محمد اظہر نذیر
محفلین
محبت شجر ممنوعہ
محبت شجر ممنوعہ
اسے دل میں اُگانا کیا؟
نہیں اس پر ہے پھل اُگتا
مگر خوراک لیتا ہے
بھلائی کے یہ بدلے میں
بُرائی خوب دیتا ہے
مکمل ہو نہیں سکتا
یونہی پھر آشیانہ کیا؟
اسے دل میں اُگانا کیا؟
یہ ہیں آکاش بیلوں سی
یہ شاخیں تو نہیں اسکی
لپٹ جاتی ہیں انساں سے
کہیں سے پھر کہیں اسکی
سجانے کو بہت کچھ ہے
اسی سے پھر سجانا کیا
اسے دل میں اُگانا کیا؟
کسی گوشے میں یہ دل کے
پڑا رہتا یہ سوتا ہے
اُٹھاؤ تو مصیبت ہے
رُلاتا بھی ہے روتا ہے
اسے سوتا ہی رہنے دو
بلاؤں کو اُٹھانا کیا
اسے دل میں اُگانا کیا؟
اُگائے بن نہیں چارہ
نہ جانے کیسا رُکھ ہے یہ
شنیدہ بات ہے اظہر
نرا بس دُکھ ہی دُکھ ہے یہ
ذرا انجام دیکھو تُم
اسے خود آزمانا کیا
اسے دل میں اُگانا کیا؟