ارشد چوہدری
محفلین
(ایک زمین میں دو غزلیں)
----------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
--------
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
(ایک زمین میں دو غزلیں)
----------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
--------
یہ کتنی بات اچھی ہے بزرگوں نے جو فرمائی
سکھی رہنا اگر چاہو تو جھیلو تم نہ تنہائی
------------
زمانے نے کیا بدنام تھا ہم کو تو پہلے ہی
محبّت میں تری ہم کو ملی اور بھی رسوائی
---------
یہی پہچان ہے میری محبّت میں تری جینا
زمانہ جانتا ہے مجھ کو تیرا ہوں میں شیدائی
----------
نشانی ہے مری تیرے ، رکھنا حفاظت سے
عبا ہے یہ محبّت سے تجھے میں نے جو پہنائی
----------
جہنّم بن بھی جاتی ہے کبھی یہ زندگی ایسے
ملے محبوب نہ کوئی ستائے تجھ کو تنہائی
---------
جفائیں دے جو بدلے میں وفائیں وہ سبھی پا کر
تبھی محبوب کو ایسے سبھی کہتے ہیں ہرجائی
-------
محبّت دل کا سودا ہے تبھی منظور ہوتا ہے
اگر محبوب کی جانب سے ہو اس کی پزیرائی
-----
محبّت دل میں ہوتی ہے نہیں باتوں سے یہ ارشد
وفاؤں کی یہ دنیا میں بڑی سب سے ہے سچّائی
-----------
( دوسری غزل)
------
یہ مزاح کے انداز میں لکھی ہے۔ اسے مزاح سمجھ کر ہی اصلاح کیجائے
---------------
یہ لازم مار ڈالے گی مجھے میری یہ تنہائی
کروں شادی مگر کیسے ہوئی اتنی ہے مہنگائی
-------------
گیا ہے لڑ کے مجھ سے وہ مرا محبوب روٹھا ہے
یہ جھوٹی بات ہے ساری جو لوگوں نے ہے پھیلائی
----------
انوکھا ہے نرالا ہے مرا محبوب دنیا سے
مگر وہ پیار کرتا ہے اسے کہنا نہ ہرجائی
-------------
اسے میں پیار کرتا ہوں مرا محبوب ہے آخر
کراتا ہے مگر مجھ سے ہمیشہ ہی وہ پکوائی
---------------
محبّت بس اسی سے ہی کروں گا میں جیوں جب تک
ضروری بات جو سمجھی وہ پہلے دن ہی لکھوائی
----------یا
یہ ایسی بات تھی اس نے جو پہلے دن ہی لکھوائی
-------------------
بھلی لگتی ہے ارشد کو جو ٹوپی اس نے پہنی ہے
کہ ہے محبوب نے اس کے محبّت سے یہ پہنائی
سکھی رہنا اگر چاہو تو جھیلو تم نہ تنہائی
------------
زمانے نے کیا بدنام تھا ہم کو تو پہلے ہی
محبّت میں تری ہم کو ملی اور بھی رسوائی
---------
یہی پہچان ہے میری محبّت میں تری جینا
زمانہ جانتا ہے مجھ کو تیرا ہوں میں شیدائی
----------
نشانی ہے مری تیرے ، رکھنا حفاظت سے
عبا ہے یہ محبّت سے تجھے میں نے جو پہنائی
----------
جہنّم بن بھی جاتی ہے کبھی یہ زندگی ایسے
ملے محبوب نہ کوئی ستائے تجھ کو تنہائی
---------
جفائیں دے جو بدلے میں وفائیں وہ سبھی پا کر
تبھی محبوب کو ایسے سبھی کہتے ہیں ہرجائی
-------
محبّت دل کا سودا ہے تبھی منظور ہوتا ہے
اگر محبوب کی جانب سے ہو اس کی پزیرائی
-----
محبّت دل میں ہوتی ہے نہیں باتوں سے یہ ارشد
وفاؤں کی یہ دنیا میں بڑی سب سے ہے سچّائی
-----------
( دوسری غزل)
------
یہ مزاح کے انداز میں لکھی ہے۔ اسے مزاح سمجھ کر ہی اصلاح کیجائے
---------------
یہ لازم مار ڈالے گی مجھے میری یہ تنہائی
کروں شادی مگر کیسے ہوئی اتنی ہے مہنگائی
-------------
گیا ہے لڑ کے مجھ سے وہ مرا محبوب روٹھا ہے
یہ جھوٹی بات ہے ساری جو لوگوں نے ہے پھیلائی
----------
انوکھا ہے نرالا ہے مرا محبوب دنیا سے
مگر وہ پیار کرتا ہے اسے کہنا نہ ہرجائی
-------------
اسے میں پیار کرتا ہوں مرا محبوب ہے آخر
کراتا ہے مگر مجھ سے ہمیشہ ہی وہ پکوائی
---------------
محبّت بس اسی سے ہی کروں گا میں جیوں جب تک
ضروری بات جو سمجھی وہ پہلے دن ہی لکھوائی
----------یا
یہ ایسی بات تھی اس نے جو پہلے دن ہی لکھوائی
-------------------
بھلی لگتی ہے ارشد کو جو ٹوپی اس نے پہنی ہے
کہ ہے محبوب نے اس کے محبّت سے یہ پہنائی
----------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
--------
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
(ایک زمین میں دو غزلیں)
----------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
--------
یہ کتنی بات اچھی ہے بزرگوں نے جو فرمائی
سکھی رہنا اگر چاہو تو جھیلو تم نہ تنہائی
------------
زمانے نے کیا بدنام تھا ہم کو تو پہلے ہی
محبّت میں تری ہم کو ملی اور بھی رسوائی
---------
یہی پہچان ہے میری محبّت میں تری جینا
زمانہ جانتا ہے مجھ کو تیرا ہوں میں شیدائی
----------
نشانی ہے مری تیرے ، رکھنا حفاظت سے
عبا ہے یہ محبّت سے تجھے میں نے جو پہنائی
----------
جہنّم بن بھی جاتی ہے کبھی یہ زندگی ایسے
ملے محبوب نہ کوئی ستائے تجھ کو تنہائی
---------
جفائیں دے جو بدلے میں وفائیں وہ سبھی پا کر
تبھی محبوب کو ایسے سبھی کہتے ہیں ہرجائی
-------
محبّت دل کا سودا ہے تبھی منظور ہوتا ہے
اگر محبوب کی جانب سے ہو اس کی پزیرائی
-----
محبّت دل میں ہوتی ہے نہیں باتوں سے یہ ارشد
وفاؤں کی یہ دنیا میں بڑی سب سے ہے سچّائی
-----------
( دوسری غزل)
------
یہ مزاح کے انداز میں لکھی ہے۔ اسے مزاح سمجھ کر ہی اصلاح کیجائے
---------------
یہ لازم مار ڈالے گی مجھے میری یہ تنہائی
کروں شادی مگر کیسے ہوئی اتنی ہے مہنگائی
-------------
گیا ہے لڑ کے مجھ سے وہ مرا محبوب روٹھا ہے
یہ جھوٹی بات ہے ساری جو لوگوں نے ہے پھیلائی
----------
انوکھا ہے نرالا ہے مرا محبوب دنیا سے
مگر وہ پیار کرتا ہے اسے کہنا نہ ہرجائی
-------------
اسے میں پیار کرتا ہوں مرا محبوب ہے آخر
کراتا ہے مگر مجھ سے ہمیشہ ہی وہ پکوائی
---------------
محبّت بس اسی سے ہی کروں گا میں جیوں جب تک
ضروری بات جو سمجھی وہ پہلے دن ہی لکھوائی
----------یا
یہ ایسی بات تھی اس نے جو پہلے دن ہی لکھوائی
-------------------
بھلی لگتی ہے ارشد کو جو ٹوپی اس نے پہنی ہے
کہ ہے محبوب نے اس کے محبّت سے یہ پہنائی
سکھی رہنا اگر چاہو تو جھیلو تم نہ تنہائی
------------
زمانے نے کیا بدنام تھا ہم کو تو پہلے ہی
محبّت میں تری ہم کو ملی اور بھی رسوائی
---------
یہی پہچان ہے میری محبّت میں تری جینا
زمانہ جانتا ہے مجھ کو تیرا ہوں میں شیدائی
----------
نشانی ہے مری تیرے ، رکھنا حفاظت سے
عبا ہے یہ محبّت سے تجھے میں نے جو پہنائی
----------
جہنّم بن بھی جاتی ہے کبھی یہ زندگی ایسے
ملے محبوب نہ کوئی ستائے تجھ کو تنہائی
---------
جفائیں دے جو بدلے میں وفائیں وہ سبھی پا کر
تبھی محبوب کو ایسے سبھی کہتے ہیں ہرجائی
-------
محبّت دل کا سودا ہے تبھی منظور ہوتا ہے
اگر محبوب کی جانب سے ہو اس کی پزیرائی
-----
محبّت دل میں ہوتی ہے نہیں باتوں سے یہ ارشد
وفاؤں کی یہ دنیا میں بڑی سب سے ہے سچّائی
-----------
( دوسری غزل)
------
یہ مزاح کے انداز میں لکھی ہے۔ اسے مزاح سمجھ کر ہی اصلاح کیجائے
---------------
یہ لازم مار ڈالے گی مجھے میری یہ تنہائی
کروں شادی مگر کیسے ہوئی اتنی ہے مہنگائی
-------------
گیا ہے لڑ کے مجھ سے وہ مرا محبوب روٹھا ہے
یہ جھوٹی بات ہے ساری جو لوگوں نے ہے پھیلائی
----------
انوکھا ہے نرالا ہے مرا محبوب دنیا سے
مگر وہ پیار کرتا ہے اسے کہنا نہ ہرجائی
-------------
اسے میں پیار کرتا ہوں مرا محبوب ہے آخر
کراتا ہے مگر مجھ سے ہمیشہ ہی وہ پکوائی
---------------
محبّت بس اسی سے ہی کروں گا میں جیوں جب تک
ضروری بات جو سمجھی وہ پہلے دن ہی لکھوائی
----------یا
یہ ایسی بات تھی اس نے جو پہلے دن ہی لکھوائی
-------------------
بھلی لگتی ہے ارشد کو جو ٹوپی اس نے پہنی ہے
کہ ہے محبوب نے اس کے محبّت سے یہ پہنائی