ایک زمین دو شاعر

غالب
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا

دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جر ات آزما پایا

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

متین امروہوی
پوچھئے نہ یہ ہم سے بتکدے میں کیا پایا
جب صنم کو پوجا ہے، تب کہیں خدا پایا

سربلند میرا بھی، ہوگیا زمانے میں
نقش پائے جاناں پر جب اُسے جھکا پایا

خون میری آنکھوں نے بارہا بہایا ہے
بار غم محبت میں، دل کہاں اُٹھا لایا

زندگی! رفاقت کا کھل گیا بھرم تیری
جب چمن میں خوشبو کو پھول سے جُدا پایا

داستاں گلستاں کی، کہہ رہی تھی خاموشی
عندلیب گلشن کو ہم نے بےنوا پایا

میکدے کی راہوں میں‌ پھونک کر قدم رکھنا
تیز گام رندوں کو راہ میں‌ گرا پایا

آئینے ہزاروں ہیں عکس ایک ہے اُس کا
ہم نے کل عناصر میں جلوہء خدا پایا

عشق نے متین اپنا معجزہ دکھایا ہے
جذبہء محبت سے حسن کا پتا پایا​
 
غالب تو غالب ہے ہی مگر دوسری غزل بھی لاجواب ہے ۔
آئینے ہزاروں ہیں عکس ایک ہے اُس کا
ہم نے کل عناصر میں جلوہء خدا پایا
عمدہ !
شراکت کا شکریہ :)
 
متین امروہوی نے غالب کی زمین میں بہت سی غزلیں کہیں ہیں مگر تلاش بیسار کے باوجود مجھے دو ہی ملی ہیں جو میں نے محفل پر شریک کر دیں
 

ماہی احمد

لائبریرین
میرے پاس بھی دو شعراء کا کلام سیو پڑا ہے، جس میں زمین ایک ہی ہے، پر مجھے صحیح سے علم نہیں ہے کہ آیا وہ واقعی انہی دونوں کا ہے۔۔۔
 

ساقی۔

محفلین
زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں، ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں ہم نہ کہتے تھے

علاجِ چاکِ پیراہن ہوا تو اِس طرح ہوگا
سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے

ترانے، کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کرلیں گے
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے

کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے
اِنھیں سڑکوں پر مرجائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے

نظر لپٹی ہے شعلوں میں، لہو تپتا ہے آنکھوں میں
اُٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے

چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اُتر آئیں
ستائے گی کسی دن یادِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی
اُجڑ جائے گا یہ شہرِ غزالاں ہم نہ کہتے تھے

جاں نثار اخترؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں مانگو نہ اُن سے جاں فگاراں ہم نہ کہتے تھے
غنیمِ شہر ہیں چابک سواراں ہم نہ کہتے تھے

خزاں نے تو فقط ملبوس چھینے تھے درختوں سے
صلیبیں بھی تراشے گی بہاراں ہم نہ کہتے تھے

ترس جائیں گی ہم سے بے نواؤں کو تری گلیاں
ہمارے بعد اے شہرِ نگاراں ہم نہ کہتے تھے

جہاں میلہ لگا ہے ناصحوں کا، غمگساروں کا
وہی ہےکوچۂ بے اعتباراں ہم نہ کہتے تھے

کوئی دہلیزِ زنداں پر کوئی دہلیزِ مقتل پر
بنے گی اس طرح تصویرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

فرازؔ اہلِ ریا نے شہر دشمن ہم کو ٹھہرایا
بس اس کارن کہ مدحِ شہرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

احمد فرازؔ -
 
Top