محمد اظہر نذیر
محفلین
جان مانگی ہی نہیں، لے بھی ہے لی جانی نے
دیکھ، سینے سے جو لُپٹی ہے چنر دھانی نے
خوش رہو تُم کے میں ہجراں کا پرستار ہوا
بے مزہ کر سا دیا وصل فراوانی نے
خشک حلقوم پہ انگار بنا برسا ہے
آگ سُلگائی ہے انگور ملے پانی نے
آرزو ہے کے وہ ملبوس پہ اب جاگے ہے
ایک نیکی تو چلو کی ہے یہ عریانی نے
جو کہ ہونا تھا ہوا ویسا ہی سوچا جیسے
مجھ کو حیراں سا کیا میری ہی حیرانی نے
جانے کس کس کے ہے جزبات کو چھیڑا جا کر
ہائے اظہر ترے الفاظ کی شیطانی نے
دیکھ، سینے سے جو لُپٹی ہے چنر دھانی نے
خوش رہو تُم کے میں ہجراں کا پرستار ہوا
بے مزہ کر سا دیا وصل فراوانی نے
خشک حلقوم پہ انگار بنا برسا ہے
آگ سُلگائی ہے انگور ملے پانی نے
آرزو ہے کے وہ ملبوس پہ اب جاگے ہے
ایک نیکی تو چلو کی ہے یہ عریانی نے
جو کہ ہونا تھا ہوا ویسا ہی سوچا جیسے
مجھ کو حیراں سا کیا میری ہی حیرانی نے
جانے کس کس کے ہے جزبات کو چھیڑا جا کر
ہائے اظہر ترے الفاظ کی شیطانی نے