ایک سکول میں

نیلم

محفلین
ایک سکول میں

استاد کلاس روم میں آکر بچوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہتا ہے

میں چاہتا ہوں تم میں سے ہر کوئی

مجھے اپنے مستقبل کے عزائم کے بارے میں بتائے کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا

بچوں نے کہا : پائلٹ ، ڈاکٹر ، انجنیئر ، پولیس افسر ، وکیل

سب بچوں کے جواب اس کے اردگرد گھوم رہے تھے

سوائے ایک بچے کے
اُس کی بات نے سب کو حیرت زدہ کردیا اور سب اُس پر ہنسنے لگے

اُس نے اپنے استاد سے کہا

میری خواہش ہے کہ میں صحابی بنوں

استاد اُس کی اِس خواہش سے متعجب ہو کر پوچھتا ہے

تم صحابی ہی کیوں بنا چاہتے ہو

بچہ کہتا ہے :
اس لیے کہ میری پیاری ماں ہر رات مجھے سونے سے پہلے کسی صحابی کا قصہ سناتی ہے

میں جان گیا ہوں کہ صحابی بہادر ہوتا ہے
اللہ سے پیار کرنے والا ہوتا ہے
اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا

میں بھی اس کے جیسا بننا چاہتا ہوں

استاد خاموش ہوجاتا ہے

وہ یہ جواب سن کر اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرتا ہے

وہ جان جاتا ہے کہ
اس بچے کے پیچھے ایک عظیم ماں ہے
اس لیے اُس نے عظیم حدف چنا ہے
 

نیلم

محفلین
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا اس کے دربار میں ایک قیدی کو پیش کیا گیا بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کردیا جائے ۔
بادشاہ کے حکم پر جب پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے کے جانے لگے تو وہ شخص غصے سے بادشاہ کو برا بھلا کہنے لگا کسی شخص کیلئے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے قتل کردیا جائے اور چونکہ یہ سزا سنائی جاچکی تھی اور اس کے دل سے اس کا خوف دور ہوچکا تھا

بادشاہ نے جب دیکھا کہ وہ شخص کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے
بادشاہ کا یہ وزیر نیک دل تھا اس نے سوچا کہ اگر بادشاہ کو درست بات بتا دی تو ہوسکتا ہے بادشاہ غصے سے دیوانہ ہوجائے اور اس کو قتل کروانے کے بجائے زندان میں ڈال کر اس پر ظلم وستم ڈھانے لگے تو اس نے بادشاہ کو جواب دیا کہ حضور یہ شخص کہہ رہا ہے " اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کیساتھ بھلائی کرتے ہیں‌"

بادشاہ یہ سن کر مسکرایا اور اس نے اس شخص کو آزاد کرنے کا حکم دیا

بادشاہ کا ایک اور وزیر جو نیک دل وزیر کے خلاف دل میں حسد رکھتا تھا وہ بولا " یہ ہر گز درست نہیں کہ بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ زبان پر لائیں ، اور کہا کہ حضور یہ شخص آپ کی شان میں گستاخی کر رہا ہے "
وزیر کی بات سن کر بادشاہ نے کہا " اے وزیر ! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے
اس ست تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے اس سے ایک شخص‌کی جاب بچ گئی یاد رکھ اس سچ سے جس سے فساد پھیلتا ہو اس سے ایسا جھوٹ‌بہتر جس سے برائی دور ہونے کی امید ہو "

وہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے وہ زبان پر نہ آئے
اچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو فسادکی آگ بجھائے

بادشاہ کی بات سن کر فسادی وزیر شرمندہ ہوا ۔ بادشاہ نے قیدی آزاد کرنے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشوروں پہ عمل کرتے ہیں وزیروں کا فرض ہے ایسی باتیں منھ سے نہ نکالیں جس میں بھلائی کی امید نہ ہو اس نے مزید کہا " یہ دنیا وی زندگی بحرحال ختم ہوجائے گی کوئی بادشاہ ہو یا فقیر اس کا انجام موت ہے اس سے کوئی فرق نہیں‌پڑتا کہ روح تخت پر قبض کی جائے یا فرش پر."

حکایات شیخ سعدی
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب نیلم۔ بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔

ایسا بادشاہ اور ایسا وزیر پاکستان میں کب آئے گا؟
 

نیلم

محفلین
بہت شکریہ.اُمید پہ دُنیا قائم ہے.پاکستان میں بادشاہ سے لیکر چپڑاسی تک سب کو بدلنا ہوگا تو ہی حالات بدلے گے.
 

نیلم

محفلین
ہارون الرشید بادشاہ اپنی بیگم زبیدہ خاتون کے ہمراہ دریا کنارے ٹہل رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک معروف بزرگ بہلول سے ہو گئی۔
بہلول ریت پر گھر بنا رہے تھے ۔ انہوں بادشاہ سے کہا یہ گھر ایک دینار میں خرید لو ۔میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں ایک گھر عطا کر دے ۔ بادشاہ نے اسے دیوانے کی بڑ سمجھا اور آگے بڑ ھ گئے ۔ البتہ ملکہ نے انھیں ایک دینار دے کر کہا کہ میرے لیے دعا کیجئے گا۔
رات کو بادشاہ ...نے خواب میں دیکھا کہ جنت میں ان کی بیگم کا محل بنادیا گیا ہے ۔
اگلے دن بادشاہ نے بہلول کو وہی کچھ کرتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا کہ میں بھی جنت میں محل خریدنا چاہتا ہوں ۔بہلول نے جواب دیا کہ آج اس محل کی قیمت پوری دنیا کی بادشاہی ہے ۔بادشاہ نے کہا کہ یہ قیمت میں تو کیا کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ مگر کل سے آج تک تم نے اس گھر کی قیمت اتنی کیوں بڑ ھادی۔
بہلول نے جواب دیا جنت کاسودا بن دیکھے بہت سستا ہے ، مگر دیکھنے کے بعد ساری دنیا کی بادشاہت بھی اس کی کم قیمت ہے

یہ ظاہر ہے کہ ایک حکایت ہے جس کی صحیح یا غلط ہونے کی بحث غیر متعلقہ ہے لیکن جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ ایک حقیقت ہے ۔ آخرت کی آنے والی دنیا کی ہر حقیقت اتنی غیر معمولی ہے کہ اس کے سامنے ساری دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے

سچ یہ ہے کہ آخرت کا ہر سودا ایسا ہے کہ انسان اس کے لیے سب کچھ دے ڈالے ، مگر غیب کے پردے کی بنا پر یہ سودا بہت سستا ہے ۔ کل قیامت کے دن انسان ہر قیمت دے کر یہ سودا کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا، مگر اس روز کسی قیمت پر یہ سودا نہیں کیا جائے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
جزاک اللہ خیراء محترم نیلم بہنا
خوب نصیحت آموز سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے
حکمت کے موتی ہیں جس کو نصیب ہو جائیں
 

نیلم

محفلین
ایک شخص دن کی روشنی مین چراغ لیکر بازار میں پھر رھا تھا کسی نےپوچھا تجھے کیا ھوا دن کی روشنی مین چراغ کا کیا کام اس نے کہا میں آدمی ڈھونڈ رھا ھوں مجھے کوئی آدمی نھیں مل رھا دوسرےنے جواب دیا یہاں بازار آدمیوں سےبھرا پڑا ہےچراغ والے نےکہا اس بازار میں آدمی کوئی نہیں یہ توسب صورت کے اعتبار سے آدمی ہیں آدمی کیلے صفات آدمیت ضروری ھیں اگر عود جو ایک خوشبودار لکڑی ہے اس میں خوشبو نہ ہو تو اس میں اور عام لکڑی میں کوئی فرق نہیں....!
 

نیلم

محفلین
ایک ٹیچر نے اپنے طالب علموں سے کہا کہ: "اگر تم میں سے کوئی مجھے مٹھی بھر جنت کی دھول (مٹی) لاکے دیگا،تو وہ تم سب میں ایک کامیاب طالب علم ہوگا.

اگلے دن، چھوٹا لڑکا مٹھی بھر دھول (مٹی) ساتھ لے کر آیا اور اپنے استاد کو دے دیا.
استاد ناراض ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ: " کیا تم مجھ سے مذاق کر رہے ہو !؟ یہ تم کہاں سے لائے؟".

طالب علم نے آنسو بھرے آنکھوں کے ساتھ جواب دیا کہ "یہ دھول میں اپنی ماں کی قدموں کے نیچے سے لایا ہوں، آپ ہی نے تو ہمیں سکھایا ہے کہ ماؤں کے قدموں تلے جنت ھے...!
 
Top