امین شارق
محفلین
یہ دو غزلیں کچھ دن پہلے نظروں سے گزریں دونوں لاجواب ہیں سوچا یہاں شئیر کردوں۔ ان دونوں غزلوں میں سے پہلے کونسی غزل کہی گئی ہے اگر کوئی جانتا ہو تو ضرور بتائیں پلیز۔۔
ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیرِ بارِ ساغر و بادہ نہیں کیا
کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سَبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا
(پروین شاکر)
ممکن نہیں تھا جو وہ ارادہ نہیں کیا
ہم نے تُجھے بھلانے کا وعدہ نہیں کیا
لہجے میں اُس کے رنگ تھا کم اعتبار کا
ہم نے بھی اعتبار زیادہ نہیں کیا
تھے مصلحت کی راہ میں سائے بہت گھنے
پر دل نے اختیار وہ جادہ نہیں کیا
جھولی میں ہم نے بھر لیے فاقے سمیٹ کر
دامن کسی کے آگے کشادہ نہیں کیا
تھے، خاکِ پائے اہلِ محبت، مگر کبھی
سجدہِ بہ پیشِ تاج و لبادہ نہیں کیا
حرمت شناس ِ درد تھے، سو ہم نے عمر بھر
امجدؔ حدیثِ جاں کا اعادہ نہیں کیا
(امجد اسلام امجد)
ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیرِ بارِ ساغر و بادہ نہیں کیا
کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سَبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا
(پروین شاکر)
ممکن نہیں تھا جو وہ ارادہ نہیں کیا
ہم نے تُجھے بھلانے کا وعدہ نہیں کیا
لہجے میں اُس کے رنگ تھا کم اعتبار کا
ہم نے بھی اعتبار زیادہ نہیں کیا
تھے مصلحت کی راہ میں سائے بہت گھنے
پر دل نے اختیار وہ جادہ نہیں کیا
جھولی میں ہم نے بھر لیے فاقے سمیٹ کر
دامن کسی کے آگے کشادہ نہیں کیا
تھے، خاکِ پائے اہلِ محبت، مگر کبھی
سجدہِ بہ پیشِ تاج و لبادہ نہیں کیا
حرمت شناس ِ درد تھے، سو ہم نے عمر بھر
امجدؔ حدیثِ جاں کا اعادہ نہیں کیا
(امجد اسلام امجد)