السلام علیکم ! سر
الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی
کیا لفظ " زیادہ " کو فعولن اور فعلن دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے اگر ممکن ہو تو کسی کلام سے مثال بھی دیجئے۔۔۔
شکریہ
زیادہ کو صرف فعولن ہی باندھا جاسکتا ہے
لب خموش مرا بات سے زیادہ ہے
ترا فراق ملاقات سے زیادہ ہے
(طارق ہاشمی)
سبھی میں ہوتا ہے، مجھ میں ذرا زیادہ ہے
مرے وجود میں میں کم خدا زیادہ ہے
( انجم سلیمی)
مرے لیے ترا ہونا اہم زیادہ ہے
یہ باقی ذکر وجود و عدم زیادہ ہے
(احمد عطا)
وہ زلف میرے بازو پہ بکھری نہیں تو میں
اس زلف سے زیادہ پریشان ہو گیا
(شفق سوپوری)
حسیں کتنا زیادہ ہو گیا ہے
وہ جب سے اور سادہ ہو گیا ہے
(حسن عباسی)
فرصت میں رہا کرتے ہیں فرصت سے زیادہ
مصروف ہیں ہم لوگ ضرورت سے زیادہ
(سلطان اختر)
دیکھوں تو مرے دل میں اترتا ہے زیادہ
شعلہ کہ تہہ آب نکھرتا ہے زیادہ
(جعفر شیرازی)