ایک سکول میں

نیلم

محفلین
شیخ سعدی بیان کرتےہیں اُنہیں بچپن میں عبادت کا بہت شوق تھا.میں اپنےوالد محترم کےساتھ ساری ساری رات جاگ کر ٖقرآن پاک کی تلاوت اور نماز میں مشغول رہتاتھا.ایک رات میں اور والد محترم حسب معمول عبادت میں مشغول تھےہمارےپاس ہی کچھ لوگ غافل پڑےفرش پہ سو رہےتھے،میں نےاُن کی یہ حالت دیکھی تواپنےوالد صاحب سے کہا کہ ان لوگوں کی حالت پہ افسوس ہے ان سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اُ ٹھ کےتہجد کی نفلیں ہی ادا کر لیتے.
والد محترم نے میری یہ بات سُنی تو فرمایا: کہ بیٹا دوسروں کو کم درجہ خیال کرنے اور بُرائی کرنےسے بہتر تھا کہ تو بھی پڑ کے سو جاتا.
(حکایات گلستان سعدی)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ایک بیوہ رئیس زادی کی دو کنیزیں تھیں جن سے وہ گھر کی کام لیتی تھی۔ یہ دونوں کنیزیں سست، کاہل اور کام چور تھیں۔ انہیں کام کرنے سے سخت نفرت تھیں۔ خاص طور پر صبح سویرے اٹھنا تو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ان کی مالکہ انہیں مرغ کی اذان پر جگا دیتی کہ اٹھو، صبح ہو گئی ہے۔ گھر کا کام کرو۔ ادھر مرغ کی اذان کا کیا وہ تو آدھی رات گئے ہی اذان دینے لگتا۔ دونوں کنیزوں نے تنگ آکر مرغ کو جان سے مار دینے کا فیصلہ کیا۔ کہ نہ یہ ہوگا، نہ اذان دے گا اور وہ دن چڑھے تک مزے کی نیند سوئیں گی۔ ایک دن دونوں کنیزوں نے مالکہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرغ کو پکڑ کر مار ڈالا اور ایک جگہ دبا دیا۔ اب ہوا یہ کہ مرغ کے نہ ہونے سے بیوہ کو وقت کا اندازہ ہی نہ رہا۔ وہ کنیزوں کی جان کھانے لگی اور انہیں نصف شب کو جگانے لگی۔

حاصل کلام
غیر ضروری چالاکی اور ہوشیاری کا نتیجہ ہمیشہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
(حکایات سعدی)​
 

عمر سیف

محفلین
بہت خوب نیلم۔ بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔

ایسا بادشاہ اور ایسا وزیر پاکستان میں کب آئے گا؟
آئے گااااااااااااااااا
آئے گااااااااااااااااا
آئے گاااااااااااااااااا
آئے گا آنے والا ۔۔
آئے گاااااااااااااااا
 

نیلم

محفلین
جی بلکل زیادہ ہوشیاری بھی تیز دار خنجرکی طرح ہوتی ہےجس سے کبھی کبھی اپنےہی ہاتھ زخمی بھی ہوسکتےہیں.اورسمپل انسان کا اللہ خود وارث ہوتاہے.
ایک بیوہ رئیس زادی کی دو کنیزیں تھیں جن سے وہ گھر کی کام لیتی تھی۔ یہ دونوں کنیزیں سست، کاہل اور کام چور تھیں۔ انہیں کام کرنے سے سخت نفرت تھیں۔ خاص طور پر صبح سویرے اٹھنا تو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ان کی مالکہ انہیں مرغ کی اذان پر جگا دیتی کہ اٹھو، صبح ہو گئی ہے۔ گھر کا کام کرو۔ ادھر مرغ کی اذان کا کیا وہ تو آدھی رات گئے ہی اذان دینے لگتا۔ دونوں کنیزوں نے تنگ آکر مرغ کو جان سے مار دینے کا فیصلہ کیا۔ کہ نہ یہ ہوگا، نہ اذان دے گا اور وہ دن چڑھے تک مزے کی نیند سوئیں گی۔ ایک دن دونوں کنیزوں نے مالکہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرغ کو پکڑ کر مار ڈالا اور ایک جگہ دبا دیا۔ اب ہوا یہ کہ مرغ کے نہ ہونے سے بیوہ کو وقت کا اندازہ ہی نہ رہا۔ وہ کنیزوں کی جان کھانے لگی اور انہیں نصف شب کو جگانے لگی۔

حاصل کلام
غیر ضروری چالاکی اور ہوشیاری کا نتیجہ ہمیشہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
(حکایات سعدی)​
 
Top