نیرنگ خیال
لائبریرین
فیس بک پر یہ تحریر کچھ سال قبل پڑھی تھی۔ نام معلوم نہیں۔ کس نے ترجمہ کیا ہے۔
چیخوف روس کا ایک مصنف تھا جو 1904 میں فوت ہو گیا. اس نے روس کے سرخ انقلاب سے پہلے وہاں کے حالت پر بے شمار کہانیاں لکھیں جو ہمیں بتاتی ہیں کے روسی معاشرہ کتنا بے حس ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہاں انقلاب آنا پڑا.
چیخوف کی ایک کہانی اس طرح ہے کہ ایک تانگہ والا تھا. غریب اور مجبور. اس کا دس بارہ سال کا بچہ بہت بیمار تھا. وہ اس کا علاج نہ کروا سکتا تھا لہٰذا گھر پر ہی اس کی تیمارداری کر رہا تھا. رات کو بچہ فوت ہو گیا اور وہ اس کے سرہانے ہی روتا رہا. صبح ہوئی تو تانگہ جوتا کہ باقی بچوں کا پیٹ تو پالنا تھا.
ایک سواری ملی. راستے میں اس نے سواری کو بتایا کے رات اس کا بچہ مر گیا. سواری نے کہا بہت افسوس ہوا اور خاموش ہو گئی. اسے اتارا، پھر دوسری سواری مل گئی. یہ کچھ خواتین تھیں. اس نے انہیں بھی بتایا کہ رات اس کا بچہ بغیر علاج کے مر گیا. انہوں نے بھی کہا بہت افسوس ہوا مگر خدا کی مرضی ہے کوئی کیا کر سکتا ہے اور اپنی باتوں میں لگ گئیں. پھر دو چار اور سواریاں بھی ملیں اور ایسے ہی ہوتا رہا.
شام کو گھر پہنچا تو ٹوٹ چکا تھا. گھوڑی کو تانگے سے کھولتے ہوئے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا. گھوڑی کے ماتھے پر اپنا ماتھا ٹکا کر رو پڑا اور کہنے لگا، تو تو ماں ہے، تو تو میرا دکھ سمجھ سکتی ہے. میرا بچہ مر گیا ہے.
اور اس کے ساتھ گھوڑی بھی رو پڑی۔۔۔
چیخوف روس کا ایک مصنف تھا جو 1904 میں فوت ہو گیا. اس نے روس کے سرخ انقلاب سے پہلے وہاں کے حالت پر بے شمار کہانیاں لکھیں جو ہمیں بتاتی ہیں کے روسی معاشرہ کتنا بے حس ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہاں انقلاب آنا پڑا.
چیخوف کی ایک کہانی اس طرح ہے کہ ایک تانگہ والا تھا. غریب اور مجبور. اس کا دس بارہ سال کا بچہ بہت بیمار تھا. وہ اس کا علاج نہ کروا سکتا تھا لہٰذا گھر پر ہی اس کی تیمارداری کر رہا تھا. رات کو بچہ فوت ہو گیا اور وہ اس کے سرہانے ہی روتا رہا. صبح ہوئی تو تانگہ جوتا کہ باقی بچوں کا پیٹ تو پالنا تھا.
ایک سواری ملی. راستے میں اس نے سواری کو بتایا کے رات اس کا بچہ مر گیا. سواری نے کہا بہت افسوس ہوا اور خاموش ہو گئی. اسے اتارا، پھر دوسری سواری مل گئی. یہ کچھ خواتین تھیں. اس نے انہیں بھی بتایا کہ رات اس کا بچہ بغیر علاج کے مر گیا. انہوں نے بھی کہا بہت افسوس ہوا مگر خدا کی مرضی ہے کوئی کیا کر سکتا ہے اور اپنی باتوں میں لگ گئیں. پھر دو چار اور سواریاں بھی ملیں اور ایسے ہی ہوتا رہا.
شام کو گھر پہنچا تو ٹوٹ چکا تھا. گھوڑی کو تانگے سے کھولتے ہوئے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا. گھوڑی کے ماتھے پر اپنا ماتھا ٹکا کر رو پڑا اور کہنے لگا، تو تو ماں ہے، تو تو میرا دکھ سمجھ سکتی ہے. میرا بچہ مر گیا ہے.
اور اس کے ساتھ گھوڑی بھی رو پڑی۔۔۔