ایک شعر

الف عین

لائبریرین
آج ایک شعر وارد ہوا ہے۔ وارث، فاتح، سخنور اور دوسے شعرا ذرا مشورے دیں۔
پہلے تو یہ شعر ہوا:

ہے انتظار میں اک کوچ کے نقارے کے
یہ فوج سرحدِ مژگاں پہ کیوں رکی ہوئی ہے

دوسورے مصرعے کی ایک شکل یہ ممکن لگی
یہ فوج سرحدِ مژگاں پہ کب سےٹھہری ہے
پھر پہلے مصرعے کو مطلع بنانے کے بعد شکل یوں ہوئی:
بس احتیاط ہے یا کچھ سبب سے ٹھہری ہے
یہ فوج سرحدِمژگاں پہ کب سے ٹھہری ہے۔
اس مطلعے میں "کچھ" بمعنی "کسی‘ مجھے کھٹک رہا ہے، یعنی کسی سبب وزن میں آتا تو بہتر تھا۔
مضمون کچھ مبہم تو نہیں ہو گیا؟۔ فوج کیسی ہے، یہ محذوف ہے نا؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
اعجاز صاحب شعر تو بہت اچھا ہے لیکن وزن کے بارے میں‌کوئی تبصرو وارث اور فاتح ہی کر سکتے ہیں - بہت شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
فرخ۔ وزن کی بات نہیں کر رہا۔ مشورہ یہ مانگا تھا کہ کون سے مصرعے بہتر ہیں، اور عر زیادہ مبہم تو نہیں ہے۔ یہاں بھی ملتے جلتے خیال کے دو اشعار کی شکلیں ہیں، ان میں کون سا بہتر ہے۔۔ اس کا مشورہ چاہئے۔ بحر تو اس کی وہی ہے
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن/فعلان
 

محمد وارث

لائبریرین
اعجاز صاحب، مطلع سے زیادہ مجھے پہلا شعر بہت پسند آیا ہے

ہے انتظار میں اک کوچ کے نقارے کے
یہ فوج سرحدِ مژگاں پہ کیوں رکی ہوئی ہے


بہت برجستہ ہے، اور اس خوبصورت تشبیہ کے ساتھ ساتھ فوج، سرحد، کوچ اور نقارے کی مراعات النظیر نے محاکات کا جادو جگا دیا ہے، واہ واہ واہ، سبحان اللہ۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ وارث۔
چلو پہلےشعر کا پس منظر سن لو۔
ماہنامہ ’آج کل‘ مارچ کے شمارے میں مبین صدیقی کا ایک بہت اچھا مضمون ہے ’شاعرِ شیشریں مقال،عرفان صدیقی‘۔ مصنف ہیں مبین صدیقی، جو اگر چہ ڈرامہ نگار ہیں، لیکن اس مضمون سے ان کی تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ بہر ھال انہوں نے عرفان صدیقی کے لہجے کی مثال میں یہ غزل دی ہے بلکہ اس سے بات شروع کی ہے۔ اس کا مطلع ہے:
مژگاں اٹھا، اشارۂ پیکاں میں بات کر
اے جاں طلب، محاورۂ جاں میں بات کر
واہ کیا شعر ہے، دو دن تک اس کے سحر میں مبتلا رہا۔ پھر خیال آیا کہ مژگاں کی تشبیہ پیکاں کے بدلے میں کانٹوں کی باڑھ ہوتی تو کیا بات تھی۔ اور اپنا یہ شعر وارد ہوا۔

اس مضمون میں ہیی عرفان صدیقی کی پانچ تقریباً مکمل غزلیں ہیں۔ سوچ رہا ہوں کہ ان کو ٹائپ کر لیا جائے۔ اردو پائنٹ پر ھی دس پندرہ غزلیں ہیں۔ اگر آپ لوگ بھی ٹائپ[ کر سکیں تو بیس پچیس غزلوں کی ایک ای بک بن جائے۔ انتخاب: مبین صدیقی، ا ع اور محمد وارث!!۔ اور ای بک کا ھی نام رکھا جائے۔ ’محاورۂ جاں‘
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ زرقا۔ بس میں بہت ست واقع ہوا ہوں۔ یہ واحد شعر بھی کوئی دس ماہ بعد کہا ہے۔
اور اسی لئے سوچا تھا کہ اگر مطلع بنا دوں تو شاید گاڑی جلد آگے بڑھ جائے۔ لیکن ہمارے دوست مصحف اقبال توصیفی کو بھی وہی پہلا شعر زیادہ پسند آیا ہے۔ ویسے اس کی زمین آسان ہے، بہ نسبت سبب سے ٹھہری ہے، کب سے ٹھہری ہے۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ وارث۔
چلو پہلےشعر کا پس منظر سن لو۔
ماہنامہ ’آج کل‘ مارچ کے شمارے میں مبین صدیقی کا ایک بہت اچھا مضمون ہے ’شاعرِ شیشریں مقال،عرفان صدیقی‘۔ مصنف ہیں مبین صدیقی، جو اگر چہ ڈرامہ نگار ہیں، لیکن اس مضمون سے ان کی تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ بہر ھال انہوں نے عرفان صدیقی کے لہجے کی مثال میں یہ غزل دی ہے بلکہ اس سے بات شروع کی ہے۔ اس کا مطلع ہے:
مژگاں اٹھا، اشارۂ پیکاں میں بات کر
اے جاں طلب، محاورۂ جاں میں بات کر
واہ کیا شعر ہے، دو دن تک اس کے سحر میں مبتلا رہا۔ پھر خیال آیا کہ مژگاں کی تشبیہ پیکاں کے بدلے میں کانٹوں کی باڑھ ہوتی تو کیا بات تھی۔ اور اپنا یہ شعر وارد ہوا۔

اس مضمون میں ہیی عرفان صدیقی کی پانچ تقریباً مکمل غزلیں ہیں۔ سوچ رہا ہوں کہ ان کو ٹائپ کر لیا جائے۔ اردو پائنٹ پر ھی دس پندرہ غزلیں ہیں۔ اگر آپ لوگ بھی ٹائپ[ کر سکیں تو بیس پچیس غزلوں کی ایک ای بک بن جائے۔ انتخاب: مبین صدیقی، ا ع اور محمد وارث!!۔ اور ای بک کا ھی نام رکھا جائے۔ ’محاورۂ جاں‘


بہت شکریہ اعجاز صاحب۔

میرے پاس بھی عرفان صدیقی کی چند غزلیں ایک انتخاب میں موجود ہیں، آپ نے 'محاورۂ جاں' کا سلسلہ شروع کردیا ہے، میں انشاءاللہ اس میں غزلیں پوسٹ کر دونگا اور اردو پوائنٹ بھی دیکھتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
آپ کو پسند نہیں آیا تو اچھا شعر نہیں ہے۔
اپنا تعارف تو دیں آصف۔۔ اگر اب تک نہیں دیا ہے تو۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ تو پہلے یہ اشعار یہاں ہی پوسٹ کروں۔ اآج ہی ہوئے ہیں۔ اور پھر ان پر مشورہ بھی لوں۔
پہلے مطلعے کی دو ممکن شکلیں:
ہمارے سر پہ بھی قیمت الگ لگی ہوئی ہے
تو مدحِ شاہ کی تنخواہ بھی بندھی ہوئی ہے

اور

کھڑا ہوں، پاؤں میں زنجیر سی بندھی ہوئی ہے
چلوں تو سر پہ بھی قیمت الگ لگی ہوئی ہے


مزید دو تین اشعار
وہ کچھ کہے نہ کہے، ہم سمجھ ہی جائیں گے
زباں سکوت کی ہم نے بہت سنی ہوئی ہے

تو کیا یہ لوحِ فلک پر کبھی لکھا ہی نہ تھا؟
یہ کم نصیبی ہماری یہیں بنی ہوئی ہے؟

یہ اور بات کہ قرطاس پر اب اتری ہے
غزل تو سینکڑوں صدیوں کی یہ کہی ہوئی ہے

اور ایک مزے دار مصرعہ بھی سن ہی لیں:

یہ دل لگی ہے کہ دل کی لگی لگی ہوئی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
قیامت کا مطلع ہے اعجاز صاحب

کھڑا ہوں، پاؤں میں زنجیر سی بندھی ہوئی ہے
چلوں تو سر پہ بھی قیمت الگ لگی ہوئی ہے

واہ واہ واہ، سبحان اللہ، لا جواب
 

الف عین

لائبریرین
تو وارث کیا اس شعر کو نکال دوں۔ مدحِ شاہ والا؟
ویسے جو مطلع تم کو پسند آیا ہے، اس میں کنتری بیوشن مصحف اقبال توصیفی کا بھی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی ابھی اقبال بھائی یعنی مصحف اقبال توصیفی نے کال کیا۔ اب ان کا مشورہ یوں ہے:
مطلع یا تو یوں کر دیں
ہمارے سر پہ تو قیمت الگ لگی ہوئی ہے
تو مدحِ شاہ کی تنخواہ بھی بندھی ہوئی ہے
یعنی دونوں مصرعوں میں "تو‘ کا استعمال
اور دوسرا ممکن مطلع

ہمارے پاؤں میں زنجیر سی بندھی ہوئی ہے
اٹھیں، تو سر پہ بھی قیمت الگ لگی ہوئی ہے
 
Top