قصر زرکار میں اک جشن طرب
رامش و رنگ کے عنوان سے آراستہ ہے
طشت خوش طلائی کی۔۔۔۔
سجل شمعوں میں چھلمل کرتی
اطلس و دیبا و زربفت کے جا جم پہ سجی
دور دیسوں کی ہر اک نعمت کم یافتہ ہے
ایک منظر کہ شگفتہ آور دل خواستہ ہے
غزفہ ہائے چمن اندام کی محرابوں میں
خانہ زادان کمر بستہ کے ساتھ
ایستادہ و سرودآمادہ
رامش و رنگ کے آہنگ سے آراستہ ہے
طائفہ نغمہ سرایان نوباختہ ہے
یہ گدایانہ سرود!
تاج و اورنگ کا
پرداختہ و ساختہ ہے
صف بہ صف چار طرف
ایستادہ و سرود آمادہ
دست نورین و نگارین سے بجاتی ہوئی دف
چھن چھنن چھند چھند۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حوریاں رقص کناں ساغر شکرانہ زدند"
ساز میں سحر سرود
بول میں شکر و قند
لیکن اے اعلی قد بالا حصار خور سند
تیری سنگین فصیلوں کے تلے
شور گریہ ہے بلند
شور تشنہ گر سنہ غمیں انسانوں کا
شور مجروح سسکتے ہوئے ارمانوں کا
کار گر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن کے سلگتے ہوئے باتھ
ان فصیلوں کی چنائی کے لیے
کوہساروں کی چٹانیں سلیں ڈھالتے ہیں
ہمیں پالتے ہیں
ان کے مدقوق بدن ڈھانپنے سے قاصر ہے
ان کی روئیدہ کپاس
ان کے کھلیانوں میں بھوک
ان کے دریاؤں میں پیاس
ٹوٹتی سانسوں میں دم توڑتی گویائی سن
آدمیت کی یہ مرتی ہوئی شہنائی سن
کرب صدیوں کا یہ خود کاشتہ
برداشتہ پنداشتہ ہے
ان کے بچے انہیں پیارے ہیں مگر
ان کے آتے ہوئے جاتے ہوئے سال
ان کے مدفون بزرگوں کی طرح
ریگ محرومی میں
چپ چاپ گزر جاتے ہیں
کتنے پھول "آب سرابوں" کی طرح
نا دمیدہ ہی بکھر جاتے ہیں
کس خرابے میں یہ اندوختہ انداختہ ہے
قصر زردار میں ایک جشن طرب
رامش و رنگ کے عنوان سے آراستہ ہے
رامش و رنگ کے عنوان سے آراستہ ہے
طشت خوش طلائی کی۔۔۔۔
سجل شمعوں میں چھلمل کرتی
اطلس و دیبا و زربفت کے جا جم پہ سجی
دور دیسوں کی ہر اک نعمت کم یافتہ ہے
ایک منظر کہ شگفتہ آور دل خواستہ ہے
غزفہ ہائے چمن اندام کی محرابوں میں
خانہ زادان کمر بستہ کے ساتھ
ایستادہ و سرودآمادہ
رامش و رنگ کے آہنگ سے آراستہ ہے
طائفہ نغمہ سرایان نوباختہ ہے
یہ گدایانہ سرود!
تاج و اورنگ کا
پرداختہ و ساختہ ہے
صف بہ صف چار طرف
ایستادہ و سرود آمادہ
دست نورین و نگارین سے بجاتی ہوئی دف
چھن چھنن چھند چھند۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حوریاں رقص کناں ساغر شکرانہ زدند"
ساز میں سحر سرود
بول میں شکر و قند
لیکن اے اعلی قد بالا حصار خور سند
تیری سنگین فصیلوں کے تلے
شور گریہ ہے بلند
شور تشنہ گر سنہ غمیں انسانوں کا
شور مجروح سسکتے ہوئے ارمانوں کا
کار گر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن کے سلگتے ہوئے باتھ
ان فصیلوں کی چنائی کے لیے
کوہساروں کی چٹانیں سلیں ڈھالتے ہیں
ہمیں پالتے ہیں
ان کے مدقوق بدن ڈھانپنے سے قاصر ہے
ان کی روئیدہ کپاس
ان کے کھلیانوں میں بھوک
ان کے دریاؤں میں پیاس
ٹوٹتی سانسوں میں دم توڑتی گویائی سن
آدمیت کی یہ مرتی ہوئی شہنائی سن
کرب صدیوں کا یہ خود کاشتہ
برداشتہ پنداشتہ ہے
ان کے بچے انہیں پیارے ہیں مگر
ان کے آتے ہوئے جاتے ہوئے سال
ان کے مدفون بزرگوں کی طرح
ریگ محرومی میں
چپ چاپ گزر جاتے ہیں
کتنے پھول "آب سرابوں" کی طرح
نا دمیدہ ہی بکھر جاتے ہیں
کس خرابے میں یہ اندوختہ انداختہ ہے
قصر زردار میں ایک جشن طرب
رامش و رنگ کے عنوان سے آراستہ ہے