ایک سفر بہت سی کہانیاں

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہفتے والے دن چھوٹے بھائی عمر کے سکول سٹاف کا پکنک کا پروگرام بنا جس میں اس نے ساری فیملی کو بھی دعوت دی۔ اس دعوت کے بعد یہ پکنک سٹاف کی کم اور ہماری زیادہ ہوگی۔ ایک کوسٹر بک کروائیگی اور ہفتے والے دن صبح 8 بج کر 30 منٹ پر عمر اپنے سکول اسٹاف اور سٹاف کے والدین کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہا تھا اورہم سب 9 بجے وہاں پہنچے اورپورے نو بجےگاڑی مری کی طرف چل پڑی۔ ہمارے اندازے کے مطابق ہم گاڑی میں پورے آ رہےتھے کہ اچانک دو اسٹاف کی ٹیچروں کی کزن بھی آ گئی جس کی وجہ سے مجھے اور میرے بڑے بھائی کو سارے راستے کھڑے ہوکر جانا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود بہت انجوائے کیا۔ ہماری پوری فیملی یعنی ہم چار بہنیں اور چار بھائی ، بڑے بھائی کی بیگم (بھابھی) اورمیری بیگم بھائی کےتین بچے اورمیری ایک بیٹی۔ بڑی بہن کے تین بچے اور بہنوئی بھی، چچی جان اور ان کے چار بچے ماشاءاللہ سے اس پکنک کا حصہ بنے اورخودسوچیں کے ہمیں مزہ آیا ہو گایانہیں۔ میں اورمیری بیگم ہر کسی کے ساتھ گُل مل جاتے ہیں۔ یعنی ہر طرح کے ماحول کو انجوائے کرتے ہیں اس لیے ہمیں تو بہت مزہ آیا۔ اس سفر میں باقی کسی نے نوٹ کیا ہو یا نا کیا ہو لیکن میں نے بہت سی کہانیاں نوٹ کی۔ جو سن کر مجھے افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی ہوئی۔ یہاں میں ان کہانیاں کو وقفہ وقفہ سے بیان کرتا جاؤں گا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
پولیس اور عوام

حادثات کا سبب عوام ہی ہوتی ہے اور اکثر عوام کی ہی غلطی ہوتی ہے۔ بہت سی جگہوں پر میں نے ٹریفک پولیس والوں کو دیکھا ہے وہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہوتے ہیں اور عوام ان کے اشاروں کی قدر نہیں کرتی ہو آگے نکلنے کی کوشش میں حادثے کا شکار ہوجاتی ہے۔ جب ہماری گاڑی ٹول پلازے کے پاس پہنچی جہاں سے ہم نے مری کے لیے نکلنا تھا تو کیا دیکھا بہت زیادہ ٹریفک کا رش لگا ہوا ہے۔ ڈرائیور جو کے ہمارے جاننے والے ہی تھے وہ اترے اور ساتھ میں بھی اتر گیا تاکہ آگے جا کر پتہ کیا جائے کہ راستہ کیوں بند ہیں۔ جب ہم آگے پہنچے تو ایک پولیس والا تمام لوگوں کو بتا رہا تھا کہ آگے برف پڑنے کی وجہ سے راستہ بند ہیں اور حادثات ہونے کا امکان ہے جس کی وجہ سے یہ راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ آپ موٹر وے کی طرف سے چلے جائیں یا پھر پتریاٹا چلے جائیں۔ ہم نے بات سنی اور واپس آ گے آ کر سب کو بتایا یہ مسئلہ ہے کیا کرنا چاہے۔ بھائی نے مجھ سے پوچھا پتریاٹا کا راستہ ٹھیک ہے تو میں نے ہاں میں جواب دیا۔ پھر بھائی نے سب سے مشورہ کیا پتریاٹا جائے یا پھر راستہ کھلنے کا انتظار کریں۔ تو سب نے کہا پتریاٹا چلتے ہیں۔ ہم گاڑی وہاں سے موڑنے لگے تو کچھ گاڑیاں آگے جا رہی تھیں۔ میں نے بھائی کو کہا ایک منٹ رکے میں پتہ کرتا ہوں۔ میں پھر ٹریفک پولیس کے پاس گیا اور پوچھا کیا راستہ کھل گیا ہے۔ تو پولیس مین نے جواب دیا راستہ نہیں کھلا۔ پھر میں نے پوچھا تو یہ لوگ کیوں جا رہے ہیں۔ پھر مجھے انہوں نے سمجھانے والے انداز میں بتایا۔ دیکھو بھائی ہمارا کام ہے آپ لوگوں کی خدمت اور مدد کرنا ہمارا کام تھا ہم آپ کو بہتر حل بتائیں۔ ہم نے آپ کو بتایا کہ مری کا یہ راستہ بند ہیں آپ موٹر وئے کی طرف سے چلے جاو یا پتریاٹا چلے جاؤ۔ لیکن یہ لوگ نہیں مانے۔ یہ جو گاڑیاں آپ کو نظر آ رہی ہیں یہ سب سکول اور کالجز کی ہیں جیسے آپ لوگ آئے ہیں ایسے یہ لوگ بھی آئے ہیں۔ سب کو ہم نے سمجھایا ہے لیکن یہ کہتے ہیں ہم حادثے کے خود ذمہ دار ہیں آپ بس ہمیں جانے دیں اگر نہیں جانے دیں گے تو پھر کسی بھی قسم کے نتائج کے ذمہ دار آپ ہونگے۔ اب جس عوام کی خدمت کے لیے ہم یہاں موجود ہیں وہی ہم کو دھمکی دے رہی ہے۔ پھر ہم نے اپنے افیسر کو فون کیا اور ان کو صورتِ حال بتائی۔ تو انہوں نے کہا جو دھمکیاں دے رہا ہے ان کو جانے دو ۔ ہم نے کہا اگر ان کو جانے دیں گے تو باقی والے دھمکیان دینا شروع کر دیں گے۔ پھر انہوں نے کہا آپ سب کو جانے دو اور خود چھٹی کرو اور اب ہم گھر جانے لگے ہیں۔
یہ بات سن کر میں واپس آ گیا اور بھائی کو کہا پتریاٹا ہی چلتے ہیں۔ راستہ صاف نہیں ہے اور یہ سب لوگ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں پولیس والے نے کلیئر نہیں کیا۔ ہم نے خود الٹے کام کرتے ہیں پھر الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی بُری خبر نہیں آئی لیکن ہمیں احترام کرنا چاہے ان کا جو ہمارے لیے اتنا سوچتے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بے عقل یا خود غرض

دور تو نفسانفی کا ہے، ہر کسی کو اپنی ہی پڑی ہے۔ کوئی کسی کا نہیں سوچتا اور نا ہی سوچنا چاہتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی کسی کی مدد کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا۔ ظاہر ہے مدد کرنے والے کی اپنی بھی تو کوئی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ہماری گاڑی بہت مزے سے جا رہی تھی بڑی گاڑی ہونے کی وجہ سے ہمیں مشکلات کم تھی لیکن چھوٹی گاڑیوں والوں کو بہت مسئلہ ہو رہا تھا۔ ایک تو ہمارا ڈرائیور بہت اچھا تھا تجربہ کار بھی تھا اور دوسرا ہمارے جاننے والا تھا اس لیے ہم جو بھی کریں ہمیں منع نہیں کر رہے تھے ۔ ہم نے شور و غل کیا ، گانے گائے، نعتیں پڑھی، سیاسی بحث کی لیکن وہ اپنے مزے میں گاڑی چلاتے رہے۔ اسی دوران گاڑی ایک جگہ پر انہونے روک دی۔ کیا دیکھتے ہیں سامنے ایک چھوٹی گاڑی برف میں پھنس گئی ہے۔ جب وہ چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو ٹائیر پھسل جاتا ہے۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی ثاقب کو کہا چلو ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں ہماری غرض بھی شامل تھی کہ ان کی گاڑی نکلے گی تو ہمارا راستہ بھی صاف ہو جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے ڈرائیور نے مجھے کہا یہ سامنے والا پتھر سائیڈ پر کر دو تاکہ میں ایک سائیڈ پر گاڑی کھڑی کر دوں۔ جب ہم نیچے اترے تو دیکھا اس گاڑی کے پیچھے ایک اور گاڑی تھی اور وہ بھی اسی طرح پھنسی ہوئی تھی۔ میں نے پتھر ایک طرف کیا اور ثاقب کو ساتھ لے کر آگے چلے گے۔ ہمارے پیچھے پیچھے ہمارا کزن ولید، بڑے بھائی عامر، بہنوں امجد بھائی بھی ساتھ آ گے۔ سامنے دونوں گاڑیوں نے پورا راستہ روک رکھا تھا یعنی ایک گاڑی آنے والی راستے پر تھی اور دوسری جانے والے راستے میں اور ان کی ترتیب یوں تھی کہ ایک گاڑی دوسری گاڑی کو اورٹیک کرنے لگی تھی شاید اور دونوں برف میں پھنس گئی۔ درمیان میں برف بہت کم تھی اور دونوں اطراف میں زیادہ تھی۔ اس لیے دونوں گاڑیاں پھنس گئی ہم جب ان کے پاس پہنچے تو ایک بندہ اور پچھلی گاڑی سے اتر کر آ گیا۔ اس نے کہا دونوں گاڑیوں والوں کو کہا بھائی پہلے ایک گاڑی نکال لیتے ہیں سب مل کر اور پھر دوسری نکالتے ہیں اس طرح بندے زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک گاڑی نکل جائے گی تو پھر دوسری بھی آرام سے نکال لیں گے۔ اس مشورے کے بعد دونوں کا خیال یہی تھا کہ پہلے ان کی گاڑی نکالی جائے۔ یعنی دونوں کے دل میں چور تھا کہ جس کی گاڑی پہلے نکلے گی وہ چلا جائے گا (یہ میری ذاتی سوچ ہے) اس وجہ سے شاید کوئی بھی دوسرے کی گاڑی کو دھکا نہیں لگا رہا تھا اب ہم آئے تھے دھکا لگانے کے لیے لیکن برف پر ہمارے پاؤں جم نہیں سکتے تھے اس لیے پھسلنے کا چانس زیادہ تھا اور اسی دوران جو بندہ بعد میں آیا تھا وہ بچارا پھسل بھی گیا اور ہم نے اس کو اٹھایا۔ اب دونوں گاڑی والے اپنی اپنی گاڑی کی فکر میں لگ گے۔ اس بندے نے بھی ان کو چھوڑ دیا اور ہم نے بھی چھوڑ دیا اور ہم بھی تصویریں بنانے لگے۔

531373_3870292006334_524029021_n.jpg

اس تصویر میں نظر آنے والا میرا چھوٹا بھائی ہے اس کے پچھے ایک گاڑی کھڑی ہے اور دوسری طرف سفید گاڑی کا ٹائیر آپ کو نظر آ رہا ہو گا اور جو پیچھے کوسٹر کھڑی ہے وہ ہماری گاڑی ہے۔ اگر سفید گاری اپنی لائین میں ہوتی تو ہم کب کے نکل چکے ہوتے۔ جب ہم تصویریں بنانے لگ گے تو پھر سفید گاڑی والا ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا چلیں بھائی ہم سب مل کر پہلے اس گاڑی کو نکالتے ہیں پھر بعد میں ہماری گاڑی نکال لیں گے۔ اس کی اس دعوت پر ہم سب ان کی مدد کو چل پڑے اور پہلے ایک گاڑی اور پھر دوسری گاڑی کو میرے خیال میں پانچ منٹ کے وقفہ سے نکال لیا اور ہم اپنی منزل کی طرف چل پڑے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پولیس اور عوام

حادثات کا سبب عوام ہی ہوتی ہے اور اکثر عوام کی ہی غلطی ہوتی ہے۔ بہت سی جگہوں پر میں نے ٹریفک پولیس والوں کو دیکھا ہے وہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہوتے ہیں اور عوام ان کے اشاروں کی قدر نہیں کرتی ہو آگے نکلنے کی کوشش میں حادثے کا شکار ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔
ہم نے خود الٹے کام کرتے ہیں پھر الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی بُری خبر نہیں آئی لیکن ہمیں احترام کرنا چاہے ان کا جو ہمارے لیے اتنا سوچتے ہیں
بالکل درست کہا خرم۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس انہی ٹریفک پولیس اور گارڈز کے لئے ہوتا ہے۔ وہ لوگ اپنا فرض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں اور ہم لوگ ان کے ساتھ بحث اور جھگڑے میں پڑ جاتے ہیں۔ اور اس بات کا بالکل احساس نہیں کرتے کہ اصول و قوانین ہماری بہتری کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔ پھر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو الزام بھی انہی پر دھر دیا جاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ کتنی بڑی کوسٹر تھی، جس میں آپ سب اور اسکول کا سٹاف و دیگر خواتین و حضرات پورے آ گئے تھے؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں اور فوٹو گرافر

جب ہم چیر لفٹ پر سفر کرنے لگے تو ایک فوٹو گرافر نے مجھے کہا کہ چیر لفٹ پر بیٹھنے کی تصویر بنوا لیں یاد گار رہے گی۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنا کیمرہ نکال کر دیکھا دیا۔ تو کہنے لگا سر کیمرے تو سب کے پاس ہوتے ہیں لیکن جیسی فوٹو ہم بنا سکتے ہیں ویسی آپ نہیں بنا سکتے۔ میں نے کہا بھائی آپ کا تجربہ مجھ سے زیادہ ہی ہوگا لیکن مجھے بھی تصویریں بنانے کا شوق ہے اور میرا خیال ہے میں اس طرح کی تصویر بنا لوں گا۔ میں آگے جانے لگا تو پیچھے سے پھر بولا بھائی ہم پہاڑی پر چڑ کر تصویر بناتے ہیں۔ آپ سے ویسی تصویر نہیں بن سکتی۔ پھر مجھے اس نے تصویر دیکھائی دوبندے چیر لفٹ پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن وہ تصویر تھوڑے فاصلے سے بنائی گئی تھی۔ میں نے اس کو کہا میں اس سے بہتر تصویر بنا سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں آگے کی طرف موڑ گیا۔ پھر اس نے پیچھے سے کچھ کہا لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی میرا چھوٹا کزن ولید وہی پر کھڑا تھا اس نے اس فوٹوگرافر کو کہا بھائی آپ فوٹو گرافر ہو تو یہ بھی فوٹو گرافر ہیں۔ پھر اس نے کہا میرے سات شرط لگا لو تم ایسی تصویر نہیں بنا سکتے۔ میں اس سے دور آ چکا تھا لیکن مجھے اس کی آواز آ گئی تھی میں بھی اس کے چیلنج کے لیے تیار ہوگیا۔ لیکن میرے چھوٹے بھائی ثاقب نے اس فوٹو گرافر کوکہا جاؤ یار چھوڑو اس قصے کو ختم کرو اور جاؤ آپ اپنا کام کرو۔ اس نے ثاقب کو کہا تمہیں کیا ہے میں تو اس کے ساتھ لگا ہوا ہوں۔ ثاقب نے کہا یہ میرے بڑے بھائی ہیں۔ ہم تین ہو گے اور وہ اکیلا تھا اتنے میں سارے فوٹوگرافر جمع ہوگے۔ وجہ پوچھنے پر جب پتہ چلا کہ اس فوٹوگرافر کو کہا بھی ہے ہمارا کیمرہ ہے تو بار بار کیوں فوٹو بنانے کا کہتا ہے۔ تو باقی لوگ بھی اس کو سمجھانے لگے گے ایسے کیوں کرتے ہو۔ خیر ہم چیر لفٹ پر چلے گے سیر کرتے رہے اور مجھے فوٹو بنانے کا یاد ہی نہیں رہا۔ اس وقت تک ہمارے سارے لوگ چیر لفٹ سے اتر چکے تھے پیچھے دو لڑکے چیر لفٹ پر آ رہے تھے میں نے دیکھا تو سوچا ان کی فوٹو بنا لیتا ہوں اس دوران انہوں نے خود ہی کہہ دیا ہماری فوٹو بنا دو تو میں نے بنا دی اب خود فیصلہ کریں کہ یہ کیسی فوٹو ہے۔
418096_3870301246565_526199010_n.jpg

اس تصویر کے بعد میں نے اس فوٹو گرافر کو تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا۔ میں نے اس لیے تلاش کیا تھا کہ میری بنائی ہوئی تصویر اس کی بنائی ہوئی تصویر سے 50 فیصد اچھی تھی:p وہ تو نہیں ملا لیکن ولید اور ثاقب کے سامنے جو میں نے بات کی تھی وہ پُری کر دیکھائی اور وہ دونوں مجھے مانے بغیر نا رہ سکے:D
 

قیصرانی

لائبریرین
جب ہم چیر لفٹ پر سفر کرنے لگے تو ایک فوٹو گرافر نے مجھے کہا کہ چیر لفٹ پر بیٹھنے کی تصویر بنوا لیں یاد گار رہے گی
دراصل ان لوگوں کی روزی روٹی ہی یہی ہوتی ہے کہ تصویریں کھینچ کر کچھ کما لیا۔ ورنہ اتنی سردی کے موسم میں تو کام مشکل ہی چلتا ہے نا :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دراصل ان لوگوں کی روزی روٹی ہی یہی ہوتی ہے کہ تصویریں کھینچ کر کچھ کما لیا۔ ورنہ اتنی سردی کے موسم میں تو کام مشکل ہی چلتا ہے نا :)
لیکن تصویریں کھینچیں نا بھیک کیوں مانگتے ہیں۔ ویسے وہاں سب کا انداز ہی بھیک مانگنے والا ہوا ہوتاہے۔ ساب جی یہ بسکٹ لیے لیں نا، نہیں بیٹا نہیں لینے، ساب جی لے لیں نا صبح سے کسی نے نہیں لیا آپ لے لیں۔ سب اسی طرح کی ڈیلنگ کرتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
جی ہاں پبلک پلیسیز پر یہ رواج بن چکا ہے۔ کوئی تسبیاں لیکر آ جاتا ہے کسی نے پاکٹ سائز کی سورۃ یٰسین پکڑی ہوتی ہیں، کئی ایک خواتین نے چھوٹے بچے کو گود میں اٹھایا ہوتا ہے، الغرض بھیک مانگنے کےنئے نئے ڈھنگ ہیں۔
 
Top