ایک صدی کا فیض - زاہد علی یوسف زئی

ذاھد علی یوسف زئی
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
faiz-alys.jpg
اگر ہم اپنے ادبی افق پر نظر ڈالیں تو سماجی ذمہ داری قبول کرنے والوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ہمیشہ سے جنگ جاری رہی ہے۔ سماجی ذمہ داری سے فرار حاصل کرنے والے ناموں کی تخلیقات میں معاشرتی نظام کے زوال شکست و ریخت کا احساس بہت کم ملتا ہے۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کو اپنے ماحول میں ہونے والی کسی بڑی تبدیلی کا احساس تک نہ ہو جیسے ان کے لیے اپنے شیرازہ بند، نظام حیات، کائنات کے قائم و دائم رہنے کے بارے میں شک و شبہ کا کوئی شائبہ تک ہو۔ ان کی ذہنی فضا میں ایک پرحزن ٹھہراﺅ، توازن، سکون اور یکجہتی نظر آتی ہے جو ازمنہ و سطی کے عروج کے زمانے کے ان کے پیش رو فارسی شعراءکے ہاں ملتی ہے۔​
اگر کہیں آشوب زمانہ اور گردش لیل و نہار کی شکایت بھی ہے تو اپنے روایتی، فکری اور معاشرتی ماحول کے تناظر میں اور اس کے محدود دائرے کے اندر ہی اسی قائم و دائم معاشرتی سانچے کے مطابق جس کے علاوہ اور کوئی معاشرتی سانچہ ان کی نظر میں ممکن ہی نہیں ہے۔ ان حضرات کے برعکس سماجی ذمہ داری کو قبول کرنے والے اس روایت کا حصہ ہیں جسے فکری شاعری کہتے ہیں اور جس کا اول و آخر مقصد حیات و کائنات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ اس روایت میں داخلیت اور خارجیت کی کیفیات متضاد ہونے کے باوجود باہم پیوست بلکہ ہم آہنگ اور متحد ہوتی ہیں اور رہی ہیں۔ تمام شاعروں میں ان کے اجزاءمختلف مقداروں میں بقدر حوصلہ و ظرف بیک وقت پائے جاتے ہیں۔ انہیں الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔​
غالب کے شعر میں جو ایک اندوہ گیں ٹھہراﺅ، ایک سلگ سلگ کر راکھ ہو جانے کی کیفیت ہے وہ محض شخصی یا ذاتی یا اندرونی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے زمانے اس کے گرد و پیش کی ٹھہری ہوئی معاشرتی صورتحال کا عکس ہے۔ اتنا ہی خارجی جتنا کہ داخلی، غالب کے یہاں جزو میں کل اور کل میں جزو دیکھتے اور دکھانے کی بات ہے اور جسے اس نے غایت سخن بتایا ہے۔ غالب کا کلام اس شعری روایت کا حصہ ہے جس کا تعلق اصلاً فکر سے ہے محض ذاتی اور لمحاتی غموں اور خوشیوں سے نہیں ہے۔​
ہمارے زمانے میں اس روایت کا بھرپور اظہار فیض کی شاعری میں ملتا ہے۔ یوں تو ترقی پسند ادب کی ساری تحریک ہی اس روایت کے نصب العین کو اپنانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن فیض میں جس طرح ایک مسلسل اور صبر آزما ریاضت اور شدید ذاتی جدوجہد کے ساتھ اس روایت سے منسلک رہنے کی جو شعوری کوشش کی گئی ہے وہ کہیں اور مشکل ہی سے پائی جاتی ہے۔ فیض احمد فیض ایک صدی قبل 13فروری 1911ءکو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور پھر 73برس کی عمر میں 1984ءمیں لاہور میں انتقال فرماگئے۔ فیض احمد فیض کی شخصیت پاکستان اور دنیا بھر میں ادب کے حوالے سے ایک انتہائی قد آور شخصیت ہے۔ تاہم ا س بات سے بہت کم لوگ آشنا ہیں کہ فیض کے والد بھی ایک انتہائی رنگین شخصیت کے حامل فرد تھے۔ فیض کے والد سلطان محمد خان جو ایک بے زمین کسان کے گڈریئے فرزند تھے انہیں ان کے مقامی اسکول کے استاد نے دانشورانہ صلاحیت کے حامل بچے کے طور پر پہچانا اور انہیں مقامی اسکول میں تعلیم دی۔ اس کے بعد وہ لاہور چلے آئے جہاں انہوں نے بے گھر اور غریب بچوں کے لیے بنائی گئی ایک مسجد میں رہتے ہوئے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر دسترس حاصل کی۔​
ایک روز اتفاقاً ان کی ملاقات افغان بادشاہ، جیب اللہ خان کے ایک ہرکارے سے ہوئی۔ ان کی ذہانت اور زبانی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر وہ ہرکارہ انہیں کابل میں شاہی دربار لے آیا۔ جہاں سلطان محمد خان بادشاہ کے ذاتی مترجم اور سنیئر وزیر بن گئے۔ وہ بعد میں افغانستان چلے گئے جہاں انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور اقبال کے دوست بن گئے۔ سطان محمد خان نے اپنے سفر کے دوران کئی عورتوں سے شادی کی جن میں افغان مشاہیر کی بیٹیاں بھی شامل ہیں۔​
سیالکوٹ واپس آپس آنے کے بعد انہوں نے فیض کی والدہ اور اپنی سب سے چھوٹی اور آخری بیوی سے شادی کر لی۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد فیض پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اسکاچ مشن ہائی اسکول میں سید میر حسن کی شاگردی میں حاصل کی ان پر یوں تو الحاد کے فتوے جاری کئے گئے تاہم انہوں نے عام مسلمانوں کی گھریلو روایت کے تحت قرآن کا کچھ حصہ حفظ بھی کیا۔ ان کے اس عقیدے کا حوالہ اس وقت اور بھی دلچسپ نظر آتا ہے جب انہیں بدنام زمانہ راولپنڈی سازش کیس کے تحت گرفتار کیا گیا اور وہ 1951ءسے لیکر 1955ءتک جیل میں رہے۔ یہ نو تشکیل شدہ ریاست پاکستان کے چند بائیں بازو کی طرح جھکاﺅ رکھنے والے آرمی افسروں کا منصوبہ تھا جو حکومت کو الٹ کر مصطفی کمال اتاترک کی مانند ترکی کے خطوط پر ایک جمہوریہ کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے۔ فیض اور نوزائیدہ کمیونسٹ پارٹی پاکستان کو اس بات کا ادراک تھا کہ منصوبے کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہو گی اس لیے انہوں نے آخر کار اس منصوبے کو ترک کر دیا۔ تاہم سازش بے نقاب ہو گئی اور اس میں شامل تمام افراد بشمول فیض کے گرفتار کر لیے گئے اور انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔​
فیض جیل میں اپنے ساتھی قیدیوں کو قرآن بھی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے ان جیلروں تک کو صوفی رنگ میں رنگ دیا جن کو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کے یہ قیدی بے خدا کمیونسٹ ہیں۔​
دلدارئی واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے
سیالکوٹ میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فیض گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے۔ فیض نے اسکول کے زمانے میں ہی اردو انگریزی ادب و شاعری کی کلاسیکی کتب کا مطالعہ کر لیا تھا۔ فیض نے میر تقی میر،مرزا رفیع سودا، اسد اللہ غالب سے اپنی لگاوٹ کے بارے میں خود بیان کیا ہے۔ خاص طور پر مرزا غالب کا فیض پر بہت اثر ہوا، فیض کی کلاسیکی اساتذہ کے کلام پر جو دسترس تھی اس کے باعث انہیں کلاسیکی اور جدید غزل کے درمیان ایک کڑی کہا جاتا ہے۔ فیض کے پہلے مجموعہ کلام نقش فریادی کا آغاز ایک نوجوان شاعر کی مخصوص طبع فکر سے ہوتا ہے جس کے زیر اثر وہ عشق، حسن، ہجر اور معشوقہ کے سراپے کی بات کرتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ نثر نگاروں کے برعکس جن کا فن گزرتے سالوں کے ساتھ پختہ ہو جاتا ہے شاعر اپنا سب سے بہترین کلام جوانی کے ایام میں کہتا ہے۔ یہ بات غالب کے حوالہ سے سچ معلوم ہوتی ہے جس نے بہترین اور اثر انگیز اشعار اپنی نوجوانی میں کہے۔ تاہم فیض کے معاملے میں صورتحال کے برعکس ہے۔ جن کا پہلا مجموعہ کلام جوانی کے مذکورہ ترنگ سے شروع ہوتا ہے۔ تاہم فیض خود بیان کرتے ہیں کہ اس مجموعہ کلام کے پہلے نصف میں جوانی کی ترنگ ملتی ہے جس میں وہ نظمیں شامل ہیں جو 1928-29ءسے لیکر 1934-35ءتک لکھی گئیں۔​
فیض نے اپنے آدرشِ حیات کے باعث اپنی داخلی دنیا کو خارجی دنیا کی وسعتوں سے ہم آہنگ کر دیا۔ 1920ءکی دہائی میں ”ادب برائے ادب“ کے فلسفے کا دور دورہ تھا۔ یہ فلسفہ اس بات کو شدت سے رد کرتا تھا کہ ادیب کو سماجی حالات کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ 1920ءکی دہائی کے اختتام تک وہ انقلابی جوش و خروش ڈھل رہا تھا جس کا آغاز 1917ءکے روسی انقلاب سے ہوا تھا۔ اس طرح جرمنی، انگلستان اور چین میں انقلابات ناکام ہو چکے تھے۔​
پہلی عالمی جنگ کے بعد جنوب مشرقی یورپ، مغربی ایشیاءاور شمالی افریقہ کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرنے والی سلطنت عثمانیہ کو جنگ کے ”فاتحین“ میں تقسیم کر دیا گیا۔ ترک قوم پرستوں نے خلافت کا خاتمہ کر دیا۔ ان قوم پرستوں کی رہنمائی کمال اتاترک کررہا تھا۔ 1929ءمیں شروع ہونے والے معاشی بحران کے باعث پوری دنیا میں بے چینی تھی اور 1933ءمیں اس بحران کے نتیجے میں ایڈولف ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے جرمنی میں جنم لیا۔​
برصغیر بھی اس بحران کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ نہ رہ سکا۔ شہری بیروزگاری بڑھ گئی۔ کسان تباہ حال ہو گئے اور خوف اور غیر یقینی کی فضاءہر طرف چھائی ہوئی تھی۔ ادب برائے زندگی اس پس منظر میں برصغیر کے اندر ادب و فن کی دنیا میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا جس کا نام آل انڈیا پروگریسورائٹرز ایسوسی ایشن تھا۔ اس تحریک کی ابتداء1932ءمیں شائع ہونے والے اردو کے ان دس افسانوں کے مجموعے سے ہوئی جس کا نام انگارے تھا۔ یہ مجموعہ چار نوجوان لکھاریوں، سجاد ظہیر، احمد علی، محمود الظفر اور رشید جہاں کے افسانوں پر مشتمل تھا۔​
سجاد ظہیر اس تحریک کے روح رواں تھے جو فیض کے استاد اور زندگی بھر کے دوست تھے۔ ترقی پسند مصنفین کی اس تحریک نے ادب برائے ادب کے فلسفے کی پر زور تنسیخ کی۔ ان کے نزدیک، ہر ادیب و فنکار کا فرض تھا کہ وہ موجودہ سماجی حالات پر اپنے فن و ادب کے ذریعے تنقید کریں اور انہیں ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کریں۔ 1934ءمیں فیض نے اپنے کالج کی تعلیم مکمل کر لی اور انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج امرتسر میں پڑھانا شروع کر دیا۔ یہاں ان کی دوستی صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی بیگم رشید جہاں سے ہوئی جو خود بھی استاد، مصنف اور ترقی پسند تھے۔ انہوں نے فیض کو ترقی پسند مصنفین کی انجمن میں شامل ہونے پر راضی کیا جس سے فیض کی زندگی اور نقطہ نظر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تبدیل ہو گیا۔​
فیض اپنے اس تجربے کے بارے میں خود لکھتے ہیں ”پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی، مزدور تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے۔ اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھا کہ اپنی ذات کو باقی دنیا سے الگ کر کے سوچنا اول تو ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ اس میں بہرحال گردوپیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو بھی تو انتہائی غیر سود مند فعل ہے کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں، مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی بہت ہی محدود اور حقیر شے ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں۔ خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے، چنانچہ غم جاناں اور غم دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔“​
فیض کے اس احساس کی ابتداءنقش فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم سے ہوتی ہے جس کا عنوان ہے۔ مجھ سے پہلی سے محبت مری محبوب نہ مانگ اس نظم کے آخر میں فیض اپنے بیان کردہ فلسفہ حیات کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔​
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
فیض کی نظم ”بول“ ان کے سماجی انصاف کے نظریات کی حمایت اور استحصالی نظریات کی مخالفت کا بھرپور اظہار ہے۔​
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول کے سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
یوں فیض کی زندگی اور شاعری اس کے لیے وقف ہو گئی کہ​
آج کے نام
اور آج کے غم کے نام
زرد پتوں کا بن
جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے
فیض کے نزدیک ان کا فن دل لگی یا بے کاری کے لیے نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں ”فن سخن (یا کوئی اور فن) بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے تو غالب کا دیدہ بینا بھی کافی نہیں۔ اس لیے کافی نہیں کہ شاعر یا ادیب کو قطرے میں دجلہ دیکھنا ہی نہیں دکھانا بھی ہوتا ہے۔ مزید برآں اگر غالب کے دجلہ سے زندگی اور موجودات کا نظام مراد لیا جائے تو ادیب خود بھی اسی دجلہ کا ایک قطرہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے ان گنت قطروں سے مل کر اس دریا کے رخ، اس کے بہاﺅ اس کی ہیئت اور اس کی منزل کے تعین کی ذمہ داری بھی ادیب کے سر آن پڑتی ہے۔“​
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”حیات انسان کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک اور اس جدوجہد میں حسبِ توفیق شرکت، زندگی کا تقاضا ہی نہیں فن کا بھی تقاضا ہے۔ فن اسی زندگی کا ایک جزو ا ور فنی جدوجہد اسی جدوجہد کا ایک پہلو ہے یہ تقاضا ہمیشہ قائم رہتا ہے ا سلیے طالب فن کے مجاہدے کا کوئی نروان نہیں اس کا فن ایک دائمی کوشش ہے اور مستقبل کاوش، اس کوشش میں کامرانی یا ناکامی یوں تو اپنی اپنی توفیق و استطاعت پر ہے لیکن کوشش میں مصروف رہنابہر طور ممکن بھی ہے اور لازم بھی۔“​
یوں 1911ءمیں جنم لینے والا فیض 1970ءکی دہائی میں یہ رجز سناتا نظر آتا ہے کہ​
ہم دیکھیں گے
لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاﺅں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیںگے
ہم اہل صفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں
اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
فیض اپنی حیات میں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرے۔ وہ 9مارچ 1951ءکو قید ہوئے اور اپریل 1955ءمیں رہا ہوئے۔ اس عرصے میں وہ پہلے تین مہینے سرگودھااور لائل پور کی جیلوں میں قید تنہائی میں رہے۔ وہ بہت مشکل دن تھے۔ کاغذ، قلم، دوات، کتابیں، اخبار، خطوط سب چیزیں ممنوع تھیں انہوں نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے​
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
اس کے بعد فیض جولائی 53ءتک حیدرآباد (سندھ) جیل میں راولپنڈی سازش کیس کے بانی اسیروں کے ساتھ رہے۔ پھر 1953ءمیں منٹگمری جیل سے رہا ہوئے۔ جنرل ایوب کے دور میں بھی وہ کئی بار گرفتار ہوئے۔ 1965ءمیں جب ہندوستان اور پاکستان کی جنگ چھڑی تو انہوں نے حب الوطنی کے نغمے لکھنے کی بجائے نظم ”سپاہی کا مرثیہ“ لکھی۔​
اٹھو
اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
تمری سیج سجاون کارن
دیکھو آئی رین اندھیارن
اس پر قوم پرست سیخ پا ہو گئے اور فیض کو روپوش ہونا پڑا۔ 1977ءکی فوجی بغاوت کے بعد فیض بیروت چلے گئے۔ وہاں انہوں نے ”فلسطینی بچے کے لیے لوری“ لکھی​
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے اپنے غم سے رخصت لی ہے
فیض کی شاعری اور ان کی زندگی کی ملکی اور غیر ملکی مسائل سے دلچسپی ان کی شاعری کو ایک ہم عصری سچ سے ہم کنار کر دیتی ہے۔ ان کی شاعری کی حیات اس شعور میں مضمر ہے کہ شاعری زندہ حقیقتوں کے اظہار کا نام ہے۔ فیض کی کئی تحریریں اور شاعری معنویت اور عالمگیریت کے حوالے سے آج بھی اتنی زندہ اور متعلق ہیں جتنی کل تھیں۔ ماسکو میں جب انہیں ”لینن امن انعام“ دیا گیا تو انہوں نے اس موقع پر ایک تقریر کی تھی جس کی معنویت 21ویں صدی کی پہلی دہائی کے اختتام میں بھی بھرپور طرح موجود ہے۔​
امن کے بارے میں فیض کچھ یوں گویا ہوئے تھے کہ ”یوں تو ذہنی طور سے مجنوں اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تانباک چیز ہے اور سبھی تصور کر سکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ، شاعر کا قلم ہے اور مصور کا موئے قلم اور آزادی ان سب صفات کی ضامن اور غلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اور حیوان میں تمیز کرتی ہیں۔ یعنی شعور اور ذہانت، انصاف اور صداقت، وقار اور شجاعت، نیکی اور رواداری۔ اس لیے بظاہر امن اور آزادی کے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوش مند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہ ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے یوں نہیں ہے انسانیت کی ابتداءسے اب تک ہر عہد اور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرعمل اور برسرپیکار رہی ہیں۔یہ قوتیں ہیں، تخریب و تعمیر، ترقی اور زوال، روشنی اور تیرگی، انصاف دوستی اور انصاف دشمنی کی قوتیں، یہی صورت آج بھی ہے اور اسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گزشتہ دور کی انسانی الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے فرق ہے۔ دورِ حاضر میں جنگ سے دو قبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ہے۔ نہ آج کل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے۔ آج کل جنگ اور امن کے معنی ہیں۔امن آدم کی بقا اور فنا، بقا اور فنا ان دو الفاظ پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے۔ انہیں پر انسانوں کی سرمین کی آبادی اور بربادی کا انحصار ہے۔ یہ پہلا فرق ہے، دوسرا فرق یہ ہے کہ اب سے پہلے ان انسانوں کو فطرت کے ذخائر پر اتنی دسترس اور پیدوار کے ذرائع پر اتنی قدرت نہ تھی کہ ہر گروہ اور برادری کی ضرورتیں پوری طرح سے تسکین پا سکتیں۔ اس لیے آپس میں چھین، جھپٹ اور لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ جواز موجود ہے لیکن اب یہ صورت نہیں ہے۔ انسانی عقل، سائنس اور صنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھر سکتی ہیں۔ بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر، پیداوار کے یہ بے اندازہ خرمن، بعض اجارہ داروں اور مخصوص طبقوں کی تسکین ہوس کے لیے نہیں بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لیے کام میں لائے جائیں اور عقل اور سائنس اور صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحیتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے ڈھانچے کی بنائیں، ہوس، استحصال اور اجارہ داری کے بجائے انصاف، برابری آزادی اور اجتماعی خوشحالی میں اٹھائی جائیں۔“​
ربط
 
Top