محمد اظہر نذیر
محفلین
مژدہ جان فزا، جان بھی لے سکتا ہے
اک بہانے سے خُدا، جان بھی لے سکتا ہے
کُچھ زُبانوں کا کہا، جان بھی لے سکتا ہے
اور کانوں سے سُنا جان بھی لے سکتا ہے
شادئ مرگ نہ طاری ہو، تُو پیغام وصال
دھیرے دھیرے سے سُنا، جان بھی لے سکتا ہے
کیا مُصیبت ہے کہ ملتے ہو بچھڑ جانے کو
تُم سے ہونا یہ جُدا جان بھی لے سکتا ہے
پھول کے ساتھ ہے ممکن کہ ہو کانٹوں میں زہر
پھول گُلشن میں کھلا جان بھی لے سکتا ہے
دوسروں نے ہو دیا گھاؤ، تو جھیلا جائے
زخم اپنوں کا دیا، جان بھی لے سکتا ہے
اور کُچھ بات ہے اظہر، ترے کہہ دینے کی
تُو کرے گا تو گلہ جان بھی لے سکتا ہے
اک بہانے سے خُدا، جان بھی لے سکتا ہے
کُچھ زُبانوں کا کہا، جان بھی لے سکتا ہے
اور کانوں سے سُنا جان بھی لے سکتا ہے
شادئ مرگ نہ طاری ہو، تُو پیغام وصال
دھیرے دھیرے سے سُنا، جان بھی لے سکتا ہے
کیا مُصیبت ہے کہ ملتے ہو بچھڑ جانے کو
تُم سے ہونا یہ جُدا جان بھی لے سکتا ہے
پھول کے ساتھ ہے ممکن کہ ہو کانٹوں میں زہر
پھول گُلشن میں کھلا جان بھی لے سکتا ہے
دوسروں نے ہو دیا گھاؤ، تو جھیلا جائے
زخم اپنوں کا دیا، جان بھی لے سکتا ہے
اور کُچھ بات ہے اظہر، ترے کہہ دینے کی
تُو کرے گا تو گلہ جان بھی لے سکتا ہے