ایک طرحی غزل،'' جو کھو گیا تھا، تری ذات کے تعاقب میں'' مصرع طرح

ملا نہ وقت وہ حالات کے تعاقب میں
جو کھو گیا تھا، تری ذات کے تعاقب میں

ذرا سی دیر میں دیکھا کہ شام ڈھل بھی گئی
یہ دن بھی ڈوب گیا، رات کے تعاقب میں

تُو ایک پل میں کہے گا، پہ ہم بتائیں گے
تمام عمر، وجوہات کے تعاقب میں

کہو نہ حرف بھی سوچو کہیں بُرا تو نہیں
رہو ہمیشہ خیالات کے تعاقب میں

مری ہی ذات میں دوجا یہ شخص کون رہا
یہ کھوجنا ہے تضادات کے تعاقب میں

تجھے تو غرض نہیں ہے صلہ ملے اظہر
مگر ہیں لوگ مفادات کے تعاقب میں

 
ملا نہ وقت وہ حالات کے تعاقب میں
جو کھو گیا تھا، تری ذات کے تعاقب میں

ذرا سی دیر میں دیکھا کہ شام ڈھل بھی گئی
یہ دن بھی ڈوب گیا، رات کے تعاقب میں

تُو ایک پل میں کہے گا، پہ ہم بِتائیں گے
تمام عمر، وجوہات کے تعاقب میں

کمالِ فن بھی ہے محتاج اک تصور کا
رہو ہمیشہ خیالات کے تعاقب میں

مری ہی ذات میں دوجا یہ شخص کون رہا
یہ کھوجنا ہے تضادات کے تعاقب میں

تجھے غرض ہی نہیں ہے صلہ ملے اظہر
مگر ہیں لوگ مفادات کے تعاقب میں​
 

الف عین

لائبریرین
ملا نہ وقت وہ حالات کے تعاقب میں
جو کھو گیا تھا، تری ذات کے تعاقب میں
//درست

ذرا سی دیر میں دیکھا کہ شام ڈھل بھی گئی
یہ دن بھی ڈوب گیا، رات کے تعاقب میں
//یہ بھی درست۔ ہاں، ’یہ دن‘ کی بجائے ’لو، دن ‘ بہتر لگتا ہے۔

تُو ایک پل میں کہے گا، پہ ہم بتائیں گے
تمام عمر، وجوہات کے تعاقب میں
// یہ شعر سمجھ میں نہیں آ سکا

کہو نہ حرف بھی سوچو کہیں بُرا تو نہیں
رہو ہمیشہ خیالات کے تعاقب میں
یا اب نیا مصرع
کمالِ فن بھی ہے محتاج اک تصور کا
// تفہیم نہیں ہو سکی۔

مری ہی ذات میں دوجا یہ شخص کون رہا
یہ کھوجنا ہے تضادات کے تعاقب میں
// پہلا مصرع ذرا رواں نہیں، ‘دوجا‘ اور ’رہا‘ کی وجہ سے۔
وہ شخص کون تھا جو میری ذات میں تھا نہاں
یا
جو شخص دوسرا تھا میری ذات میں شامل
قسم کا کچھ دوسرا مصرع کہو

تجھے تو غرض نہیں ہے صلہ ملے اظہر
مگر ہیں لوگ مفادات کے تعاقب میں
//’غرض‘ میں را متحرک ہوتی ہے۔ اور مصرع واضح اور رواں بھی نہیں۔ یہ یوں کیا جا سکتا ہے
تجھے غرض نہیں اظہر، صلہ ملے نہ ملے
 
ملا نہ وقت وہ حالات کے تعاقب میں
جو کھو گیا تھا، تری ذات کے تعاقب میں

ذرا سی دیر میں دیکھا کہ شام ڈھل بھی گئی
لو دن بھی ڈوب گیا، رات کے تعاقب میں

تُو ایک پل میں کہے گا، پہ ہم بتائیں گے
تمام عمر، وجوہات کے تعاقب میں
{ اس شعر میں کہنا یہ ہے کہ، تُم تو کوئی بات ایک ہی پل میں کہ کے چلے جاو گے، مگر ہماری زندکی بیت جائے گی، اُس بات کو کہنے کی وجہ جاننے کے لئے}


کمالِ فن بھی ہے محتاج اک تصور کا
رہو ہمیشہ خیالات کے تعاقب میں
{ یہاں یہ بات کہی ہے جی کہ، کتنا بڑا فن کار ہو اور کتنا بڑا اُس کا فن ہو، وہ ایک تصور سے ہی جنم لیتا ہے، اس لئے خیالات کا پیچھا کرتے رہیے تاکہ کچھ کر پائیں دنیا میں}

مری ہی ذات میں اک شخص اور رہتا تھا
یہ کھوجنا ہے تضادات کے تعاقب میں

تجھے غرض نہیں اظہر، صلہ ملے نہ ملے
مگر ہیں لوگ مفادات کے تعاقب میں
 

الف عین

لائبریرین
کمال فن والے شعر کے بارے میں میرا بھی یہی اندازہ تھا۔ لیکن عمر بِتائیں گے‘ کو میں ’بَتائیں گے‘ پڑھ رہا تھا۔ اس کو گزاریں گے کیا جا سکتا ہے۔ ویسے شعر روانی چاہتا ہے۔ کوئی متبادل سوچو، میں بھی سوچتا ہوں۔
 
Top