سید شہزاد ناصر
محفلین
وزیر آباد اور مسجد وزیر خان کا نام کسی پاکستانی کے لیے اجنبی نہیں۔ لیکن اس شہر اور مسجد کو بسانے اور بنانے والے نواب وزیر خان کے حالات سے شاید بہت کم لوگ آگاہ ہوں گے۔
نواب وزیر خان کا اصل نام علیم الدین انصاری تھا۔ وہ پنجاب کے ایک معمولی سے گاؤں میں جو وزیر آباد کے قریب ہی واقع تھا۔ ایک معمولی درجہ کے حکیم تھے۔ اس گاؤں میں اور بھی حکیم موجود تھے جن کی حکمت حکیم صاحب کے مقابلے میں خوب چلتی تھی۔ اس لیے وہ خوب خوشحال تھے۔
حکیم علیم الدین بے حد متقی، قناعت پسند، اللہ توکل والے صابر و شاکر آدمی تھے۔ جو کبھی اپنی مسرت اور تنگ دستی اور اپنی ناقدری پر جلتے کڑھتے نہیں تھے۔ بلکہ اسے مولا کی مرضی سمجھتے ہوئے ہر دم اللہ کے شکر گزار بنے رہتے تھے۔ حکیم صاحب کی بیوی اس صورتحال پر ہمیشہ شاکی رہتیں۔ ان سے لڑتی جھگڑتیں اور اکثر ان کی کتابیں اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیتیں کہ کیا فائدہ تمہاری اس حکمت کا جو گھر کا چولہا بھی نہ جلا سکے۔ نیک دل حکیم صاحب جواباً بیوی سے الجھنے کے انہیں صبر و شکر کی تلقین کرتے۔ اچھے دنوں کی امید دلاتے جو آکر ہی نہ دے رہے تھے۔
ایک مرتبہ حکیم صاحب کے گھر کئی دنوں تک چولھا نہ جلا، ان کے خاندان پر فاقے گزرنے لگے اور ان کی بیوی کے طعنے دراز ہوتے گئے تو حکیم صاحب شدید آزردگی کی حالت میں گاؤں کی مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔ وہاں انہوں نے نمازِ عشا ادا کی اور گھر جانے کے بجائے وہیں رک گئے۔ نمازِ تہجد کے وقت انہوں نے اٹھ کر وضو کیا۔ نماز ادا کی اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر رونے گڑ گڑانے لگے کہ '' بارِ الٰہی! میری ایسی ناقدری کیوں ہورہی ہے؟ میں ایسی قدر ناشناسی کا شکار کیوں ہوں...؟'' نماز فجر تک حکیم صاحب اسی طرح اللہ کے حضور روتے گڑگڑاتے اور اس سے اس کے فضل و کرم کی بھیک مانگتے رہے۔ پھر جب انہوں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو سجدے کی جگہ ان کے آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی۔ ان کا دل بے حد مطمئن اور ایک طرح کا روحانی سکون محسوس کر رہا تھا۔ اس دوران میں دوسرے نمازی بھی مسجد میں آنا شروع ہوچکے تھے۔ حکیم صاحب نے ان کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی اور گھر آگئے۔ انہوں نے سوچا تھوڑی دیر سولوں پھر جا کر اپنا مطب کھولوں گا۔ لیکن اس وقت گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے جاکر دروازہ کھولا تو باہر ایک سپاہی کو کھڑے پایا۔ اس نے ان سے کہا کہ ان کا لشکر کا سالار شدید پیٹ درد میں مبتلا ہے وہ چل کر اسے دیکھ لیں۔ حکیم صاحب سمجھ گئے کہ سالاردر حقیقت درد قولنج میں مبتلا تھا۔ انہوں نے ضروری دوائیاں ساتھ لیں اور سپاہی کے ہمراہ لشکر گاہ پہنچ گئے۔ سالار اپنے خیمے میں بستر پر پڑا بری طرح سے درد سے تڑپ رہا تھا۔حکیم صاحب نے اسے اپنی دوا استعمال کروائی۔ تھوڑی دیر میں اس کی حالت سنبھلنی شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ اس کا درد جاتا رہا اور وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے حکیم صاحب کا شکریہ ادا کرنے اور ان کی حکمت کو سراہنے کے ساتھ انہیں اشرفیوں کی ایک تھیلی بھی دی۔
حکیم صاحب اللہ کی اس مہربانی پر ممنون و مشکور مسرور و شاداں اپنے گھر واپس آگئے۔ انہوں نے اپنے اہل خانہ کو تمام قصہ سنایا اور انہیں اشرفیوں کی تھیلی دکھائی۔ اور کہا کہ انہیں اپنا گاؤں چھوڑ کر کسی بڑے شہر چلے جانا چاہیے۔ وہاں وہ اپنا مطب کھول لیں گے۔ ممکن ہے وہاں ان کی حکمت خوب چل نکل لے۔ ان کی بیوی نے ان کی اس تجویز کو پسند کیا۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ چنددنوں بعد وہ رخت سفر باندھ کر کسی بڑے شہر روانہ ہوجائیں۔ لیکن اسی شام لشکر کے سالار کی طرف سے ایک سپاہی اس کا پیغام لے کر پہنچ گیا کہ حکیم صاحب فوراً اپنا رخت سفر باندھ لیں اور اپنے خاندان کے ساتھ لشکر کے ہمراہ دارالحکومت آگرہ چلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ حکیم صاحب اور ان کے اہل خانہ فوراً ہی تیار ہو کر لشکر سے جا ملے۔ اور اس کے ہمراہ آگرہ روانہ ہوگئے۔راستے بھر حکیم صاحب سالار کی دی ہوئی اشرفیوں سے آگرہ میں اپنا مطب قائم کرنے کے طرح طرح کے منصوبے سوچتے رہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آگرہ جا کر وہ جس مکان میں رہائش اختیار کریں گے اسی کے ایک حصے میں اپنی دکانِ حکمت کھول لیں گے۔ ان کی یہ دکان رفتہ رفتہ ترقی کرتی جائے گی۔
لیکن اب رحمتِ خداوندی پوری طرح جوش میں آچکی تھی۔ حکیم صاحب کی اللہ کی حضور سجدہ ریزی اور گریہ و زاری نے عرشِ الٰہی کو ہلا دیا تھا! جونہی یہ لشکر آگرہ پہنچا، انہیں اطلاع ملی کہ نور جہاں بادشاہ بیگم شدید عرق النسا میں مبتلا کئی دنوں سے ہلنے جلنے چلنے پھرنے سے معذور بستر پر پڑی ہیں۔ شاہی اطبا اور دیگر حکما کی دوائیں اور تدبیریں کوئی کام نہیں کر رہیں۔ یہ اطلاع پاتے ہی نووارد لشکر کا سالار شہنشاہ جہانگیرکی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے اسے حکیم علیم الدین انصاری کے بارے میں بتایا۔ ان کے ہاتھوں اپنی شفا یابی کا واقعہ سنایا اور ان کی حکمت کی تعریف کرتے ہوئے ان سے بادشاہ بیگم کے علاج کے سفارش کی۔ جہانگیر پہلے ہی اپنی محبوب ملکہ کی علالت پر بے حد پریشان اور ہر قسم کے علاج معالجہ کے لیے تیار تھا۔ فوراً راضی ہوگیا اور حکیم صاحب کو بلوا کر انہیں ملکہ کے علاج کا حکم دیا۔ حکیم صاحب نے ملکہ کی فصد کھلوائی، فاسد خون نکالا۔ ضروری ادویات وغیرہ دیں، غذا اور پرہیز بتایا۔ اللہ کی قدرت سے چند دنوں کے اندر اندر بادشاہ بیگم مکمل صحت یاب ہو کر بستر سے اٹھ کر چلنے پھرنے لگیں۔ اسی مسیحائی پر جہانگیر نے حکیم صاحب کو نہ صرف بھاری انعامات اور کرامات سے نوازا بلکہ وزیر خان کے لقب سے سرفراز کرتے ہوئے انہیں شاہی طبیب کا عہدہ بھی عطا کیا۔ پھر انہیں پنج ہزاری منصب، ایک شاندار محل نوکر چاکر ہاتھی گھوڑے بھی عطا کیے۔ یوں حکیم صاحب کے ہاں دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ان کی بیوی جو پہلے ہر دم ان کی ناکام حکمت پر نالاں تنگ دستی پر شکوہ سنج رہتی تھیں اب بڑی شان کی زندگی گزارنے لگیں۔ ان کے بچے عیش و آرام سے رہنے لگے۔ لیکن اس کا یا پلٹ کے باوجود حکیم صاحب کے عجز و انکسار، شکر گزاری، تقویٰ اور دینداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ انہوں نے اپنا دامن ہمیشہ امیرانہ زندگی کی آلودگیوں سے بچا کر رکھا اور اپنے آپ کو نیکی اور بھلائی کے کاموں کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے بے شمار مساجد، مدرسے، سرائیں، سڑکیں اور پل تعمیر کروائے۔ بیواؤں اور یتامیٰ کے وظائف مقرر کیے۔ نیکی کے ہر کام کے لیے ان کے ہاتھ ہمیشہ کھلے رہے۔
پھر جہانگیر کے بعد شاہ جہاں تخت آگرہ پر رونق افرز ہوا۔ اس نے بھی حکیم صاحب کی بے حد قدر افزائی کی۔ انہیں ہفت ہزاری منصب اور جاگیر عطا کی۔ اب حکیم صاحب کی شان و شوکت اور کروفر میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ اتنے بلند مقام اور دولت کی ریل پیل کے باوجود حکیم صاحب اللہ کے احسان کو کبھی نہ بھولے۔ اور بدستور نیکی اور بھلائی کے کام کرتے رہے۔ اس زمانے میں انہوں نے اپنے گاؤں کے قریب وزیر آباد شہر آباد کیا اور مسجد وزیر خان جیسی شاندار اور پر شکوہ مسجد تعمیر کروائی۔ وہ اور بھی بہت سے نیکی کے کام کرنے کے خواہشیں دل میں لیے ہوئے تھے اور یقینا انہیں کر ڈالتے کہ اللہ کے حضور سے ان کا بلاوا آگیا۔
یہ ہے ایک سچے سجدے کی کہانی۔ تحریر: تورا کینہ قاضی
بشکریہ فیس بک
نواب وزیر خان کا اصل نام علیم الدین انصاری تھا۔ وہ پنجاب کے ایک معمولی سے گاؤں میں جو وزیر آباد کے قریب ہی واقع تھا۔ ایک معمولی درجہ کے حکیم تھے۔ اس گاؤں میں اور بھی حکیم موجود تھے جن کی حکمت حکیم صاحب کے مقابلے میں خوب چلتی تھی۔ اس لیے وہ خوب خوشحال تھے۔
حکیم علیم الدین بے حد متقی، قناعت پسند، اللہ توکل والے صابر و شاکر آدمی تھے۔ جو کبھی اپنی مسرت اور تنگ دستی اور اپنی ناقدری پر جلتے کڑھتے نہیں تھے۔ بلکہ اسے مولا کی مرضی سمجھتے ہوئے ہر دم اللہ کے شکر گزار بنے رہتے تھے۔ حکیم صاحب کی بیوی اس صورتحال پر ہمیشہ شاکی رہتیں۔ ان سے لڑتی جھگڑتیں اور اکثر ان کی کتابیں اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیتیں کہ کیا فائدہ تمہاری اس حکمت کا جو گھر کا چولہا بھی نہ جلا سکے۔ نیک دل حکیم صاحب جواباً بیوی سے الجھنے کے انہیں صبر و شکر کی تلقین کرتے۔ اچھے دنوں کی امید دلاتے جو آکر ہی نہ دے رہے تھے۔
ایک مرتبہ حکیم صاحب کے گھر کئی دنوں تک چولھا نہ جلا، ان کے خاندان پر فاقے گزرنے لگے اور ان کی بیوی کے طعنے دراز ہوتے گئے تو حکیم صاحب شدید آزردگی کی حالت میں گاؤں کی مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔ وہاں انہوں نے نمازِ عشا ادا کی اور گھر جانے کے بجائے وہیں رک گئے۔ نمازِ تہجد کے وقت انہوں نے اٹھ کر وضو کیا۔ نماز ادا کی اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر رونے گڑ گڑانے لگے کہ '' بارِ الٰہی! میری ایسی ناقدری کیوں ہورہی ہے؟ میں ایسی قدر ناشناسی کا شکار کیوں ہوں...؟'' نماز فجر تک حکیم صاحب اسی طرح اللہ کے حضور روتے گڑگڑاتے اور اس سے اس کے فضل و کرم کی بھیک مانگتے رہے۔ پھر جب انہوں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو سجدے کی جگہ ان کے آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی۔ ان کا دل بے حد مطمئن اور ایک طرح کا روحانی سکون محسوس کر رہا تھا۔ اس دوران میں دوسرے نمازی بھی مسجد میں آنا شروع ہوچکے تھے۔ حکیم صاحب نے ان کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی اور گھر آگئے۔ انہوں نے سوچا تھوڑی دیر سولوں پھر جا کر اپنا مطب کھولوں گا۔ لیکن اس وقت گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے جاکر دروازہ کھولا تو باہر ایک سپاہی کو کھڑے پایا۔ اس نے ان سے کہا کہ ان کا لشکر کا سالار شدید پیٹ درد میں مبتلا ہے وہ چل کر اسے دیکھ لیں۔ حکیم صاحب سمجھ گئے کہ سالاردر حقیقت درد قولنج میں مبتلا تھا۔ انہوں نے ضروری دوائیاں ساتھ لیں اور سپاہی کے ہمراہ لشکر گاہ پہنچ گئے۔ سالار اپنے خیمے میں بستر پر پڑا بری طرح سے درد سے تڑپ رہا تھا۔حکیم صاحب نے اسے اپنی دوا استعمال کروائی۔ تھوڑی دیر میں اس کی حالت سنبھلنی شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ اس کا درد جاتا رہا اور وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے حکیم صاحب کا شکریہ ادا کرنے اور ان کی حکمت کو سراہنے کے ساتھ انہیں اشرفیوں کی ایک تھیلی بھی دی۔
حکیم صاحب اللہ کی اس مہربانی پر ممنون و مشکور مسرور و شاداں اپنے گھر واپس آگئے۔ انہوں نے اپنے اہل خانہ کو تمام قصہ سنایا اور انہیں اشرفیوں کی تھیلی دکھائی۔ اور کہا کہ انہیں اپنا گاؤں چھوڑ کر کسی بڑے شہر چلے جانا چاہیے۔ وہاں وہ اپنا مطب کھول لیں گے۔ ممکن ہے وہاں ان کی حکمت خوب چل نکل لے۔ ان کی بیوی نے ان کی اس تجویز کو پسند کیا۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ چنددنوں بعد وہ رخت سفر باندھ کر کسی بڑے شہر روانہ ہوجائیں۔ لیکن اسی شام لشکر کے سالار کی طرف سے ایک سپاہی اس کا پیغام لے کر پہنچ گیا کہ حکیم صاحب فوراً اپنا رخت سفر باندھ لیں اور اپنے خاندان کے ساتھ لشکر کے ہمراہ دارالحکومت آگرہ چلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ حکیم صاحب اور ان کے اہل خانہ فوراً ہی تیار ہو کر لشکر سے جا ملے۔ اور اس کے ہمراہ آگرہ روانہ ہوگئے۔راستے بھر حکیم صاحب سالار کی دی ہوئی اشرفیوں سے آگرہ میں اپنا مطب قائم کرنے کے طرح طرح کے منصوبے سوچتے رہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آگرہ جا کر وہ جس مکان میں رہائش اختیار کریں گے اسی کے ایک حصے میں اپنی دکانِ حکمت کھول لیں گے۔ ان کی یہ دکان رفتہ رفتہ ترقی کرتی جائے گی۔
لیکن اب رحمتِ خداوندی پوری طرح جوش میں آچکی تھی۔ حکیم صاحب کی اللہ کی حضور سجدہ ریزی اور گریہ و زاری نے عرشِ الٰہی کو ہلا دیا تھا! جونہی یہ لشکر آگرہ پہنچا، انہیں اطلاع ملی کہ نور جہاں بادشاہ بیگم شدید عرق النسا میں مبتلا کئی دنوں سے ہلنے جلنے چلنے پھرنے سے معذور بستر پر پڑی ہیں۔ شاہی اطبا اور دیگر حکما کی دوائیں اور تدبیریں کوئی کام نہیں کر رہیں۔ یہ اطلاع پاتے ہی نووارد لشکر کا سالار شہنشاہ جہانگیرکی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے اسے حکیم علیم الدین انصاری کے بارے میں بتایا۔ ان کے ہاتھوں اپنی شفا یابی کا واقعہ سنایا اور ان کی حکمت کی تعریف کرتے ہوئے ان سے بادشاہ بیگم کے علاج کے سفارش کی۔ جہانگیر پہلے ہی اپنی محبوب ملکہ کی علالت پر بے حد پریشان اور ہر قسم کے علاج معالجہ کے لیے تیار تھا۔ فوراً راضی ہوگیا اور حکیم صاحب کو بلوا کر انہیں ملکہ کے علاج کا حکم دیا۔ حکیم صاحب نے ملکہ کی فصد کھلوائی، فاسد خون نکالا۔ ضروری ادویات وغیرہ دیں، غذا اور پرہیز بتایا۔ اللہ کی قدرت سے چند دنوں کے اندر اندر بادشاہ بیگم مکمل صحت یاب ہو کر بستر سے اٹھ کر چلنے پھرنے لگیں۔ اسی مسیحائی پر جہانگیر نے حکیم صاحب کو نہ صرف بھاری انعامات اور کرامات سے نوازا بلکہ وزیر خان کے لقب سے سرفراز کرتے ہوئے انہیں شاہی طبیب کا عہدہ بھی عطا کیا۔ پھر انہیں پنج ہزاری منصب، ایک شاندار محل نوکر چاکر ہاتھی گھوڑے بھی عطا کیے۔ یوں حکیم صاحب کے ہاں دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ان کی بیوی جو پہلے ہر دم ان کی ناکام حکمت پر نالاں تنگ دستی پر شکوہ سنج رہتی تھیں اب بڑی شان کی زندگی گزارنے لگیں۔ ان کے بچے عیش و آرام سے رہنے لگے۔ لیکن اس کا یا پلٹ کے باوجود حکیم صاحب کے عجز و انکسار، شکر گزاری، تقویٰ اور دینداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ انہوں نے اپنا دامن ہمیشہ امیرانہ زندگی کی آلودگیوں سے بچا کر رکھا اور اپنے آپ کو نیکی اور بھلائی کے کاموں کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے بے شمار مساجد، مدرسے، سرائیں، سڑکیں اور پل تعمیر کروائے۔ بیواؤں اور یتامیٰ کے وظائف مقرر کیے۔ نیکی کے ہر کام کے لیے ان کے ہاتھ ہمیشہ کھلے رہے۔
پھر جہانگیر کے بعد شاہ جہاں تخت آگرہ پر رونق افرز ہوا۔ اس نے بھی حکیم صاحب کی بے حد قدر افزائی کی۔ انہیں ہفت ہزاری منصب اور جاگیر عطا کی۔ اب حکیم صاحب کی شان و شوکت اور کروفر میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ اتنے بلند مقام اور دولت کی ریل پیل کے باوجود حکیم صاحب اللہ کے احسان کو کبھی نہ بھولے۔ اور بدستور نیکی اور بھلائی کے کام کرتے رہے۔ اس زمانے میں انہوں نے اپنے گاؤں کے قریب وزیر آباد شہر آباد کیا اور مسجد وزیر خان جیسی شاندار اور پر شکوہ مسجد تعمیر کروائی۔ وہ اور بھی بہت سے نیکی کے کام کرنے کے خواہشیں دل میں لیے ہوئے تھے اور یقینا انہیں کر ڈالتے کہ اللہ کے حضور سے ان کا بلاوا آگیا۔
یہ ہے ایک سچے سجدے کی کہانی۔ تحریر: تورا کینہ قاضی
بشکریہ فیس بک