محمد اظہر نذیر
محفلین
فقط جو کام تھے ذمے وہ کر رہا تھا میں
نہ جی رہا تھا خوشی سے نہ مر رہا تھا میں
بھٹک گیا تو پتہ بھی نہ چل سکا مجھ کو
نئی سی راہ تھی، جس سے گزر رہا تھا میں
میں پوچھتا ہی رہا، زندگی میں تھا اُسکی؟
مگر بتا نہ سکا وہ، اگر رہا تھا میں
عدو کے سامنے میں حوصلہ نہیں ہارا
دعا وہ کس کی تھی، سینہ سپر رہا تھا میں
سمیٹتا بھی کہاں تک مجھے وہ چارہ گر
دیار و دشت و دمن میں بکھر رہا تھا میں
وہی زمیں تھی، وہی آسماں مگر اظہر
گزر گیا تو فقط اک خبر رہا تھا میں