دل کوئی آرزو نہ رہ جائے
بعد مدت کے پی ہیں گھر آئے
÷÷درست
رات پوچھے ملن کبھو ہو گا
اور برسات بھی یہ فرمائے
÷÷رات پوچھے‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا سوال ہے کہ کبھی ملن بھی ہو گا؟ لیکن رات محض فرما رہی ہے۔ یوں کہو تو اک بات ہے
رات کہتی ہے ہو رہے گا ملن
اگرچہ ’فرمائے‘ کا قافیہ اچھا نہیں لگ رہا۔ اللہ کے ساتھ تو توُ کے ساتھ فرمانا قابل قبول ہے، لیکن دوسروں کے لئے یہ تکریم کا لفظ ہے، جس کے ساتھ تو یا واحد کا صیغہ درست نہیں۔ ’رات صاحبہ یہ فرمائیں‘ کہنا چاہئے۔
جی بہت بہتر جناب
وصل کچھ بھی کہو، نہیں مرہم
گھاؤ ہجراں کا کیسے بھر پائے
÷÷درست
باغ الفت اداس کیونکر ہے
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے
۔۔کیونکر ہے‘ اضافی لگ رہا ہے۔ یوں کہو تو
باغ الفت اداس ہے، اے کاش
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے
یا اس کو مقطع بنا کر تخلص بھی لا سکتے ہو
جی بہت بہتر
ہر طرف سے غموں کی بارش کیوں
اب کے برکھا نوید کچھ لائے
÷÷اس کو یوں کہو تو اچھا ہے
دکھ کی برسات ہر طرف کیوں ہے
جی یہ بہت اچھا لگ رہا ہے
چھوڑ اظہر یہ شاعری چل دے
اُس کے بن کچھ نہیں ہے جو بھائے
÷÷ ’جو‘ ’تو‘ دو حرفی کا استعمال کم از کم مجھے پسند نہیں آتا۔ دوسرا مصرع کچھ اور کہو
بہت بہتر جناب
یوں کئے دیتے ہیں
دل کوئی آرزو نہ رہ جائے
بعد مدت کے پی ہیں گھر آئے
رات کہتی ہے ، ہو رہے گا ملن
پھر یہ برسات بھی تو دہرائے
وصل کچھ بھی کہو، نہیں مرہم
گھاؤ ہجراں کا کیسے بھر پائے
باغ الفت اداس ہے، اے کاش
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے
دکھ کی برسات ہر طرف کیوں ہے
اب کے برکھا نوید کچھ لائے
چھوڑ اظہر یہ شاعری چل دے
وہ نہیں ہے، ذرا نہ کچھ بھائے