رھا،!!!!!!
شہزاد کا کہنا تھا کہ بس کچھ ھی دنوں کی بات ھے، میں اپنا ایک ذاتی مکان خریدنے والا ھوں، انہیں اپنی کمپنی سے مکان کے لئے قرضہ بھی مل چکا تھا اور اس کے علاوہ بنک میں بھی ایک اچھی خاصی رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع تھی، کیونکہ وہ شروع سے ھی ھر مہینہ کچھ نہ کچھ اپنی تنخواہ میں سے بچا کر اکاؤنٹ میں جمع کرتے رھتے تھے، اب تو ایک ان کے پاس موٹر سائیکل بھی آچکی تھی،!!!!! وہ بہت خوش تھے کہ وہ بہت جلد ھی ایک مکان خرید کر اور اسے مکمل ڈیکوریٹ کرکے اپنے بھائی اور بھابھی کو ان کے گھر نازنین کا رشتہ مانگنے بھیجیں گے،!!!!!
وہ بہت خوش تھے کہ ان کی منزل اب بالکل قریب ھے، وہ اب مزید اسمارٹ لگنے لگے تھے، ایک خوبرو جوان کی طرح اور ادھر نازنین بھی اپنے حسین خوابوں کی بہت جلد تعبیر اپنے سامنے دیکھتے ھوئے بہت ھی زیادہ خوش تھی،!!!!!!
وقت تیزی سے گزررھا تھا، چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا، میں بھی گریجویشن کرچکا تھا اور سروس کررھا رھا، والد صاحب کا دوسرے شہر تبادلہ ھوچکا تھا، اور ساتھ ھی مجھے اور سب بہن بھائی والدہ سمیت، والد صاحب کے ساتھ ھی روانہ ھونا پڑ گیا تھا، اور پھر کافی عرصہ سے اس دوران اپنے چکروں کی وجہ سے شہزاد بھائی سے ملاقات بھی نہ ھو سکی، ان دونوں کی شادی ھوئی یا نہیں کچھ پتہ نہیں چلا، اور ھمارا ان کے یہاں آنا جانا بھی تقریباً بند ھو چکا تھا، کچھ اپنی پریشانیاں کچھ گھریلو مسئلے مسائل کی وجہ سے شہزاد اور نازنین کی طرف دھیان ھی نہیں گیا،!!!!!
دوسرے اپنے ھی ملک کے ایک اور شہر میں ھم سب اپنا ایک نئے ماحول کا آغاز کر چکے تھے، سب بہن بھائی اسکولوں میں پڑھتے رھے، میں اور والد صاحب اپنے اس کنبے کو چلانے میں اپنی اپنی جگہ محنت سے کام کرتے رھے، یہاں بھی وقت اتنی جلدی سے گزرا کہ مزید تین سال اور بیت گئے،!!!!!
اسی دوران وہاں سے بھی والد صاحب کا تبادلہ کسی اور شہر میں ھو گیا، بہن بھائی اور والدہ واپس پرانے شہر جاچکی تھیں، اور میں بھی کچھ مہینوں بعد ھی اپنے پرانے شہر میں واپس آگیا میں بہت خوش تھا، واپسی کے سفر میں بس مجھے شہزاد اور نازنین کی بہت یاد آرھی تھی افسوس کہ میں نے اور نہ ھی ھمارے والدین نے شہزاد اور ان کے بھائی بھابھی کی کوئی خبر لی اور نہ ھی میں اس عرصے میں شہزاد سے کوئی رابطہ رکھا،!!!!!! ٹرین جتنی تیزی سے میرے پرانے شہر کی طرف بڑھ رھی تھی مجھے شہزاد اور نازنیں کی طرف سے بہت ھی زیادہ فکر بھی بڑھتی جارھی تھی، مگر میں دل میں یہی تمنا کررھا تھا کہ اللٌہ کرے کہ ان دونوں کی شادی ھو گئی ھو،!!!!!!
گھر پہنچتے ھی میں نے کچھ دیر آرام کیا، اور تازہ دم ھوکر شہزاد بھائی کی طرف سب بہن بھائیوں اور والدہ کو لے کر چل دیا، والدہ کو بھی کافی عرصہ ھوگیا تھا ان کے بھائی بھابھی کی خبر لئے ھوئے، کچھ ھی دیر میں شہزاد بھائی کے بھائی بھابھی کے گھر پہنچے، تمام گلے شکوؤں کے بعد ان کی بھابھی نے شہزاد کے بارے میں ایک سرد آہ بھرتے ھوئے میری والدہ سے کہا کہ،!!!!!
کیا پوچھتی ھو چچی جان،!!! آپ کے جانے کے کچھ ھی دنوں بعد شہزاد کی طرف سے کافی پریشانیاں اٹھانی پڑیں، ایک تو ھمارے میاں کی نوکری ختم ھوگئی، دوسرے شہزاد کی تو زندگی برباد ھی ھوگئی،!!!!!!
میں یہ سن کر چونک سا گیا،!!!! کہ یہ کیا کہہ رھی ھیں،!!!!! شہزاد کے بڑے بھائی بھی گھر پر نہیں تھے، بقول بھابھی کے وہ نوکری کی تلاش میں اسی طرح نکل جاتے ھیں اور رات گئے تک ان کی واپسی ھوتی ھے،!!!!
انہوں نے مزید بات کو آگے بڑھاتے ھوئے کہا،،!!!! شہزاد تو بالکل پاگل سا ھوگیا ھے، نہ اسے کھانے کا ھوش ھے، نہ پینے کا، بس گلیوں میں داڑھی بڑھائے مجنوں کی طرح پھٹے پرانے کپڑے پہنے گلی گلی بھٹکتا پھرتا ھے، اور ھر وقت ان کے پیچھے محلے کے بچے آوازیں کستے، پتھر مارتے ھوئے بھاگتے رھتے ھیں، !!!!!!!
یہ کہتے ھوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے،!!!! اور وہ رونے لگیں،!!!! ھماری والدہ نے ھم سب کو کہا کہ جاؤ باھر چلے جاؤ،!!! باقی بچے تو دوسرے کمرے میں چلے گئے، لیکن میں نے شہزاد بھائی کے بڑے بھتیجے کو ساتھ لیا اور باھر نکل آیا، اور اس سے پوچھاَ!!!!!
یہ کیا ماجرا ھے، شہزاد کے بارے میں تمھاری امی یہ کیا کہہ رھی تھیں،،!!!!!
جواباً اس نے کہا،!!! کیا بتاؤں بھائی، کہاں سے شروع کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرھا، آپ کے جانے کے بعد شہزاد بھائی پر کیا کیا بیت گئی، اگر آپ سنیں گے تو آپ کے ھوش گم ھوجائیں گے،!!!!!
میں نے کہا کہ،!!!! پہلے مجھے ان کے پاس لے چلو،!!!!!
انہیں ڈھونڈنا پڑے گا نہ جانے وہ کس گلی میں پڑے ھوں، اب تو یہ پورا علاقہ انہیں جانتا ھے، وہ اس علاقے سے کہیں نہیں جاتے جبکہ انہیں بچے بہت تنگ کرتے ھیں، اور ساتھ پتھر بھی مارتے رھتے ھیں، حالانکہ بڑے بوڑھے، بچوں کو ڈانٹ کر سمجھا کر بھگاتے بھی ھیں اور وہ لوگ اس حالت میں بھی شہزاد بھائی کا بہت احترام کرتے ھیں، انہیں کھانے پینے کو بھی کچھ نہ کچھ دیتے رھتے ھیں،!!!!
ابھی ھم کچھ ھی دور چل پائے تھے، کہ اچانک بچوں کا ایک شور سنائی دیا،!!! ھم دونوں بھاگتے ھوئے گئے، اور ان بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور ایک طرف کردیا،!!!!!
میں نے آگے بڑھ کر شہزاد بھائی کی جو حالت دیکھی، تو مجھ سے رھا نہیں گیا، میری آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے،!!!! وہ بالکل سہمے ھوئے پھٹا پرانا سا کوٹ لادے داڑھی میلی کچیلی سی بڑھی ھوئی، گلے میں کئی قسم کی مالائیں ڈالے ھوئے پھٹی پرانی چپل پیر میں تھی، ایک دیوار کے سہارے بیٹھے ھوئے کانپ رھے تھے،!!!!!
میں نے بالکل انکے قریب جاکر ان سے پوچھا،!!!! کیسے ھو شہزاد بھائی،!!!!
وہ مجھے گھورنے لگے انہوں نے بہت غور سے پاگلوں کی طرح مجھے دیکھا، اور کہا،!!!!! اب کیوں آیا ھے، جب سب کھیل ختم ھوگیا،!!!! میں اب آزاد ھوں، مجھے تنگ مت کرو،!!!!! جاؤ چلے جاؤ یہاں سے میرے نزدیک مت آنا میں پتھر ماردوں گا،!!!!!!
ان کے ھاتھ میں واقعی ایک بڑا پتھر تھا انہوں نے ھاتھ کو اوپر اٹھایا، میں تو ڈر کے مارے فوراً کھڑا ھوگیا،،!!!!!
شہزاد بھائی کے بھتیجے نے کہا کہ،!!!!!! بھائی ڈریں نہیں، یہ کبھی کسی کو نہیں مارتے، بس ڈراتے رھتے ھیں، ھالانکہ بعض اوقات تو یہ بچوں کے پتھر مارنے سے جگہ جگہ ان کے خون بھی نکل آتا ھے، لیکن یہ بچوں کو بس ڈراتے ھیں چیختے ھیں لیکن کبھی پتھر نہیں مارا اور نہ ھی کسی کو نقصان پہنچایا ھے، اس وقت بھی دیکھیں ان کے پیروں سے خون رس رھا ھے،!!!!!
میری حالت بالکل غیر تھی، میں جاننا چاہ رھا تھا کہ ان کی یہ حالت کیسے ھوئی اور اس کا ذمہ دار کون ھے،!!!!!!
ان کا بھتیجا بھی مجھے ایک ھی سانس میں ان پر بیتی ھوئی کہانی کو سنانا چاہ رہا تھا، لیکن میں نے اس سے کہا کہ،!!!! آرام سے چلو پارک میں چلتے ھیں وہاں بیٹھ کر تسلی سے تمام ان پر گزرے ھوئے واقعات شروع سے سنانا،!!!!!
ھم دونوں پھر قریبی پارک کی طرف چل دئے، اور وہاں ایک کونے میں بیٹھتے ھی میں نے کہا،!!!!! ھاں اب بتاؤ، مگر بالکل سکون کے ساتھ،!!!!!
بھتیجے نے ان کی کہانی شروع کی، اور میں نے بھی اپنی تمام تر توجہ اس کی طرف کردی،!!!!!!
بھائی کیا کہوں جب آپ لوگ چلے گئے، تو شہزاد بھائی بار بار آپ کو بہت یاد کرتے تھے، کیونکہ وہ آپ سے یا مجھ سے ھی اپنے دل کی بات شئیر کرتے تھے، وہ نازنین کو بے انتہا چاھتے تھے اور نازنین بھی ان پر دل و جان سے فدا تھی، یہ بات شاید مجھے یا آپکو پتہ تھی، اور کسی کو بھی کانوں کان خبر نہیں تھی، کیونکہ شہزاد بھائی نازنین اور کے گھر والوں کی رسوائی نہیں چاھتے تھے،!!!!!!
یہی وجہ تھی کہ یہاں پر اس پیار محبت کی کہانی کا میرے علاوہ کسی کو علم نہیں تھا، انکی محبت بس اسی کھڑکی سے پروان چڑھی اور انتہاء محبت تک پہنچتے ھوئے، انکی اس کہانی نے اسی کھڑکی پر ھی دم توڑ دیا،!!!!!!
میں تو بالکل حیران پریشان اس سے شہزاد بھائی کی داستان بربادی سن رھا تھا،!!!!!
بھتیجے نے بات کو آگے بڑھات ھوئے کہا،!!!!!! اس طرح کا ان دونوں کے روز روز ملنے کے دورانیہ میں مزید اضافہ ھی ھوتا چلا گیا، اب تو رات کو بھی ان دونوں نے کھڑکی پر جم کر ایک دوسرے سے باتیں کرنا شروع کردیا، نا جانے انی ساری باتیں کیا کیا کرتے تھے، انہوں نے راتوں کی نیند دن کا چین خود ھی برباد کرلیا تھا، ایک دوسرے کے بناء بالکل بھی نہیں رہ سکتے تھے، مگر بس کھڑکی کی حد تک،!!!! اس سے باھر کبھی ان دونوں نے ملنے کا سوچا بھی نہیں،!!!!!!
کھڑکی بھی اوپر جانے والی سیڑھی کے آڑ میں تھی، جیسے ھی کسی کے آنے جانے کا خدشہ ھوتا یا کوئی آہٹ سنائی دیتی تو نازنین فوراً ھی سیڑھی کے نیچے ایک کونے میں چھپ جاتی، جہاں ویسے بھی اندھیرا رھتا تھا، اور شہزاد چچا بھی پردے کی آڑ میں یا بستر پر لیٹ جاتے تھے، یہ تو میں نے کئی دفعہ اپنے سامنے بھی دیکھا تھا،!!!!
وہ دن میں ویسے بھی کسی نہ کسی بہانے کوئی کھانے پینے کی چیز دینے کے بہانے آجاتی تھی، جب تک اسکی امی کی آواز نہیں آتی تھی، وہ کھڑکی سے ھٹتی ھی نہیں تھی، وہ اب کالج میں تھی اور اس کی پڑھائی اب بالکل توجہ ھٹتی جارھی تھی، شاید کلاس میں بھی وہ سب سے پیچھے تھی، اور دوسری طرف شہزاد چچا بھی دفتر سے اکثر غیر حاضری کرنے لگے تھے، وہاں ان کو نوٹس پر نوٹس مل رھے تھے، مگر انہوں نے بھی کھڑکی کو نہیں چھوڑا، اور نہ ھی نازنین نے، اپنی پڑھائی کی بھی پرواہ نہیں کی،!!!!!!
نازنین کی والدہ کو اپنی بیٹی کی فکر ھونے لگی، وہ ماں تھی اس لئے وہ شاید اپنی بیٹی کے دل کا حال جانتی تھی، شاید وہ یہ بھی چاھتی ھوں کہ شہزاد اچھا لڑکا ھے اگر نازنین کی شادی اس سے ھوجائے تو کتنا ھی اچھا ھو،!!!!!
ایک رات نازین کی والدہ نے ان دونوں کی چوری پکڑ لی اور خاموشی سے وہ کھڑکی کے پاس پہنچی اور نازین کا ھاتھ پکڑ کر لے گئیں، !!!!!
یہ باتیں مجھے خود چچا نے بتائی تھی،!!!!! وہ ھر روز مجھ سے اپنے راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے تھے، اور مجھے بھی اس میں دلچسپی بڑھ رھی تھی،!!!!!
شہزاد کے بھتیجے نے اس کہانی کو مختصر کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!!! وہ مجھے بھائی ھی کہتا تھا،!!!!!
بھائی اس دن کے بعد نازنین کا کھڑکی پر آنا بند ھو گیا اور شہزاد چچا تو بالکل پریشان ھوگئے، دوتین دن بعد ان کی کھڑکی پر نازنین کی والدہ شام کا وقت تھا، چچا فوراً کھڑکی کی طرف جلدی میں پہنچے وہ سمجھے کہ شاید نازنین ھے لیکن وہاں تو اسکی والدہ تھیں، انہوں نے آھستہ آہستہ چچا کو خوب ڈانٹ پلائی، اور واسطے دیئے کہ میری بیٹی کا پیچھا چھوڑ دو، اس کا باپ بہت ظالم ھے وہ تو نہ تمہیں چھوڑے گا اور نازنین کو تو زمین میں دفن کردے گا،!!!!!
اس کے علاوہ نازنین کی والدہ نے یہ بھی کہا کہ کوئی شریفانہ طریقہ اختیار کرو، میں تو تمھیں بہت ھی شریف سمجھتی تھی، وغیرہ وغیرہ،!!!! اگر تم واقعی اس سے شادی کے لئے سنجیدہ ھو تو اپنے گھر والوں کو ھمارے یہاں پیغام لے کر بھیجو، اور یہ بھی کہا کہ،!!! آئیندہ سے میں اس کھڑکی کو کھلا ھوا نہ دیکھوں، دوسرے دن ان کی والدہ نے اپنی طرف سے کھڑکی کے پاس ایک پرانی الماری لا کر کھڑی کروادی،!!!!!
جاری ھے،!!!!!!
اسکی پتھرائی ھوئی سی آنکھیں، سر کے بال میلے کچیلے کمبل کے پھٹے سوراخوں میں سے سرد ھوا کے جھونکوں میں ھلتے ھوئے دکھائی دے رھے تھے، اس کی داڑھی کچھ سفید کچھ کالے بالوں کے ساتھ بے ترتیبی سے بڑھی ھوئی مٹی میں اٹی ھوئی دکھائی دے رھی تھی،!!!!!!
اسے اپنا کوئی ھوش نہیں تھا، سامنے اسکے کئی چمکتے ھوئے سکے اور بکھرے ھوئے نوٹ پڑے تھے، لیکن اسے اس سے کوئی غرض نہیں لگتا تھا، کچھ آس پاس بیٹھے بچے بھی شاید ان سکوں اور نوٹوں کو اچکنے کے لئے موقع کے انتظار میں بیٹھے تھے،!!!!
آج کچھ زیادہ ھی ٹھنڈ محسوس ھورھی تھی، سرد ھوا کی سرسراتی ھوئی تھپیڑے اسے مزید کمبل میں سمٹنے کے لئے مجبور کررھے تھے، لیکن وہ اس کمبل میں اپنے آپ کو مکمل طور سے لپیٹنے میں ناکام نظر آرھا تھا،!!!!
وہ کون ھے پہلے تو کبھی کسی نے اسے یہاں نہیں دیکھا تھا، اور بھی کئی فقیر کٹورا ھاتھ میں لئے بھیک مانگتے ھوئے آوازیں نکالتے ھوئے آس پاس بیٹھے نظر آئے، لیکن نہ اس کے منہ سے کوئی آواز سنائی دی اور نہ ھی کوئی صدا، بس ایک خاموشی سی تھی، بس اس کے کبھی کبھی ھلنے جلنے سے اس کے سلامت ھونے کا گمان ھوتا تھا،!!!!
ایک کار سیڑھیوں کے آخری سطح کے پاس ایک کنارے پر رکی، کار کا دروازہ کھلا اس میں سے ایک بہت ھی خوبصورت دوشیزہ نفیس لباس زیب تن کئے نکلی، اور سیدھا اسی فقیر کے پاس رکی اور اس کے سامنے بیٹھ گئی، اسکی آنکھوں میں آنسوں کی ایک قطار سی بہہ رھی تھی،!!!!
اس دوشیزہ کے منہ سے ایک کپکپاتی ھوئی آواز سنائی دی،!!!!
شہزاد !!!!! میرےشہزاد،!!!!! ایک بار میری بات تو سن لو،!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہی شہزاد بھائی ھیں، جو کبھی تقریباً 10 سال پہلے ایک اسمارٹ خوبرو نوجوان ھوا کرتے تھے، ایک اچھی کمپنی میں اچھے عہدہ پر فائز تھے، ھمارے یہاں وہ اپنے بھائی اور بھابی کے ساتھ کبھی کبھی آیا کرتے، اور بہت ھی نفیس کپڑے پہننے کا شوق تھا، انکی شادی ابھی تک طے نہیں پائی تھی، یہ ھمارے دور کے رشتہ دار بھی تھے،!!!!!
میں ان دنوں میٹرک کا طالب علم تھا، اور شہزاد بھائی مجھ سے شاید 10 سال بڑے ھی ھونگے، وہ شروع شروع میں تو اپنے بھائی کے ساتھ ھی رھا کرتے تھے، لیکن کچھ ھی دنوں بعد انہوں نے کسی کے گھر میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا، جس کا دروازہ باھر کھلتا تھا، کمرے کے ساتھ باتھ روم کی سہولت موجود تھی، اور اس کمرے کی کھڑکی مالک مکان کے صحن میں ھی کھلتی تھی، جس کے شروع شروع میں کھولنے پر بالکل پابندی تھی،!!!!
میں بھی کبھی کبھی والدین کے ساتھ شہزاد کے بھائی اور بھابھی کے یہاں چلے جایا کرتا تھا، جہاں شہزاد بھائی بھی ھمارا سن کر آجایا کرتے، یہ معلومات بھی مجھے ان کے یہاں آنے جانے سے ھی جو ان کی آپس میں گفتگو کے دوران ھی معلوم ھوتی رھتی تھی، میری تو کوئی شہزاد سے کوئی خاص بات چیت نہیں تھی،!!!!! لیکن ان کے ساتھ بازار کا چکر لگا لئے کرتے،!!!!
شہزاد بھائی بہت اچھے تھے ان کے بھتیجے بھتیجیاں جو کہ بہت چھوٹے چھوٹے تھے، اور میرے بہن بھائی بھی ساتھ ھی ان کے ساتھ بازار یا پارک کا چکر لگا لیا کرتے،!!!!
شہزاد بھائی کے مکان مالک بہت سخت مزاج تھے، نیچے کے حصہ میں خود رھتے تھے اور اوپر کا حصہ بھی اپنے کسی رشتہ دار کو کرایہ پر دیا ھوا تھا، جس کی سیڑھیاں مکان مالک کے صحن سے ھی گزرتی تھیں، بہ بڑا دومنزلہ مکان تھا، شاید کوئی اچھی کمپنی میں کسی بڑی پوسٹ پر تھے، ایک اچھی کار بھی رکھی ھوئی تھی، جو صحن میں ھی پارک ھوتی تھی، گھر کے سامنے ڈبل سڑک تھی، اندر آنے کیلئے ایک بڑا اسٹیل کا گیٹ اور ایک چھوٹا گیٹ بھی تھا، اوپر جانے والی سیڑھیوں کے ساتھ ھی شہزاد بھائی کے کمرے کی کھڑی بھی تھی، جو کبھی نہیں کھلتی تھی،!!!! کیونکہ مکان مالک کی طرف سے کھڑکی کھولنے پر پابندی تھی، ان کے کمرے کادروازہ باھر گلی میں کھلتا تھا، اور شہزاد بھائی بس رات کو ھی وہاں سونے آتے تھے اور صبح ھوتے ھی اپنے کام پر نکل جاتے تھے، نوکری سے واپسی پر بھی وہ شام کو اپنے بھائی کے ھاں وقت گزارتے اور رات تک کھانے وغیرہ سے فارغ ھوکر ھی اپنے کمرے کی طرف چل دیتے جو وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ھی تھا،!!!!
اس علاقے میں شہزاد بھائی نے سب کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے ھوئے تھے سب ان کی بہت عزت بھی کرتے تھے، ان کیلئے دو تین اچھے رشتے بھی آئے لیکن انہوں نے فی الوقت شادی سے انکار کردیا تھا، ان کے بڑے بھائی ان کی شادی کے لئے فکر مند بھی تھے، کافی انہوں نے بچت کی ھوئی تھی، اس میں سے اپنے بڑے بھائی کو بھی ھر مہینہ کچھ نہ کچھ گھر کے خرچے کیلئے دیتے بھی رھے، وہ چاھتے تھے کہ ان کا ایک چھوٹا سا مکان بمعہ تمام آسائیش کے، اگر ھوجائے تو پھر وہ شادی کیلئے کچھ سوچ سکتے ھیں،!!!!!
اس محلے میں کئی خاندان ان کے رشتے کیلئے اپنی بہن بیٹی بھی دینے کو تیار تھے اور ایک دو نے تو شاید مکان اور اچھا جہیز کا لالچ بھی دیا ھوا تھا، لیکن شہزاد بھائی کی غیرت یہ گوارہ نہیں کرتی تھی کہ وہ لڑکی والوں سے کچھ جہیز یا کسی اور چیز کی لالچ رکھیں وہ جہیز کے بالکل خلاف تھے، ان کا ماننا تھا کہ جہیز ایک لعنت ھے، اوہر وہ یہی کہتے تھے کہ جب تک ان کا اپنا مکان تمام ساز و سامان کے ساتھ نہ ھوجائے، وہ کسی قیمت پر کسی بھی رشتہ کو قبول نہیں کریں گے، انہوں نے اپنے کرائے کے کمرے کو بھی بہت اچھا سجایا ھوا تھا، ایک چھوٹا سوفہ سیٹ اور ساتھ ھی ایک سنگل بیڈ بمعہ ایک چھوٹی الماری بھی کمرے میں قرینے سے رکھی ھوئی تھی،اوپر چھت پر ایک پنکھا بھی لٹکا ھوا تھا،!!!!
ایک دن ھم سب ان کے بھائی کے یہاں آئے ھوئے تھے، لیکن وہاں پر شہزاد بھائی کو نہیں دیکھا تو باتوں باتوں میں معلوم ھوا کہ آج کل وہ یہاں بہت کم آنے جانے لگے ھیں،!!! مجھے کچھ تشویش سی ھوئی، میں چپکے سے ان کے بھتیجے کو ساتھ لئے ان کے کمرے کی طرف نکل پڑا، جلدی جلدی قدم بڑھاتے ھوئے ان کے کمرے کے باھر گلی کی طرف دروازے پر پہنچ کر دستک دی، دروازہ کھلا تو شہزاد بھائی سامنے تھے بڑی گرم جوشی سے ملے، اب تو ان کے کمرے میں ایک نیا چھوٹا فرج بھی دیکھا، ایک دیوار کے ساتھ ٹیبل پر نیشنل کا ٹرانسسٹر ریڈیو بھی رکھا ھوا تھا، پہلے بھی کئی دفعہ ھم ان کا کمرہ دیکھ چکے تھے، لیکن اب تو مزید خوبصورت سجا سجایا نظر آرھا تھا،!!!!! اس سے پہلے کہ کچھ گپ شپ ھوتی، شہزاد بھائی اپنے بھتیجے کو ساتھ لئے باھر نکل پڑے جاتے ھوئے کہہ گئے کہ بس ھم یبھی بازار سے آتے ھیں،!!!! شاید کچھ کھانے پینے کا اہتمام کرنے گئے ھوں،!!!!
لیکن میری حیرت کی انتہا نہیں رھی جب میں نے دیکھا کہ کھڑکی کھلی ھوئی ھے اور وہاں سے ٹھنڈی ھوا کے جھونکے پردوں کو چھوتے ھوئے اندر آرھے ھیں، میں کھڑکی کی طرف آگے بڑھا تو مکان مالک کا صحن دیکھا جہاں کچھ ھری بھری گھاس اور مختلف قسم کے پھول پودے لگے ھوئے تھے، میرا بھی دل چاھتا تھا کہ ھمارے گھر میں بھی ایک چھوٹا سا صحن ھو اور وہاں میں خوب اچھا سا ایک باغیچہ بناؤں اور اس میں مختلف پھلواری لگاؤں، ابھی کھڑکی پر کھڑا میں کچھ سوچ ھی رھا تھا، کہ اچانک میرے سامنے ایک خوبصورت حسین سی لڑکی کھڑکی کے دوسری طرف میرے عین سامنے آگئی،!!!!
میں گھبرا سا گیا اور کھڑکی سے پیچھے آگیا،!!!! شہزاد بھائی اور ان کا بھتیجا شاید بازار سے کچھ کھانے پینے کیلئے لانے گئے تھے،!!!! اور آج کل سنا تھا کہ وہ رات کا کھانا بھائی کے یہاں نہیں کھاتے تھے، اور نہ ھی ان کے کمرے میں کوئی پکانے کا انتظام تھا، اس سے صاف ظاھر تھا کہ انہوں نے باھر ھی ھوٹل وغیرہ میں اپنا کھانے پینے کا بندوبست کیا ھوا ھوگا،!!!!!
جیسے ھی میں اس لڑکی کو دیکھ کر کھڑکی سے پیچھے ھٹا، اس لڑکی نے مجھے آواز دی،!!!!!
سنو،!!!! کیا نام ھے تمھارا،!!!!!!
میں نے جواباً گھبراتے ھوئے اپنا نام بتایا،!!!!!
لڑکی نے پوچھا کہ شہزاد کہاں ھیں،؟؟؟؟؟؟
میں نے اپنے آپ کو سنھالتے ھوئے کہا کہ،!!! وہ شہزاد بھائی ذرا باھر گئے ھیں، بس ابھی آتے ھی ھونگے،!!!!
اس لڑکی نے ھاتھ بڑھاتے ھوئے، مجھے ایک پلیٹ ڈھکی ھوئی مجھے دی، اور کہا کہ،!!!! اس میں گاجر کا حلوہ ھے،!!!!
میں نے بھی فوراً اس لڑکی سے وہ پلیٹ لے لی، مگر اس وقت مجھے گھبراھٹ کے عالم میں وہ پلیٹ بہت بھاری لگ رھی تھی، اس سے پہلے کہ پلیٹ میرے ھاتھ سے گر جائے، میں نے دونوں ھاتھوں سے بہت ھی محتاط ھوکر ٹیبل پر رکھ دی جہاں ریڈیو رکھا ھوا تھا،!!!!!
میں نے کھڑکی کی طرف دیکھا تو وہ حسین لڑکی اب بھی مجھے دیکھ کر مسکرائے جارھی تھی،!!!!! مجھ سے مخاطب ھوکر دوبارہ میرا نام پوچھا،!!!!!!
میں نے کہا،!!!! میں نے ابھی تو آپکو اپنا نام بتایا تھا،!!!!
لڑکی نے کہا کہ دوبارہ بتانے میں کیا کوئی حرج ھے، میں ذرا بھول گئی تھی،!!!!!
میں نے دوبارا اپنا نام بتاتے ھوئے اس سے اسکا نام بھی پوچھ لیا، بہت ھی پیاری اور خوبصورت لگ رھی تھی،!!!!
اس نے بہت ھی مدھم سر میں کچھ کھا،!!!!! نازنین،!!!!! اور کھڑکی سے غائب ،!!!! میں بس اسے دیکھتا ھی رہ گیا، اتنی خوبصورت اور حسین لڑکی میں نے نہیں دیکھی تھی، میں ابھی شاید 17 برس کا بھی نہیں ھونگا، لیکن دل میں حسن و جمال کے پرکھنے کے جذبات ضرور رکھتا تھا،!!! میرے دل میں ایک دم خیال آیا کہ یقیناً اس لڑکی کا شہزاد بھائی سے کوئی چکر ضرور ھے،!!!!
اسی اثناء میں شہزاد بھائی اپنے بھتیجے کے ساتھ کمرے میں داخل ھوئے ان کے ھاتھ میں ایک دو تھیلیاں تھیں، جس میں کچھ سموسے، جلیبیاں اور نمک پارے وغیرہ تھے، میں نے فوراً ھی شہزاد بھائی کو ٹیبل پر رکھی ھوئی پلیٹ دیکھنے کو کہا اور ابھی میں کچھ ھی کہہ پاتا،!!!! انہوں نے فوراً پوچھا،!!!!! کیا نازنیں آئی تھی،!!!!
میں نے جواباً اپنی گردن ھلادی، اور میں نے بھی کچھ ھمت کرکے پوچھ ھی لیا کہ،!!!! یہ کیا چکر ھے شہزاد بھائی، یہ نازنین کون ھیں،!!!!!!!
وہ پہلے تو خوب مسکرائے،!!! اور بہت ھی رازداری لہجہ میں کہنے لگے، !!!! دیکھو تمہیں قسم ھے، ابھی کسی سے بالکل نہیں کہنا، یہ بس جلد کچھ ھی عرصہ میں تمھاری بھابھی بننے والی ھیں، ھمارے بھتیجے کو تو پہلے سے ھی معلوم ھے،!!!!!
مییں نے کہا، کہ شہزاد بھائی،!!! واقعی آپ بہت ھی خوش قسمت ھیں، جبھی تو آجکل آپ بھی ھر وقت بنے ٹھنے رھتے ھیں،!!!!!
مجھے بعد میں شہزاد بھائی نے کہا کہ،!!!!! یہ لڑکی مجھے صبح کالج جاتے ھوئے ھر زوز نظر آتی تھی، لیکن میں نے کبھی دھیان نہیں دیا جبکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ مکان مالک کی بیٹی ھے،!!!!
بات کو بڑھاتے ھوئے انہوں نے اپنے دل کا سارا حال کھول دیا، ایک دو دفعہ اس لڑکی کے والد سے بھی انکی ملاقات ھوئی اور انہیں ایک شریف لڑکا سمجھتے ھوئے، انہیں کھڑکی کھولنے کی اجازت بھی دے دی تھی، اور مکان مالک کے گھر میں کوئی اچھی چیز پکتی تھی تو اس کھڑکی کے ذریعے ان تک پہنچ جاتی، ایک دو دفعہ شہزاد بھائی بھی ان کے گھر پر کسی تقریب میں کھانے کی دعوت پر بھی جاچکے تھے،!!!!!
آھستہ آھستہ ایک دوسرے کو دیکھتے ھوئے اسی کھڑکی کی بدولت ان دونوں کی محبت پروان چڑھتی رھی، جس کا کہ کسی کو بھی علم نہیں تھا، نہ ان کے بھائی بھابھی کو اور نہ ھی لڑکی کے گھر والوں کو،!!!!!!
مجھے واقعی ان دونوں کی قسمت پر رشک آنے لگا تھا، مجھے واقعی ان دونوں کی محبت کو دیکھ کر ایک دل کے اندر بہت ھی زیادہ خوشی محسوس ھوتی تھی، ساتھ کچھ حسد بھی،!!!!! دونوں بہت ھی اپنی اپنی جگہ خوبصورتی کے ساتھ ساتھ بہت ھی اچھے دل کے مالک تھے، شہزاد بھائی جب بھی مجھ سے ملتے تو اپنی محبت کے قصے بہت پیار سے مجھے سناتے تھے،!!! اور میں بھی خود ان دنوں ان کے پاس جانے لگا تھا، اور کئی دفعہ ان دونوں ایک ساتھ اس کھڑکی کے پاس آمنے سامنے باتیں کرتے ھوئے بھی دیکھا، روز بروز ان دونوں کی محبت شدت اختیا کرتی چلی گئی، مگر شھزاد بھائی نے کبھی اس نازنین سے کہیں باھر ملنے کی کوشش نہیں کی اور اپنے اور اسکے ساتھ تعلقات کا رشتہ صرف اور صرف اس کھڑکی تک ھی محدود رھا،!!!!!!
شہزاد کا کہنا تھا کہ بس کچھ ھی دنوں کی بات ھے، میں اپنا ایک ذاتی مکان خریدنے والا ھوں، انہیں اپنی کمپنی سے مکان کے لئے قرضہ بھی مل چکا تھا اور اس کے علاوہ بنک میں بھی ایک اچھی خاصی رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع تھی، کیونکہ وہ شروع سے ھی ھر مہینہ کچھ نہ کچھ اپنی تنخواہ میں سے بچا کر اکاؤنٹ میں جمع کرتے رھتے تھے، اب تو ایک ان کے پاس موٹر سائیکل بھی آچکی تھی،!!!!! وہ بہت خوش تھے کہ وہ بہت جلد ھی ایک مکان خرید کر اور اسے مکمل ڈیکوریٹ کرکے اپنے بھائی اور بھابھی کو ان کے گھر نازنین کا رشتہ مانگنے بھیجیں گے،!!!!!
وہ بہت خوش تھے کہ ان کی منزل اب بالکل قریب ھے، وہ اب مزید اسمارٹ لگنے لگے تھے، ایک خوبرو جوان کی طرح اور ادھر نازنین بھی اپنے حسین خوابوں کی بہت جلد تعبیر اپنے سامنے دیکھتے ھوئے بہت ھی زیادہ خوش تھی،!!!!!!
وقت تیزی سے گزررھا تھا، چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا، میں بھی گریجویشن کرچکا تھا اور سروس کررھا رھا، والد صاحب کا دوسرے شہر تبادلہ ھوچکا تھا، اور ساتھ ھی مجھے اور سب بہن بھائی والدہ سمیت، والد صاحب کے ساتھ ھی روانہ ھونا پڑ گیا تھا، اور پھر کافی عرصہ سے اس دوران اپنے چکروں کی وجہ سے شہزاد بھائی سے ملاقات بھی نہ ھو سکی، ان دونوں کی شادی ھوئی یا نہیں کچھ پتہ نہیں چلا، اور ھمارا ان کے یہاں آنا جانا بھی تقریباً بند ھو چکا تھا، کچھ اپنی پریشانیاں کچھ گھریلو مسئلے مسائل کی وجہ سے شہزاد اور نازنین کی طرف دھیان ھی نہیں گیا،!!!!!
دوسرے اپنے ھی ملک کے ایک اور شہر میں ھم سب اپنا ایک نئے ماحول کا آغاز کر چکے تھے، سب بہن بھائی اسکولوں میں پڑھتے رھے، میں اور والد صاحب اپنے اس کنبے کو چلانے میں اپنی اپنی جگہ محنت سے کام کرتے رھے، یہاں بھی وقت اتنی جلدی سے گزرا کہ مزید تین سال اور بیت گئے،!!!!!
اسی دوران وہاں سے بھی والد صاحب کا تبادلہ کسی اور شہر میں ھو گیا، بہن بھائی اور والدہ واپس پرانے شہر جاچکی تھیں، اور میں بھی کچھ مہینوں بعد ھی اپنے پرانے شہر میں واپس آگیا میں بہت خوش تھا، واپسی کے سفر میں بس مجھے شہزاد اور نازنین کی بہت یاد آرھی تھی افسوس کہ میں نے اور نہ ھی ھمارے والدین نے شہزاد اور ان کے بھائی بھابھی کی کوئی خبر لی اور نہ ھی میں اس عرصے میں شہزاد سے کوئی رابطہ رکھا،!!!!!! ٹرین جتنی تیزی سے میرے پرانے شہر کی طرف بڑھ رھی تھی مجھے شہزاد اور نازنیں کی طرف سے بہت ھی زیادہ فکر بھی بڑھتی جارھی تھی، مگر میں دل میں یہی تمنا کررھا تھا کہ اللٌہ کرے کہ ان دونوں کی شادی ھو گئی ھو،!!!!!!
گھر پہنچتے ھی میں نے کچھ دیر آرام کیا، اور تازہ دم ھوکر شہزاد بھائی کی طرف سب بہن بھائیوں اور والدہ کو لے کر چل دیا، والدہ کو بھی کافی عرصہ ھوگیا تھا ان کے بھائی بھابھی کی خبر لئے ھوئے، کچھ ھی دیر میں شہزاد بھائی کے بھائی بھابھی کے گھر پہنچے، تمام گلے شکوؤں کے بعد ان کی بھابھی نے شہزاد کے بارے میں ایک سرد آہ بھرتے ھوئے میری والدہ سے کہا کہ،!!!!!
کیا پوچھتی ھو چچی جان،!!! آپ کے جانے کے کچھ ھی دنوں بعد شہزاد کی طرف سے کافی پریشانیاں اٹھانی پڑیں، ایک تو ھمارے میاں کی نوکری ختم ھوگئی، دوسرے شہزاد کی تو زندگی برباد ھی ھوگئی،!!!!!!
میں یہ سن کر چونک سا گیا،!!!! کہ یہ کیا کہہ رھی ھیں،!!!!! شہزاد کے بڑے بھائی بھی گھر پر نہیں تھے، بقول بھابھی کے وہ نوکری کی تلاش میں اسی طرح نکل جاتے ھیں اور رات گئے تک ان کی واپسی ھوتی ھے،!!!!
انہوں نے مزید بات کو آگے بڑھاتے ھوئے کہا،،!!!! شہزاد تو بالکل پاگل سا ھوگیا ھے، نہ اسے کھانے کا ھوش ھے، نہ پینے کا، بس گلیوں میں داڑھی بڑھائے مجنوں کی طرح پھٹے پرانے کپڑے پہنے گلی گلی بھٹکتا پھرتا ھے، اور ھر وقت ان کے پیچھے محلے کے بچے آوازیں کستے، پتھر مارتے ھوئے بھاگتے رھتے ھیں، !!!!!!!
یہ کہتے ھوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے،!!!! اور وہ رونے لگیں،!!!! ھماری والدہ نے ھم سب کو کہا کہ جاؤ باھر چلے جاؤ،!!! باقی بچے تو دوسرے کمرے میں چلے گئے، لیکن میں نے شہزاد بھائی کے بڑے بھتیجے کو ساتھ لیا اور باھر نکل آیا، اور اس سے پوچھاَ!!!!!
یہ کیا ماجرا ھے، شہزاد کے بارے میں تمھاری امی یہ کیا کہہ رھی تھیں،،!!!!!
جواباً اس نے کہا،!!! کیا بتاؤں بھائی، کہاں سے شروع کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرھا، آپ کے جانے کے بعد شہزاد بھائی پر کیا کیا بیت گئی، اگر آپ سنیں گے تو آپ کے ھوش گم ھوجائیں گے،!!!!!
میں نے کہا کہ،!!!! پہلے مجھے ان کے پاس لے چلو،!!!!!
انہیں ڈھونڈنا پڑے گا نہ جانے وہ کس گلی میں پڑے ھوں، اب تو یہ پورا علاقہ انہیں جانتا ھے، وہ اس علاقے سے کہیں نہیں جاتے جبکہ انہیں بچے بہت تنگ کرتے ھیں، اور ساتھ پتھر بھی مارتے رھتے ھیں، حالانکہ بڑے بوڑھے، بچوں کو ڈانٹ کر سمجھا کر بھگاتے بھی ھیں اور وہ لوگ اس حالت میں بھی شہزاد بھائی کا بہت احترام کرتے ھیں، انہیں کھانے پینے کو بھی کچھ نہ کچھ دیتے رھتے ھیں،!!!!
ابھی ھم کچھ ھی دور چل پائے تھے، کہ اچانک بچوں کا ایک شور سنائی دیا،!!! ھم دونوں بھاگتے ھوئے گئے، اور ان بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور ایک طرف کردیا،!!!!!
میں نے آگے بڑھ کر شہزاد بھائی کی جو حالت دیکھی، تو مجھ سے رھا نہیں گیا، میری آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے،!!!! وہ بالکل سہمے ھوئے پھٹا پرانا سا کوٹ لادے داڑھی میلی کچیلی سی بڑھی ھوئی، گلے میں کئی قسم کی مالائیں ڈالے ھوئے پھٹی پرانی چپل پیر میں تھی، ایک دیوار کے سہارے بیٹھے ھوئے کانپ رھے تھے،!!!!!
میں نے بالکل انکے قریب جاکر ان سے پوچھا،!!!! کیسے ھو شہزاد بھائی،!!!!
وہ مجھے گھورنے لگے انہوں نے بہت غور سے پاگلوں کی طرح مجھے دیکھا، اور کہا،!!!!! اب کیوں آیا ھے، جب سب کھیل ختم ھوگیا،!!!! میں اب آزاد ھوں، مجھے تنگ مت کرو،!!!!! جاؤ چلے جاؤ یہاں سے میرے نزدیک مت آنا میں پتھر ماردوں گا،!!!!!!
ان کے ھاتھ میں واقعی ایک بڑا پتھر تھا انہوں نے ھاتھ کو اوپر اٹھایا، میں تو ڈر کے مارے فوراً کھڑا ھوگیا،،!!!!!
شہزاد بھائی کے بھتیجے نے کہا کہ،!!!!!! بھائی ڈریں نہیں، یہ کبھی کسی کو نہیں مارتے، بس ڈراتے رھتے ھیں، ھالانکہ بعض اوقات تو یہ بچوں کے پتھر مارنے سے جگہ جگہ ان کے خون بھی نکل آتا ھے، لیکن یہ بچوں کو بس ڈراتے ھیں چیختے ھیں لیکن کبھی پتھر نہیں مارا اور نہ ھی کسی کو نقصان پہنچایا ھے، اس وقت بھی دیکھیں ان کے پیروں سے خون رس رھا ھے،!!!!!
میری حالت بالکل غیر تھی، میں جاننا چاہ رھا تھا کہ ان کی یہ حالت کیسے ھوئی اور اس کا ذمہ دار کون ھے،!!!!!!
ان کا بھتیجا بھی مجھے ایک ھی سانس میں ان پر بیتی ھوئی کہانی کو سنانا چاہ رہا تھا، لیکن میں نے اس سے کہا کہ،!!!! آرام سے چلو پارک میں چلتے ھیں وہاں بیٹھ کر تسلی سے تمام ان پر گزرے ھوئے واقعات شروع سے سنانا،!!!!!
ھم دونوں پھر قریبی پارک کی طرف چل دئے، اور وہاں ایک کونے میں بیٹھتے ھی میں نے کہا،!!!!! ھاں اب بتاؤ، مگر بالکل سکون کے ساتھ،!!!!!
بھتیجے نے ان کی کہانی شروع کی، اور میں نے بھی اپنی تمام تر توجہ اس کی طرف کردی،!!!!!!
بھائی کیا کہوں جب آپ لوگ چلے گئے، تو شہزاد بھائی بار بار آپ کو بہت یاد کرتے تھے، کیونکہ وہ آپ سے یا مجھ سے ھی اپنے دل کی بات شئیر کرتے تھے، وہ نازنین کو بے انتہا چاھتے تھے اور نازنین بھی ان پر دل و جان سے فدا تھی، یہ بات شاید مجھے یا آپکو پتہ تھی، اور کسی کو بھی کانوں کان خبر نہیں تھی، کیونکہ شہزاد بھائی نازنین اور کے گھر والوں کی رسوائی نہیں چاھتے تھے،!!!!!!
یہی وجہ تھی کہ یہاں پر اس پیار محبت کی کہانی کا میرے علاوہ کسی کو علم نہیں تھا، انکی محبت بس اسی کھڑکی سے پروان چڑھی اور انتہاء محبت تک پہنچتے ھوئے، انکی اس کہانی نے اسی کھڑکی پر ھی دم توڑ دیا،!!!!!!
میں تو بالکل حیران پریشان اس سے شہزاد بھائی کی داستان بربادی سن رھا تھا،!!!!!
بھتیجے نے بات کو آگے بڑھات ھوئے کہا،!!!!!! اس طرح کا ان دونوں کے روز روز ملنے کے دورانیہ میں مزید اضافہ ھی ھوتا چلا گیا، اب تو رات کو بھی ان دونوں نے کھڑکی پر جم کر ایک دوسرے سے باتیں کرنا شروع کردیا، نا جانے انی ساری باتیں کیا کیا کرتے تھے، انہوں نے راتوں کی نیند دن کا چین خود ھی برباد کرلیا تھا، ایک دوسرے کے بناء بالکل بھی نہیں رہ سکتے تھے، مگر بس کھڑکی کی حد تک،!!!! اس سے باھر کبھی ان دونوں نے ملنے کا سوچا بھی نہیں،!!!!!!
کھڑکی بھی اوپر جانے والی سیڑھی کے آڑ میں تھی، جیسے ھی کسی کے آنے جانے کا خدشہ ھوتا یا کوئی آہٹ سنائی دیتی تو نازنین فوراً ھی سیڑھی کے نیچے ایک کونے میں چھپ جاتی، جہاں ویسے بھی اندھیرا رھتا تھا، اور شہزاد چچا بھی پردے کی آڑ میں یا بستر پر لیٹ جاتے تھے، یہ تو میں نے کئی دفعہ اپنے سامنے بھی دیکھا تھا،!!!!
وہ دن میں ویسے بھی کسی نہ کسی بہانے کوئی کھانے پینے کی چیز دینے کے بہانے آجاتی تھی، جب تک اسکی امی کی آواز نہیں آتی تھی، وہ کھڑکی سے ھٹتی ھی نہیں تھی، وہ اب کالج میں تھی اور اس کی پڑھائی اب بالکل توجہ ھٹتی جارھی تھی، شاید کلاس میں بھی وہ سب سے پیچھے تھی، اور دوسری طرف شہزاد چچا بھی دفتر سے اکثر غیر حاضری کرنے لگے تھے، وہاں ان کو نوٹس پر نوٹس مل رھے تھے، مگر انہوں نے بھی کھڑکی کو نہیں چھوڑا، اور نہ ھی نازنین نے، اپنی پڑھائی کی بھی پرواہ نہیں کی،!!!!!!
نازنین کی والدہ کو اپنی بیٹی کی فکر ھونے لگی، وہ ماں تھی اس لئے وہ شاید اپنی بیٹی کے دل کا حال جانتی تھی، شاید وہ یہ بھی چاھتی ھوں کہ شہزاد اچھا لڑکا ھے اگر نازنین کی شادی اس سے ھوجائے تو کتنا ھی اچھا ھو،!!!!!
ایک رات نازین کی والدہ نے ان دونوں کی چوری پکڑ لی اور خاموشی سے وہ کھڑکی کے پاس پہنچی اور نازین کا ھاتھ پکڑ کر لے گئیں، !!!!!
یہ باتیں مجھے خود چچا نے بتائی تھی،!!!!! وہ ھر روز مجھ سے اپنے راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے تھے، اور مجھے بھی اس میں دلچسپی بڑھ رھی تھی،!!!!!
شہزاد کے بھتیجے نے اس کہانی کو مختصر کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!!! وہ مجھے بھائی ھی کہتا تھا،!!!!!
بھائی اس دن کے بعد نازنین کا کھڑکی پر آنا بند ھو گیا اور شہزاد چچا تو بالکل پریشان ھوگئے، دوتین دن بعد ان کی کھڑکی پر نازنین کی والدہ شام کا وقت تھا، چچا فوراً کھڑکی کی طرف جلدی میں پہنچے وہ سمجھے کہ شاید نازنین ھے لیکن وہاں تو اسکی والدہ تھیں، انہوں نے آھستہ آہستہ چچا کو خوب ڈانٹ پلائی، اور واسطے دیئے کہ میری بیٹی کا پیچھا چھوڑ دو، اس کا باپ بہت ظالم ھے وہ تو نہ تمہیں چھوڑے گا اور نازنین کو تو زمین میں دفن کردے گا،!!!!!
اس کے علاوہ نازنین کی والدہ نے یہ بھی کہا کہ کوئی شریفانہ طریقہ اختیار کرو، میں تو تمھیں بہت ھی شریف سمجھتی تھی، وغیرہ وغیرہ،!!!! اگر تم واقعی اس سے شادی کے لئے سنجیدہ ھو تو اپنے گھر والوں کو ھمارے یہاں پیغام لے کر بھیجو، اور یہ بھی کہا کہ،!!! آئیندہ سے میں اس کھڑکی کو کھلا ھوا نہ دیکھوں، دوسرے دن ان کی والدہ نے اپنی طرف سے کھڑکی کے پاس ایک پرانی الماری لا کر کھڑی کروادی،!!!!!
جاری ھے،!!!!!!